Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Apni Maa (2)

Apni Maa (2)

اپنی ماں(2)

آج مجھے اپنے پرانے کاغذات کے پلندے الٹ پلٹ کرتے ہوئے، اپنی ایک آپ بیتی مل گئی تھی، جس کو لکھے اور چھپے ہوئے ایک عشرہ بیت چکا ہے۔ آج نہ میری ماں زندہ ہے اور نہ میری بیوی کی، دونوں کی چار سال قبل یکے بعد دیگرے وفات ہوگئی تھی۔ ماں کسی کی بھی ہو اس دنیا میں اس کا نعم البدل کوئی نہیں ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا، کہ جب تک ماں زندہ ہوتی ہے، ہمیں اس کی قدروقیمت کا احساس نہیں ہوتا۔ جب ماں چھوڑ کر اگلے جہاں چلی جاتی ہے، تو پھر اس وقت ہی ہمیں ماں کی قدر و قیمت کا پتا چلتا ہے! مگر اسوقت ہمارے پاس ماں نہیں ہوتی۔

میرے پاس، ان دونوں ماؤں کے متعلق ڈھیر ساری باتیں ہیں، پر آج میں آپ کے ساتھ "اپنی ماں "کی صرف ایک ہی بات شئر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک عوامی فورم پر،میرے ساتھ آمنے سامنے بیٹھ کر سوال و جواب کا سلسلہ چل رہا تھا، کہ اک بزرگ ممبر نے اٹھ کر کہا "سندھو صاحب! میری آپ سے ایک عرض ہے، کہ آپ ابھی اپنے من کے اندر جھانکو، اور دیکھو کہ آپ کو اپنی یاداشت میں سے اچانک کون سی تصویر دکھائی دیتی ہے، کون سی بات یاد آتی ہے، پھر آپ وہی بات ہمارے ساتھ شئر کریں ۔ "

سوال دلچسپ تھا۔ میں اپنے من میں چند پل کے لیے اترا۔ مجھے سب سے پہلے اپنی سوچ کے پہلے ورق پر جو تصویر اور اس سے جڑا واقعہ نظر آیا۔ اسے دیکھ کر اپنے آپ پر حیرانی بھی ہوئی اور شرمندگی بھی کہ میں اپنی ماں سے جڑے اس واقعے کو کیسے نظر انداز کیے بیٹھا تھا۔تو پھر میں نے شرکاء کے ساتھ اس یاد کو شئر کیا۔

1972دی"موگا-ایجیٹیشن"کے دوران کچھ دن جیل میں گزارنے کے بعد جب رہائی ملی، تو میں اپنی دوبارہ گرفتاری کے ڈر سے ادھر ادھر چھپا ہوا تھا، سرکار کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت چند قیدی چھوڑے گئے تھے، مگر ایجیٹیشن کے دوران پکڑے گئے دوسرے قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی حکم نہیں آیا تھا۔ میں کیونکہ"جیل-کمیٹی"کا قائد تھا اور میرا نام اردگرد کی تحصیلوں میں بھی گونجتا تھا، اس لئے تو بی ایڈّ کا طالب علم ہونے کے باوجود بھی مجھے رہا نہیں کیا جارہا تھا۔

اگر میرے خالصہ کالج آف ایجوکیشن امرتسر کے پرنسپل صاحب، میرے طالب علم ہونے کا سرٹیفکیٹ ڈی سی اور ایس ایس پی کے نام نہ لکھتے جو، انہوں نے امر سنگھ کے ہاتھ بھیجا تھا تو میری رہائی کبھی نہ ہوتی۔میرے گھر والوں کو میرے خفیہ ٹھکانے کا پتا تھا۔ میرا اک دوست پیغام لےکر میرے پاس پہنچا۔ کہ میرے باپ کی حالت ٹھیک نہیں، میری ماں کا حکم تھا کہ میں فوراً سے پہلے گھر پہنچوں۔ میں اپنے دوست کے ساتھ ہی گاؤں کی طرف چل دیا، گاؤں پہنچا تو پتا چلا کہ باپ کی حالت بگڑنے کے باعث، انہیں امرتسر کے سرکاری ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

میں فوراً امرتسر چلا گیا۔ ہسپتال پہنچا تو دیکھا میرے باپ کو آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ اور وہ بے ہوش تھے۔ میری ماں میرے باپ کے سرہانے لگ کر بیٹھی تھی۔ اسنے سٹول سے اٹھ کر مجھے گلے لگایا، اور کہا بے فکر ہوجا تیرا باپ اب پہلے سے بہتر ہے۔ ماں کے مطابق ڈاکٹر اپنی پوری کوشش سے علاج کررہے ہیں۔"واہگرو بھلا کرے گا"،ماں اس وقت اپنا حوصلہ پوری طرح سنبھالے ہوئے تھی۔ہسپتال کے بستر پر میرے باپ کا تیسرا دن تھا، اور وہ مسلسل بے ہوش تھا۔ دماغ کی نس پھٹ گئی تھی۔ ڈاکٹر"ہاں"یا"ناں"میں کوئی جواب نہیں دے رہے تھے ٹیسٹ لگا تار ہو رہے تھے۔

میں اور میرا دوست میڈیکل کالج سے رپورٹیں وغیرہ بنوانے چلے گئے، صبح نو دس بجے کے گئے، رپورٹیں بنواتے بنواتے دن کے ڈیڑھ یا دو بجے کا وقت ہو گیا تھا۔ رپورٹیں لیکر سیدھے ہسپتال پہنچے، ماں ہمیں دیکھ کر باہر برآمدے میں ہی آگئی، پوچھنے لگی،رپورٹیں لے آئے؟ چلو ٹھیک ہوگیا! ماں میرے ہاتھ میں لفافہ دیکھ کر مطمئن ہوگئی۔ پھر جیسے اسے کوئی بھولی بسری بات یاد آگئی، "ہیں وریام پتر! دوپہر ڈھل گئی۔ تم دونوں نے کچھ کھایا پیا بھی ہے کہ نہیں؟ "

ہمارا جواب نہیں، ماں وقت ہی نہیں ملا ،سن کر کہنے لگی،جاؤ میرے لعل جاؤ پہلے کچھ پیٹ پوجا کر آؤ، صبح کے بھوکے پیٹ گھوم رہے ہو، رپورٹیں مجھے دو، میں خود ڈاکٹر کو چیک کروا لیتی ہوں ۔ ماں کا چہرہ ممتا کی شفقت سے موم بنا ہوا تھا۔میں نے کہا، ماں جی کوئی بات نہیں ڈاکٹر کو ایک بار رپورٹیں دکھا کر پھر آرام سے کچھ کھا لیں گے، ماں نے پیار بھرے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ تم رپورٹوں کی فکر نہ کرو، تم دونوں پہلے کچھ کھا پی لو، رپورٹیں میں دکھاتی ہوں، اور تمھارے باپ کے پاس بھی بیٹھتی ہوں، اس کی فکر نہ کرو۔

ماں کے اصرار پر ہم روٹی کھانے چلے گئے، جب کھانا وغیرہ کھا کر واپس آئے، تو باپ کے سرہانے لگ کر بیٹھی ماں یکدم کھڑی ہوکر میری طرف بڑھی، اور اسی وقت اسی کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوؤں کی لڑیاں بے بس ہوکر ٹپ ٹپ گرنے لگیں ۔"جاؤ بیٹا! کوئی ٹیکسی لے آؤ! تمھارا باپ پورا ہو گیا ہے۔"ماں نے اپنے ہونٹ اپنے دانتوں کے نیچے دباتے ہوئے اپنی چیخ کو اپنے اندر ہی ضبط کرلیا۔ماں نے اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کیا، بیٹا تمھارا باپ تو تمھاری رپورٹیں لانے سے پہلے ہی گزر گیا تھا۔ مگر جب تم رپورٹ لے کر آئے تو میں نے جان بوجھ کر تمھیں نہیں بتایا۔

میں نے سوچا، کہ ابھی تمھیں بتادیا تو تم نے فوراً باپ کی چتا کو لیکر گاؤں چلے جانا ہے، پھر وہاں بہن بھائیوں سے ملتے روتے کرلاتے، پتا نہیں میرے لعل تمھیں روٹی کھانے کا کب موقع ملے گا، موقع ملے گا بھی یا نہیں،تمھاری بھوکی آنتوں کا سوچ کر میں نے تمھیں زبردستی کچھ کھانے کو بھیجا تھا۔ یہ کہہ کر ماں نے میرے گم صم وجود کو بازو سے پکڑ کر آگے کیا، اور کہا، لے اب اپنے باپ کے چہرے کا آخری دیدار کرلے۔ میری ماں نے باپ کی چہرے سے کپڑا ہٹایا، میرے باپ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شانت چہرہ دیکھ کر اس نے مجھے کسی نوزائیدہ بچے کی طرح اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔

میری ماں کی عمر اسوقت اکتالیس یا بیالیس سال ہوگی، اور میرا باپ پینتالیس یا چھیالیس کا ہوگا۔ اس عمر میں اس کا سہاگ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ شوہر کے بغیر اس کے سامنے تپتے صحرا جیسی بے رونق اور مشکل ترین ابدی جدائی والی طویل حیات تھی۔ اس کا تو جہان لٹ گیا تھا۔ پربتوں سے بھاری دکھ کا بار اٹھائے، اس کے غم پر ممتا کی شفقت غالب تھی، پتا نہیں کس طرح اس مہان عورت نے اپنے لٹنے کا احساس فراموش کرکے، اپنے لخت جگر کی بھوک کی فکر کلیجے سے لگائی تھی۔

میں اپنے من کے اندر جب خدا کے اس روپ کو یاد کرتا ہوں، تو میرے جسم کا لوں لوں تھرتھرانے لگتا ہے، میری آنکھیں چھم چھم نیر بہانے لگتی ہیں ۔ اپنی مہان ماں کی یاد کے سامنے میرا سر جھک جاتا ہے۔ آج اپنی ماں کے حوالے سے میں دنیا بھر کی ماؤں کی ممتا، شفقت، صدق، صبر تے بہانے بہانے چھلکتی سیراب کرتی محبت کو سلام پیش کرتا ہوں ۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat