Kitab Meri Manzil Ka Ishara
کتاب میری منزل کا اشارہ
کتاب ایک ایسا وسیلہ ہے جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی رہ دیکھا دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال قرآن مجید کو ہی لے لیں یہ وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کا زمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے اور یہ کتاب انسان کے تمام مسائل کا حل ہے۔
ہم میں سے کافی نوجوان ایسے ہیں جو صرف مسلمان ہونےکےتقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قرآن مجید کو پڑھتے ہیں لیکن اس کے معنی با لکل نہیں جانتے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں جن میں سے ایک تبدیلی ٹیکنالوجی ہے۔
آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ٹیکنالوجی ایک ایسا اوزار ہے جس سے آپ ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہو مثلاً اگر کوئی زبان نہیں آتی تو یوٹیوب پر اپ ایسے سیکھ سکتے ہو بنا کسی لین دین کے۔ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں میں کافی اور بھی آسانیاں پیدا کر دیں ہیں۔ پہلےتو یہ بہانہ تھا کہ ہم پاکستانی شہری یا امریکی شہری ہیں تو ہمیں عربی زبان نہیں آتی لیکن آب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر رہی ہے کہ آپ کسی بھی زبان کو اپنی قومی زبان میں ترجمہ کر کے سکھ اور سمجھ سکتے ہو۔
اس کے علاوہ ملک بھر کے جتنے بھی مصنفین ہیں انہیں نے قرآن مجید کو مختلف زبانوں میں ٹرانسلیٹ کیا اور اپنے ناول تحریر کرتے وقت قرآن مجید میں سے مختلف مثالوں کے زریعے اپنے کردار میں وزن ڈالا۔ اور ایک سادہ سی کہانی میں یوں روشنی ڈال کر لوگوں کے آگے پیش کر دیا۔ ہمارے معاشرے میں ایک کانسپٹ کتابی کیڑے کا بھی ہے۔ کتابی کیڑے عموماً طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو صرف کتابوں کے زور پر آگے بڑھنا پسند کرتے ہیں۔
زندگی کا علم ہو یا نہ ہو لیکن تھیوری آف ریلیٹوٹی اور ہیومن اناٹومی کا رٹا لگا کر لوگوں کو متاثر کرنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں بھلے ہی ان اونچی ہستیوں کو ان سب تحریروں کے اصل معانی نہ پاتا ہوں لیکن پھر بھی اپنی رٹی رٹیائی گفتگو سے اپنے استاتذہ اور اردگرد کے لوگوں کو خوب متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔ سوسائٹی میں مختلف ذہانت کے لوگ پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا کتابوں کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اور یہ چند لوگ سرفہرست ہیں:
ایک۔۔ جو کتابیں صرف اگلے کو دیکھانے کے لیے پڑھتے ہیں۔ دو۔۔ ایک وہ ہوتے ہیں جن کو کتابوں سے واقعی محبت ہوتی ہے اور وہ اس کو اپنا قریبی دوست مانتے ہیں ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ کتابوں سے اچھا کوئی دوست نہیں ہوتا، اگر ان کے پاس کتاب نہ ہو تو یہ لوگ تنہا محسوس کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں نے کتاب نہ بھی پڑنی ہو لیکن پھر بھی ان کے پاس ان کی کتاب ضرور موجود ہوتی ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
تین۔۔ اور کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو کتاب پڑھ کر اس پر تنقید کرنے بیٹھ جاتے ہیں، ایسا بھی نہیں کہ وہ کتاب پڑھ کر اس پر تنقید کرکے چھوڑ دئیں بلکہ وہ ہر بار ایک نئی کتاب پڑھتے ہیں اور اس کتاب کے مصنف کو چلینج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے کہ وہ خود بہت بڑے عالم فاضل ہوں یا پھر انہیں کتابوں کے بارے میں خوب علم ہو۔
اس کی ایک مثال دیتی چلوں مجھے کتابیں پڑھنا اور جمع کرنا بہت پسند ہے اور میں عموماً آن لائن کتابیں آرڈر کرتی رہتی تھی، یونیورسٹی میں، میں نے ایک سہیلی بنائی جو دوسروں کو دیکھ کر زندگی گزارتی تھی۔ پہلے بندے کی اس عادت پر تنقید کرتی اور پھر بعد میں وہ بھی وہی عادت اپنانے کی کوشش کرتی۔ میں اکثر اوقات فارغ وقت میں کتاب پڑھا کرتی تھی تو میری سہیلی صاحبہ مجھے کہنے لگئیں کہ "یار یہ کتابیں تو ایسی ہی ہیں، یہ تو اوٹھنٹک نہیں ہوتیں"۔
میں نے فرمایا بی بی ہم خود تو ایک لفظ نہیں لکھ سکتے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں ان تعلیم یافتہ، ہونہار اور ذہین لوگوں پر تنقید کرنے والے۔ یہ بات اس کی سمجھ میں تو آ گئی تھی مگر مجھے نیچا دکھانے کے لیے اور بیواقوف کہلانے کے لیے اس نے مزید وضاحتیں پیش کئیں جن کو میں نے نظر انداز کر دیا۔ پھر کچھ دنوں بعد وہ بھی موٹی موٹی کتابیں لے آئی اور مجھے یہ بتانا چاہ رہی تھی جیسے ایسے کتابوں سے اور علم سے بہت لگاؤ ہے پھر ایک دن تنگ آکر بولی "یار مجھ سے یہ موٹی موٹی کتابیں نہیں پڑھی جاتیں پتا نہیں تم کیسے پڑتی ہو"۔
چار۔۔ لوگوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کتابوں کو سمجھتے نہیں بلکہ رٹے مار کر دماغ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کے آگے کانسپٹ کوئی معانی نہیں رکھتا۔ یہ لوگ پھر دوسروں سے بھی کتابی نالج کی امید کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ طلباء تو رٹے مارتے ہی ہیں میں نے تو استاد بھی ایسے دیکھے ہیں جو کتابیں رٹ کر دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرےعظیم ساتھیوں جو میری یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے یہ گزارش ہے کہ "کتابی کیڑے" نہ بنئیں۔
کتاب کو صرف پڑھنے میں مزہ نہیں آتا بلکہ سمجھنے میں بھی آتا ہے، کتاب کی فطرت بلکل انسان جیسی ہے۔ جیسے انسان کی جب تک سمجھ نہ آ جائے تو انسان کے ساتھ زندگی گزارنا یا تو مشکل ہو جاتا ہے یا پھر نا ممکن کیوں کہ کتاب بھی انسان کی طرح توجہ مانگتی ہے۔ توجہ دو گے تو اپنے عقلی صفوں کو حل کر سکو گے اور میں یہاں سینئر صحافی جاوید چوہدری کی ایک بات کا حوالہ دوں گی۔۔
انہوں نے بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "انسان کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور جب تک آپ پڑھیں گے نہیں آپ ایک اچھے انسان نہیں بن سکئیں گے اور اگر آپ اچھے انسان نہیں بن سکئیں گے تو آپ ایک اچھی نسل نہیں سنوار سکئیں گے"۔ لہذا کتابوں سے لگن صرف لوگوں کو دیکھانے کے لیے نہ رکھیں بلکہ سکھیں کیوں کہ کبھی کبھار جو کتاب کہے دیتی ہے ان کے آگے لوگوں کی باتیں پھکی پڑ جاتیں ہیں۔
عموماً جو لوگ کتابوں سے عشق کرتے ہیں ان کو لوگوں کی باتوں اور مشوروں سے کوئی غرض نہیں ہوتا اب چاہے وہ بات کوئی سچی ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے باوجود وہ کتابوں کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کو اپنے علم اور شعور کا حصہ بناتے ہیں۔ مجھے کتابیں پڑھنے اور ہر طرح کے موضوعات کے بارے میں علم لینے کا بہت شوق ہے لیکن کچھ مسائل سامنے آ جاتے ہیں جن کی وجہ سے کر نہیں پاتی۔ البتہ میں اپنی یہ خواہش ضرور پوری کروں گی انشاء اللہ۔
کتابی کیڑے ہونے میں برائی کوئی نہیں، برائی یہ کہ ہم کتاب کو سمجھ کر نہیں پڑھتے اور اس کی قدر نہیں کرتے۔ کتاب کبھی کبھار انسان کو ایسی حقیقت کی طرف لے جاتی ہے جس کا انسان کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ اللہ جس کو چاہے سیدھا راستہ دکھا دے۔ اب یہاں میں اپنی زندگی کی کتاب کے کچھ صفحے پر لکھی تحریر بیان کروں گی۔
آج سےچند سال پہلے کا واقعہ ہے جب میں ہوں گی ساتھیوں یا آٹھویں جماعت میں تو اس وقت میں نے ایک اردو کتاب پڑھنے کا سوچا حلانکہ اس وقت میری اردو کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی میں نے وہ اردو کتاب پڑھی، اس کتاب کا نام تھا "جب زندگی شروع ہوگی" اس کے مصنف ابویحییٰ عرف ریحان احمد یوسفی ہیں۔ ان کی تمام کتابیں ابھی تک میں نے جتنی بھی پڑھیں ہیں سب کی سب وجود کو ہلا دینے والی ہیں۔
جب زندگی شروع ہوگی کی ایک پوری سیریزہیں جن کے نام سرفہرست ہیں: "قسم اس وقت کی"، "خدا بول رہا ہے"، "آخری جنگ"، اور آخری کتاب "ادھوری کہانی"۔ میں نے اس وقت کتاب "جب زندگی شروع ہوگی" صرف تھوڑی سی پڑھی تھی اور چھوڑ دی تھی شاید اللہ کا حکم نہیں تھا کہ میں ایک دم سے اُسے پہچانا شروع کر دوں۔ جس کی وجہ سے زندگی کے ہر موڑ پر آ کر میں اللہ سے صرف یہی سوالات کرتی تھی کہ "آخر میں ہی کیوں؟"، "اللہ آپ کچھ کرتے کیوں نہیں؟"، "آپ میری دعا قبول کیوں نہیں کرتے، مجھے کس چیز کی سزا مل رہی ہے؟" یہ سب سوالات میرے تکیہ کلام بن چکے تھے، ان سب سوالات کے جوابات لوگوں میں ڈهونڈتی تھی مگر کوئی میرے سوالوں کے جواب نہ دے سکا۔
بل آخر کھلے آسمان کے نیچے یوں ہی اللہ سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرتی اور چوپ ہو جاتی۔ دوہزار بیس آیا میری ڈگری کا آغاز ہی تھا کہ دوسرے سمسٹر کے درمیان کرونا وائرس آ گیا (کرونا وائرس ایک وائرل اور جان لیوا بیماری ہے) چونکہ یہ نئی وابا تھی اور وائرل بھی تھی مطلب جو اس بیماری کا شکار ہو جاتا اس کو پندرہ دنوں کے لیے قرنٹنا میں رہنا پڑتا تھا۔ اب اس دوران ملک بھر میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا اور اس بیماری کی وجہ سے خوف بھی اچھا خاصا پھیلا کیوں کہ ایک دن میں کئی گنا اموات سنے کو ملتیں تھیں جس کی وجہ سے لوگ کافی خوفزدہ ہوگئی تھے۔
خیر میں نے اس لاک ڈاؤن کے دوران ابویحییٰ کی کتاب "جب زندگی شروع ہوگی" کو شروع سے پڑھا لیکن اس بار پڑھنے اور سمجھنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ اس بار اس کتاب کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے شاید اس لیے کہ مصنف نے مجھے اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا راستہ دکھایا اور دوسری وجہ ایک یہ بھی تھی کہ میرے کچھ سوالوں کے جوابات بھی آہستہ آہستہ کرکے سامنے آ رہے تھے۔
اس کتاب کے ایک ایک لفظ نے میرے وجود کو مجھے پہچاننے پر مجبور کر دیا، کافی خوف کا عالم برپا ہوا، میری غلطیاں مزید کھل کر میرے سامنے آئینہ دار ہونے لگئیں۔ میرے اردگرد کا سماں کچھ یوں ہوگیا تھا جیسے قیامت قریب ہو اور چند ہی لمحوں میں، میں اللہ کی عدالت میں پیش کر دی جاوں گی۔ میں نماز کے دوران بیساختہ رونے پر مجبور ہو جاتی اور وہ احساس کسی محبت کے احساس سے کم نہیں تھا۔
اسی طرح میں نے اس کتاب کے باقی حصوں کو بھی خوب دل لگا کر پڑھا اور ان کتابوں کو پڑھ کر یہ احساس کیا اللہ ہر جگہ ہے، ہمیں آواز دیتا ہے، مختلف اشاروں کے زریعے سہی اور غلط کا موازنہ کرنا سکھاتا ہے۔ اور ان اشاروں کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کو طوفے کی سورت میں نبی کریم ﷺ پر نازل کیا تاکہ وہ اپنی امت مسلمہ کی رہنمائی کر سکیں۔
لہذا میری زندگی کا تجربہ ہے، چاہے کوئی بھی کتاب اس کو سمجھ کر پڑھیں گے اور روز پڑھنے کی عادت ڈالیں گے تو علم میں اضافہ ہوگا اور دوسرا مثبت سوچ زندگی کی ساتھی بن جائے گی۔ اور رہی قرآن مجید کی یہ وہ اہم حصہ ہے ہماری زندگی کا جس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں تو کوشش کریں ہر روز قرآن کی تلاوت کریں تاکہ دنیا کے مسائل کو حل کر سکیں۔