Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Shadi Aik Imtihaan Hoti Hai (2)

Shadi Aik Imtihaan Hoti Hai (2)

شادی ایک امتحان ہوتی ہے (2)

جب میرے کانوں میں باراتیوں کی جانب سے یہ جملہ پڑا "دیکھ بھائی میں بتائے دے ریا اوں وہ سبز سوٹ والی مجھے بھاؤ دے رئی اے" تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں نے عادل کو بلایا اور اسے کہا کہ باراتیوں کے جذبات کو قابو کرے۔ میرا نیا سسرال بننے لگا ہے یہاں پہلے دن ہی میں ذلیل نہیں ہونا چاہتا۔ اس واسطے تو عمر پڑی ہے۔

صاحبو منظر اب کچھ یوں تھا کہ عادل نے کچھ منچلے باراتی عین درمیاں بھرے ہال کے یوں جمع کئیے جیسے میچ شروع ہونے سے قبل کپتان اپنی ٹیم کو گول دائرہ بنائے موٹیویٹ کر رہا ہوتا ہے۔ باراتی سر جھکائے، گول دائرہ بنائے عادل کی وارننگ سُن رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر لڑکی والے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگے کہ آخر چل کیا رہا ہے۔ میں دل ہی دل میں پروردگار سے باعزت وقت گزرنے کی دعا کرتا رہا۔

بارات کو آئے اور ہال میں داخل ہوئے پونہ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ شادی ہال کے باہر باآواز بلند ڈھول ڈھمکے اور چھنکنے بجنا شروع ہو گئے۔ عادل بھاگم بھاگ سٹیج پر آیا اور میرے قریب آن کر بولا " شاہ جی وہ ڈھول والے آ گئے۔ آؤ آپ کی اب اچھی سی انٹری کروائیں"۔۔ یہ سنتے ہی مجھے تپ چڑھنے لگی۔ دراصل وہ نوجوان جن کے ذمہ عادل نے یہ کام لگایا تھا وہ تاخیر سے ڈھول والے ہمراہ لئیے پہنچے تھے۔ میں نے عادل کو کہا "عادل! وہ ڈھول جو بارات کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئیے۔ رخصت کرو ان کو اب بس"۔

عادل نے ڈھیلے گھماتے جواب دیا " اچھا۔۔ پر انہیں پیمنٹ تو پوری کرنا پڑے گی شاہ جی۔ آ جاؤ پیسے تو پورے کریں"۔ یہ دلیل سُن کر میرا ضبط جواب دے گیا۔ میں نے جیب سے ہزار کی گڈی نکالی اور اسے دیتے کہا " یہ لو ان کو دفع کرکے واپس آنا"۔

وہ گیا اور واپس نہ آیا۔ ڈھول بدستور ہال کے باہر بجتے رہے۔ ہال کے اندر لڑکی والے اپنی اپنی نشستوں پر انتہائی سہمے بیٹھے تھے۔ ان کی سمجھ سے ماجرا باہر تھا۔ میری سمجھ سے ماجرا باہر تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہال کے باہر ڈھول کی تھاپ پر میرے پشتون باراتی ناچ ناچ کر سماں باندھ چکے تھے۔ وہ پیسے پورے کر رہے تھے۔ مجھے شرم کے مارے پسینے چھُوٹ رہے تھے۔

جولائی کی بارہ تاریخ تھی۔ کراچی میں سخت حبس کے دن تھے۔ شادی ہال میں لگے ائیرکنڈیشنز بھی کام کرنا چھوڑ رہے تھے مگر ہال سے باہر ڈگا لگا ہوا تھا۔ ڈھول کی تھاپ پر میرے پشتون باراتی پسینے میں نہائے رقص و مستی میں غرق تھے۔ اچانک میرے باراتیوں میں سے ایک میرے قریب سٹیج کے پاس آیا اور بولا "شاہ جی تُساں نہ باہر جھُل سو؟"۔

میں نے اسے غور سے دیکھا۔ مجھے کچھ تسلی ملی کہ باراتیوں میں میرے سوا بھی ایک پنجابی ہے۔ میں نے خوش ہوتے کہا " راجہ جی پنڈی وال او؟"۔ اس کا مسکراتے ہوئے گول گول الفاظ کی ادائیگی کرتے جواب آیا " ناں شاہ جی گوجر خان "۔ اسی کی زبانی معلوم ہوا کہ ہال کے باہر پشتون بھائی ڈھول والے کو اپنا محور بنائے اس کے گردا گرد گول گول گھوم رہے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ میمن بھائی کہاں ہیں؟ جواب آیا کہ وہ پشتونوں کے رقص کو دیکھتے ان کی ویڈیو بنا رہے ہیں۔

سندھی، مہاجر اور نجانے اور کون کون میرے باراتی بھائی ہال میں براجمان تھے۔ میرے اطراف گوجر خانی گھوم رہا تھا۔ اس نے پھر مجھے آواز لگائی " شاہ جی تُساں کا اگے پچھے کائی نئیں؟ تُساں کو میں اپنے گراں گھِن ساں انشااللہ۔ ٹینشن نوں چُل کرا ونجو۔ اساں کا وی کائی بھرا نائیں شاہ جی۔ تُساں اساڈے وڈے بھرا ونگی سو"۔ یہ کہتے وہ چہرہ پر انتہائی معصومیت بھر لایا تھا۔ اس کا اظہارِ ہمدردی ایسا لگ رہا تھا جیسے ڈاکٹر مریض کو تسلی دینا چاہ رہا ہو کہ مرنا تو سب نے ہے مگر میں آخری دم تک تمہارے ساتھ ہوں۔

اُدھر لڑکی والے آن آن کر میری بلائیں لیتے۔ بزرگ خواتین مجھے یتیم و مسکین سمجھ کر آہیں بھرتے سر پر پیار دیتیں۔ مرد حضرات پاس بیٹھتے تو میرے گھٹنوں پر ہاتھ دھرتے بولتے " بیٹا۔ تم اکیلے اکیلے ہو۔ ہماری بیٹی کو خوش رکھنا۔ کبھی کوئی تکلیف ہو تو یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا کوئی نہیں۔ میں بینش (بیگم کا نام) کا چچا نہیں تمہارا بھی چچا ہوں"۔ میں سب سے ہمدردیاں سمیٹتا رہا مگر دھیان ہال کے باہر لگے تماشے کی جانب ہی رہا۔

سٹیج پر بیٹھے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مجھے شدت سے احساس ہونے لگا کہ میرا اس دُنیا میں کوئی نہیں اور یہ سب انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت مجھے بھائی بیٹا بناتے جا رہے ہیں۔ سب ہی بھائی بیٹا نہیں بنا رہے تھے کچھ مجھے کچھ اور بھی بنانے میں لگے تھے۔ مثال کے طور پر اگلا منظر پیش ہے۔

عادل جدون یوں تو ایبٹ آباد ہزارے کا ہے مگر برس ہا برس کراچی میں گزار کر کراچی کے رنگ ڈھنگ میں ڈھل چکا تھا۔ ہال کے دروازے سے وہ اندر آتا دکھائی دیا تو میں سٹیج سے اُتر کر اس کے پاس گیا۔

" ہاں تم نے ڈھول والوں کو پیمنٹ کر دی تو ان کو رخصت بھی کرو اب۔ کیا تماشہ لگا رکھا ہے۔ لڑکی والے کیا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کہاں سے آ ٹپکے"۔

"شاہ جی پیمنٹ کر دی۔ بس وہ سمیٹ رہے ہیں۔ جا رہے ہیں دو منٹ میں۔ تم سکون سے سٹیج پر جاو۔ لڑکوں نے ذرا انجوائے کر لیا اور کیا۔ یونہی ٹینشن نہیں لیتے فضول کی"۔

"اچھا۔ چلو وہ باقی پیسے دے دو ابھی رسم و رواج کے نام پر میری سالیوں نے مجھ سے مانگنے لگ جانا ہے"۔

عادل کو جو میں نے ہزار کی پوری گڈی دی تھی کہ ڈھول والوں کو بھگتا کر آئے اس نے آدھی سے گڈی واپس میری ہتھیلی پر دھری۔ میں نے دیکھا کہ یہ تو لگ بھگ آدھی ہے۔ اسے پوچھا کہ کتنا بل بنا تھا ڈھول والوں کا؟ عادل نے ڈھیلے گھمائے "آٹھ ہزار"۔

"تو باقی پیسے؟" میں نے استفسار کیا۔

"او شاہ جی باقی ویلوں میں لٹا دئیے۔ بہت سوہنا نچ رے سی۔ واجے والیاں نوں وی ویل تے دینی سی"۔

"کیا مطلب؟ تم نے بیس تیس ہزار ویل میں لٹا دیا؟"

یہ جان کر میری گھگھی بندھ گئی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور عین اسی وقت اعلان ہوا کہ دُلہن ہال میں آ رہی ہے۔ عادل سچ میں ویلیں لٹا آیا تھا۔ اصل میں لٹا کر تو مجھے آیا تھا۔ اس وقت کیا کہہ سکتا تھا۔ عادل کے ہمراہ چلتے سٹیج پر جا پہنچا۔

دُلہن ہال میں داخل ہو رہی تھی۔ سٹیج تک کے راستے پر ریڈ کارپٹ بچھا تھا جس کے اطراف برقی انار یا آتش بازی کا مواد قدم قدم پر موجود تھا۔ انار چلنے لگے۔ پھلجڑیاں اٹھنے لگیں۔ ان کے بیچ بیگم دُلہن بنی قدم بہ قدم اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے ہمراہ چلی آ رہی تھی۔ باراتی منہ کھولے منظر تک رہے تھے۔ میں باراتیوں کے منہ تک رہا تھا۔ عادل مجھے تکتے بولا " لو شاہ جی بھابھی آگئی۔ اب آپ ان کے ساتھ بیٹھو میں اپنے بچوں کے پاس جاؤں"۔

عادل سٹیج سے اترنا چاہتا تھا۔ بچوں سے اس کی مراد بھانت بھانت کے باراتی تھے جو اس نے جمع کئیے تھے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا "یہ بتاتا جا کہ یہ رنگ برنگی سارے بچے تو نے کہاں سے جمع کئیے؟"

اس نے بتایا کہ اس کا فوٹوگرافی سے متعلقہ ایک فیسبک گروپ "خانہ بدوش" کے نام سے ہے۔ اس گروپ میں اس نے میری بابت پوسٹ ڈالی تھی۔ وہیں سے یہ میرے سارے فوٹوگرافی کے "فین" جمع ہوئے۔ عادل چونکہ گروپ کا سرغنہ تھا لہذا اس نے چھانٹی کرکے چیدہ چیدہ لوگ بلائے وگرنہ اس کے بقول باراتیوں کی تعداد دو سو سے ڈھائی سو تک پہنچ رہی تھی۔ یہ سن کر میں نے عادل کا شکریہ ادا کیا اور دل میں شکرانے کے دو نفل مان لئیے۔ باراتی واقعی "خانہ بدوش" ہی تھے۔

دُلہن سٹیج پر پہنچ کر میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ اس کے ساتھ ہی آواز آئی کہ سب مہمان کھانا تناول فرمانے کو اٹھیں۔ میں نے دیکھا کہ لڑکی والے تو ہنوز اپنی کرسیوں پر انگشت بہ دندان بیٹھے تھے مگر باراتی ہرن کی سی پھُرتی سے قلابیں بھرتے اُٹھ رہے تھے۔ دو پشتون بھائی سالم ہی ایک پرات قورمہ اٹھائے اپنی میز کی جانب چلے جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے نان سمیٹتے دو تین اور پشتون بھائی تھے۔

گوجر خان کا جوان لبالب پلیٹ کو بھرتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس نے پلاؤ کے اوپر قورمے کا کے ٹو بنا رکھا تھا اور کے ٹو سے برف پگھل پگھل کر نیچے بہہ رہی تھی یعنی سالن اوور فلو ہو رہا تھا۔ میمن بھائی مہاجر بھائیوں کے ہمراہ روسٹ اچک رہے تھے۔ سندھی نوجوانوں کا ٹولہ رشیئن سیلڈ پھڑکانے میں مگن نظر آیا۔ اک طوفان کی سی کیفیت تھی۔ جب یہ طوفان تھما تب لڑکی والے ایک ایک کرکے ہمت جٹاتے آگے بڑھے۔

ویٹرز سٹیج پر رکھے میز پر میرے اور بیگم کے واسطے کھانا لگانے لگے۔ ایک ویٹر ڈشز کو ترتیب سے سجاتے میرے قریب آن کر بولا "بھائی۔ شادی مبارک ہو"۔ میں نے خیر مبارک کہا تو آگے سے بولا "بھائی بارات کیا لاہور سے سفر کرکے سیدھا شادی پر پہنچی ہے؟"۔ یہ سنتے ہی برابر بیٹھی دُلہن کی بے ساختہ ہنسی چھُوٹی۔ میری عزت افزائی کی معراج ہو رہی تھی۔ میں نے ویٹر کو غصے سے کہا "بارات پسند آئی ہے تو یہیں رکھ لو۔ روز فنکشن تو ہوتے ہوں گے"۔ خدا کسی کو مجبور نہ کرے۔ ابھی رخصتی باقی تھی۔ میں چُلو بھر پانی کی تلاش میں تھا۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Huqqe Walay Dost

By Javed Ayaz Khan