Apni Maa (1)
اپنی ماں(1)
فون کی گھنٹی لگاتار بج رہی تھی۔ میں نے جلدی سے ریسیور اٹھایا" ایک بری خبر ہے۔ اپنی ماں جی گزر گئیں ہیں "میرا دل دہل کر رہ گیا، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو میں اور میرا بیٹا گاؤں سے، ماں جی کو مل کر گھر پہنچے تھے۔ صبح جب ہم گاؤں گئے تھے تو"کھیتوں والے گھر" میں ماں اور میرا چھوٹا بھائی دونوں ہی نہیں تھے۔ ہم جالندھر سے انہیں ہی تو ملنے کے لیے آئے تھے اور وہ گھر پر ہی نہیں تھے۔ گھر میں چھوٹے بھائی کی گھر والی تھی، اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی " بڑی اماں کو تو کل دل کا دورہ پڑا تھا۔ چارپائی پر پڑی پڑی تڑپنے لگی تھی، سرتاج تو گھر نہیں تھے، آپ کی بھتیجی دیپ دوڑ کر ڈاکٹر کو بلا لائی تھی، پھر آپ کے بھائی بھی آگئے تھے، حالت زیادہ خراب تھی، اس لیے بڑی ماں جی کو گاؤں کے بڑے ڈاکٹر چھینہ صاحب کے پاس لے گئے تھے، گلوکوز وغیرہ لگادیا تھا، اب وہاں ہی علاج ہورہا ہے۔
میں اور میرا بیٹا تقریباً بھاگتے ہوئے، ڈاکٹر چھینہ کے کلینک میں داخل ہوئے، ماں جی کو گلوکوز کی بوتل لگی ہوئی تھی۔ میرا چھوٹا بھائی سریندر ساتھ والی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ ماں جی کے کملائے اور مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر دل میں ہول اٹھنے لگے، گھبرا کر ڈاکٹر سے ان کی حالت کا پوچھا۔ ڈاکٹر نے بتایا۔ شکر کرو سندھو صاحب بڑی بچت ہوگئی ہے۔ جب انہیں دل کا دورہ پڑا، تو اسی وقت آپ کا بھائی انہیں میرے پاس لے آیا تھا، بروقت طبی امداد سے اب حالت خطرے سے باہر ہے۔ مگر اب آپ کو مریضہ کی دیکھ بھال پر زیادہ دھیان رکھنا ہوگا، ساتھ ہی اپنی ماں جی کو کہہ دیں کہ اب زیادہ چلنا پھرنا ختم کردیں، اور دوائی بروقت کھایا پیا کریں۔
بس تھوری سی گلوکوز بوتل میں رہ گئی ہے، جیسے ہی ختم ہوتی ہے، میں دوائیں دے دیتا ہوں۔ میری طرف سے انہیں گھر لے جانے کی مکمل اجازت ہے، اب پریشانی یا خطرے والی کوئی بات نہیں ڈاکٹر کی باتیں سن کر ہم باپ بیٹے کی جان میں جان آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہم دونوں کی آؤ بھگت کے لیے ٹھنڈی بوتلیں منگوا لیں، ہم وہ پینے لگے۔ ڈاکٹر نے گلوکوز ختم ہوتے ہی، بوتل اتاری، ماں جی کو ہمت دے کر بٹھایا اور ٹھنڈی بوتل پینے کے لیے کہا، دو اڑھائی گھنٹے ڈاکٹر کے پاس بیٹھنے کے بعد میرا بیٹا اپنے چچا اور دادی کو گھر چھوڑ آیا۔ اور ابھی میں جالندھر واپس گھر پہنچا ہی تھا کہ، فون آگیا۔ میں نے گھبراہٹ میں ہی پوچھا، "یار کب گزر گئی ماں؟
آگے فون پر میرے دوست۔ رشتے دار امر سنگھ کی آواز تھی۔ وہ میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں بھکھیونڈ کی چوک سے بات کر رہا تھا۔ کہنے لگا، بس بالکل ابھی ابھی ان کے سانس پورے ہوگئے۔ میرا جسم تو سُن ہو گیا، ہوسکتا ہے گھر پہنچتے ہی ماں جی کو پھر دل کا دورہ پڑا ہو، اور میرا بھائی فوراً انہیں اچھے علاج کے لیے دوسرے گاؤں بھکھیونڈ لے گیا ہو۔ اور پھر وہاں ہی ماں جی کی موت کا بہانہ بن گیا ہوگا۔ امر سنگھ اپنے کسی کام سے بھکھیونڈ گیا ہوگا، اور وہاں اسے جب یہ بری خبر پتا چلی ہوگی تو سب سے پہلے مجھے خبر کرنے دوڑا ہوگا۔ میرے ذہن میں بڑی تیزی سے یہ سارے خیال دوڑنے لگے تھے۔
میں خوابگاہ سے، لابی کی طرف دوڑا جہاں میری بیوی اور بچے ٹیلیویژن دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ماں جی پورے ہوگئے۔ ہائے! ہائے! یہ کیا ہوگیا ماں جی کو، میری بیوی نے بدحواس ہوکر ہاتھ پر ہاتھ مارا اور پریشانی سے کہنے لگی، فون پر کون بات کررہا تھا؟ امر سنگھ تھا، ماں جی تو خیر سے اچھی بھلی یہاں سے گئی تھی! یہ یکدم کیا ہوگیا؟ میری بیوی نے سمجھا کہ شاید اس کی ماں گزر گئی ہے، جو پہلے ہمارے پاس ہی رہ رہی تھی، مگر پچھلے چند دنوں سے اپنے گاوں جھبال گئی ہوئی تھی۔ میں اپنی بیوی کی بات سمجھتے ہوئے کہنے لگا نہیں، جھبال والی ماں جی نہیں، سر سنگھ والی میری ماں جی کی خبر ہے۔ میں ٹیلی فون، ساتھ ہی لابی میں اٹھا لایا تھا، سب اسے ہی گھورنے لگے تھے، یکدم خاموشی چھا گئی۔
میری بیوی نے کہا، "اگر امر سنگھ کا فون ہے تو پھر ضرور جھبال والی میری ماں جی کی خبر ہے "۔ میں سوچنے لگا یہ بات سچ بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ امر سنگھ کے لڑکے کے ساتھ میری بیوی کی بھانجی بیاہی ہوئی ہے، اس طرح میری ساس اسکی بہو کی نانی بنتی تھی۔ امر سنگھ کو اپنی بہو سے پتا چلا ہوگا، اور اس نے ہمیں فون کردیا ہوگا۔ آخر وہ ہمارا شریکِ رشتہ دار بھی لگتا تھا۔ میں اس خبر کی تصدیق کرنے کے لیے مختلف رشتہ داروں کو فون کرنے لگا، مگر سب جگہوں سے ایک ہی جواب آرہا تھا، تمام لائنیں مصروف ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم سوچ بچار بھی کررہے تھے، اگر جھبال والی ماں جی (میری ساس) کو کچھ ہوا ہوتا، تو پھر جھبال والوں نے خود فون کرنا تھا، ان کے گھر تو فون بھی تھا۔
انہوں نے بھلا امر سنگھ کو کیوں کہنا تھا کہ مجھے خبر کردیں؟ یہ ضرور سر سنگھ والی میری ماں جی کی خبر ہے۔ مگر میری بیوی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی، وہ بار بار جھبال والی ماں جی کا کہتی، اور کہتی کہاں تمھارا گاؤں، کہاں امر سنگھ کا گاؤں۔ تمھارا بھائی مریضہ کو لیکر گاؤں گاؤں تو نہیں پھرتا رہا نا۔ کہیں امر سنگھ کی ماں تو نہیں پوری ہوگئی؟ ذرا بتانا اس نے فون پر کیا کہا تھا؟ اس نے فون پر کہا تھا کہ اپنی ماں جی گزر گئی ہیں۔ انہی باتوں کے درمیان فون کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی، میں نے ایک بار پھر لپک کر فون اٹھایا۔
اجنبی سی آواز تھی، جی ابھی تھوڑی دیر پہلے امر سنگھ جی آپ کو فون کررہے تھے، لائن کٹ گئی تھی، دوبارہ کال نہیں مل رہی تھی، وہ تو خود گاؤں چلے گئے ہیں اور کہہ گئے تھے کہ آپ کو بتا دوں بٹالے بھی خبر کردیں۔ بٹالے میری بیوی کی بہن رہتی تھی، جس کی بیٹی امر سنگھ کے گھر بہو تھی، میں نے تصدیق کرنی چاہی، "امر سنگھ کی ماں جی گزری ہے نہ"؟ ہاں جی، کل دن بارہ بجے آخری رسومات ہیں۔ کہہ کر اس نے کال بند کردی۔ اس خبر سے ہم سب کے سروں سے منوں بوجھ اتر گیا۔ میں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا، "امر سنگھ نے تو میری جان ہی نکال دی تھی"۔
انکل امر سنگھ، جان نکالنے کے معاملے میں بڑے تیز ہیں۔ میرے بیٹے سپندیپ نے کہا اور پھر ماضی میں ہوا واقعہ دہرانے لگا۔ جب ہر طرف ہنگامے پھوٹے ہوئے تھے، تو ان دنوں لوگ شام چھ بجے ہی دروازوں کو تالے لگا کر، گھروں کے اندر دبک جاتے تھے، ان دنوں سخت سردیاں تھیں، رات دس بجے کا وقت ہوگا، جب ہماری بیرونی دیوار کو پھلانگ کر، صحن میں دو افراد کود آئے، ان کے دھپ دھپ گرنے سے ہم سمجھ گئے، فسادی آگئے ہیں، تو ہم سب گھبرا کر جان بچانے کے لیے کمروں کے اندر چھپ گئے۔ وہ تو جب امر سنگھ کی آواز سنی تو ہماری جانوں میں جان آئی، میں نے پوچھا یار امر سنگھ یہ کیا حرکت تھی؟
تو امر سنگھ کہنے لگا، امرتسر گئے ہوئے تھے۔ حالات ایسے ہیں شام کے بعد بس تو آتی نہیں، اندھیرا کافی ہوگیا تو، بڑی مشکل سے جگاڑ کرکے تمھارے پاس پہنچے ہیں۔ دروازہ اس لیے نہیں کھٹکھٹایا کہ، ایسے حالات میں اس وقت تو کوئی کھولتا ہے ہی نہیں، اس لئی دیوار پھاند کے آ گئے۔ سپندیپ یہ قصہ سناتے ہوئے ہنس ہنس کر دوہرا ہو رہا تھا، کہنے لگا میرا تو انکل امر سنگھ کی طرف سے اس وقت کا ڈرایا دل، ابھی تک قابو میں نہیں آیا۔ ہم سارے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ماں تو مری ہی ہے نہ، چاہے امر سنگھ کی ہی مری ہے۔ میری بیوی نے زور سے ہوکا بھرا! مگر ہم پر تو جیسے کچھ اثر ہی نہیں ہوا۔ میں اور سپندیپ ہنسی جا رہے تھے۔
اچانک میری بیوی نے باتوں کا رخ پلٹ دیا، ہیں !ان کی باتیں سن لو، جب پتا چلا کہ ان کی ماں ہے تو کسی مینڈک کی طرح پھسپھسی آواز نکل رہی تھی۔ جب میں نے کہا، آپ کی نہیں، یہ تو میری ماں کی خبر ہے، تو اسی وقت چپ اور شانت ہو گئے۔ سارے کھلکھلا کے ہنسے، میں کھسیانی ہنسی کے ساتھ کہنے لگا "نہیں نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں، مگر اندر سے جیسے آواز آئی، اسطرح کی کوئی بات تھی تو سہی۔ نہیں نہیں ڈیڈی انکار نہ کرو۔ پہلی خبر سناتے ہوئے آپکی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ مگر اس کے بعد تو آپ یکدم سنبھل سے گئے تھے۔ میری چھوٹی بیٹی رمنیک نے کہا۔ لو جی اگر ایسی کوئی بات ہے تو، میں نے فوراً بات بیوی پر تھوپنے کی کوشش کی، جب تم نے سمجھا کہ تمھاری ماں ہے تو کیسے بین کرنے لگی، اور جب میں نے زور دیا، نہیں یہ تو میری ماں کی خبر ہے تو تم کیسے چپ ہوگئی۔
چھوڑو! چھوڑو! جی آپ تو اب باتیں بنا رہے ہیں۔ سچ سچ ہی ہوتا ہے۔ میری بیوی نے دوبارہ کہا تو میں چپ ہو گیا۔ مجھے خاموش دیکھ کر رمنیک بولی، چھوڑو جی ممی اب آپ زبردستی بیچارے ڈیڈی کو جھوٹھا نہ ثابت کرو۔ پھر اسنے بڑے پتے کی بات کہی، اپنی ماں، اپنی ماں ہوتی ہے۔ ہر ماں کا پیار، دکھ درد اس کے اپنوں کو ہوتا ہے۔ ڈیڈی کی ماں کا ڈیڈی کے لیے، آپ کی ماں کا آپکےلیے۔ امر سنگھ انکل کا، اپنی ماں کے لیے، اور میری ماں کا میرے لئے، اسنے اپنی ماں کی ٹھوڑی پیار سے پکڑ کر ہلائی۔ میں اپنی بیٹی کے سیانے پن پر مسکرا دیا۔ اس وقت مجھے ساری مائیں اپنی مائیں لگنے لگیں۔