Shadi Aik Imtihaan Hoti Hai (1)
شادی ایک امتحان ہوتی ہے (1)
شادی ایک امتحان ہوتی ہے۔ پہلے امتحان میں کمپارٹ آ گئی تو مجبوراً مجھے سپلیمنٹری میں بیٹھنا پڑا۔ سن 2016 کی بھری گرمیوں میں میری شادی ہونا قرار پائی۔ پہلی شادی کی ناکامی کے بعد یہ دوسری شادی تھی۔ بارات کراچی لے جانا تھی۔ اب بارات میں کون ہوتا؟ میں والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک بہن تھی وہ بھی ملک چھوڑ کر شوہر کے ہمراہ کینیڈا جا بسی تھی۔ والدین کو گزرے زمانے بیت چکے تھے۔ اک ہی خونی رشتہ سلامت تھا اور وہ تھی خالہ جو ہو بہو اماں مرحومہ کہ شکل و صورت میں کاپی ہیں۔
رشتہ خالہ نے کروایا۔ اب جب سب معاملات طے ہو چکے تو مصیبت یہ آن پڑی کہ کراچی بارات کہاں سے لے کر جاؤں اور کس کو لے کر جاؤں؟ ایک میں، چار فرد خالہ کے گھر کے اور بس۔۔ کچھ تو بارات ہونا چاہئیے ناں۔ کتنا معیوب لگتا ہے کہ پانچ افراد بارات کی صورت بھرے ہال میں تشریف لے جائیں۔ لڑکی والوں یعنی بیگم کا خاندان لمبا چوڑا ہرا بھرا تھا۔ میں نے اس صورتحال سے نپٹنے کو کراچی میں اپنے دو دوستوں سے رابطہ کیا۔ ایک تھا عادل جدون جو فوٹوگرافر ہے اور کراچی کی فوٹوگرافر کمیونٹی میں جانا مانا نام ہے۔ دوسرے تھے حنیف بھٹی بھائی جو سیاحوں کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور پاک وہیلز ڈاٹ کام کے بانی اونر تھے جو بعد ازاں انہوں نے سنیل منج کو بیچ دی۔ ان دونوں نے مسئلہ سُنا اور بولے " لو بخاری یہ کوئی کام ہے بھلا۔ بارات ہو جائے گی۔ ٹینشن نہیں لینی"
صاحبو مجھے نہیں یاد کہ بارات والے دن کون کون آیا بس اتنا معلوم ہے کہ ستر سے اسی نوجوان تھے جو مجھے گلے مل کر بتاتے رہے کہ ہم آپ کے باراتی ہیں۔
میری بارات کا ایگزٹ پوائنٹ کراچی پی سی ہوٹل تھا۔ میں ہمراہ اپنی خالہ کے فلائٹ لے کر کراچی پہنچا اور پی سی ہوٹل میں بکنگ کروا لی۔ عادل جدون اور حنیف بھٹی نے بارات تیار کر رکھی تھی۔ حنیف بھائی نے شاید پاک وہیلز ڈاٹ کام کی ساری کمیونٹی بلا لی تھی۔ صبح بارات جمع ہونا شروع ہوئی۔ باراتی جمع ہونا شروع ہوئے۔ ان میں کچھ سندھی نوجوان تھے، دو چار میمن، آٹھ دس پشتون لڑکے، کچھ اردو سپیکنگ نوجوان، بس مل ملا کر منی پاکستان بننے لگا۔ ہر ذات، قبیلے، رنگ و نسل کا نمائندہ جمع ہو رہا تھا۔ وہ سب پہلے تو اپنے اصل میزبانوں یعنی عادل اور حنیف سے ملتے۔ پھر وہ دونوں ان سے میرا تعارف کرواتے کہ یہ دُلہا ہیں۔ پھر وہ مجھے گھورتے ہوئے زیرِ لب مُسکراتے مبارک دیتے۔ میں ان کو گھورتے ہوئے مبارک وصول کرتا۔
لگ بھگ ستر سے اسی نوجوانان جمع ہو چکے تو بارات روانگی کو تیار ہوئی۔ تیار کیا ہونی تھی بس سمجھئیے کہ چل پڑی۔ نہ ڈھول باجا نہ کوئی رسم، نہ کوئی امام ضامن باندھنے والا نہ ہی کوئی سہرا بندی کی تقریب۔ میں تو یوں بھی پریشان حال تھا کہ زندگی کے دس سال ایک ناکام رشتے میں گزار چکا تھا۔ اس تعلق نے آخر ختم ہونا ہی تھا۔ وہ ختم ہوا اور وقت نے اک بار پھر دُلہا بنا دیا۔
اب بارات کا حساب کچھ یوں تھا کہ آدھی بارات تو اپنی کاروں پر تشریف لائی تھی بقیہ نوجوانان موٹرسائیکلوں پر تھے۔ یہ بارات چونکہ رنگ ڈھنگ سے ہی نرالی تھی اس واسطے اس کا چال چلن بھی نرالا تھا۔ جیسے تیسے کرکے بارات بکھرتی سمٹتی شادی ہال پہنچی۔ بائیکوں والے پہلے پہنچ چکے تھے۔ ان میں چار پانچ ون ویلر تھے جو ایک پہیئہ اٹھا کر بائیک چلانے کا مظاہرہ لڑکی والوں کے سامنے کر رہے تھے۔ کچھ بائیک والے نوجوان پیچھے رہ گئے تھے۔ بارات شادی ہال کے مرکزی دروازے پر گم صم کھڑی ہوگئی۔
ظاہر ہے نہ باراتیوں سے میری راہ و رسم تھی اور نہ ان کو میری کوئی خوشی۔ وہ تو بس عادل و حنیف سے اپنا تعلق نبھاتے حقِ دوستی ادا کرنے پہنچے تھے۔ ایسی سنجیدہ بارات کا نقشہ کھینچنا شاید میرے واسطے بھی ناممکن ہے۔ لڑکی والے ہماری صورتیں دیکھ دیکھ کر گھبرا رہے تھے۔ استقبال پر گلاب کی پتیوں سے بھری پلیٹس لئیے کھڑیں لڑکیاں جھجھکنے لگیں۔ لڑکی والوں کی جانب سے مرد حضرات آگے بڑھے اور ہماری شکلیں دیکھتے سوچنے لگے کہ آیا یہی بارات ہے یا کوئی اور سیاسی یا مذہبی نوعیت کا اجتماع غلطی سے یہاں آن پہنچا ہے۔ دُلہن کے بہن بھائیوں نے بلآخر مجھے پہچان لیا اور آگے بڑھ کر سلام دعا کرنے لگے۔
باراتی ہنوز چپ چاپ بت بنے کھڑے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ میدان جنگ میں دو فوجیں آمنے سامنے کھڑیں اک دوجے کی طاقت کا مشاہدہ کرتے پریشان ہو رہی ہیں۔ ایسی گھمبیر پِن ڈراپ سائلنس جیسی صورتحال کو دیکھتے میں نے اپنے دائیں بازو کھڑے عادل جدون کو کہا " او یار باراتی تو کر لئیے، ڈھول و شہنائی والے بھی کر لیتے تو بارات پر چھائی کچھ اُداسی اور لڑکی والوں پر طاری کچھ خوف تو کم ہوتا"۔ عادل نے پلٹ کر ہنستے ہوئے جواب دیا تھا " او شاہ جی - وہ بھی ہم ہی کرتے؟"۔ پھر ذرا توقف کرکے بولا " دراصل بندوبست کرنے کو دو لڑکے بائیک پر بھجوائے ہوئے تھے کہ وہ ڈھول والے پہلے سے بلا کر رکھیں۔ وہ شاید لیٹ ہو گئے ہیں۔ اب یہاں ڈھول والوں کے انتظار میں کھڑے تو نہیں رہ سکتے۔ بسم اللہ کرو اندر چلیں"۔
آخر وہ چُپ جلوس آگے بڑھا۔ میرے گلے میں دو ہار پڑے۔ خالہ کو ایک خاتون نے ہار ڈالا۔ باقی باراتیوں نے ہار کے چاؤ میں خود ہی گردنیں جھُکا دیں۔ پھول نچھاور کرنے والی لڑکیوں نے بھی بلآخر حوصلہ پکڑا اور پھول نچھاور ہونے لگے۔ چُپ جلوس صدر دروازے سے شادی ہال میں داخل ہوا۔
شادی ہال میں براجمان لڑکی والوں کے رشتہ دار بارات کو دیکھتے دانتوں میں انگلیاں دبانے لگے۔ اور کیوں نہ دباتے؟ باراتیوں کا رنگ، نسل، زبان، اطوار، لباس، صورتیں کچھ بھی تو آپس میں نہیں ملتا تھا۔ میں شرم کے مارے آزو بازو دیکھے بنا ناک کی سیدھ میں چلتا سٹیج پر چڑھ بیٹھا۔
باراتی کچھ دیر بعد ایزی ہونے لگے تو آپس میں باتیں کرنے لگے۔
لڑکی والوں میں ایک بزرگ تھے۔ میری بیگم کے تایا تھے۔ وہ سٹیج پر مجھے پیار دینے آئے۔ پاس بیٹھے اور جھجھکتے ہوئے بولے " برخوردار! یہ سب نوجوان چہرے آپ کے رشتہ دار ہیں؟ یہ تو کراچی والے ہی معلوم ہوتے ہیں"۔ میں نے بات کو ٹالتے ہوئے عرض کی " تایا جان! یہ سب میری خالہ کے بیٹے کے آگے سے کزن ہیں اور پھر آگے ان کے کزن۔ آپ برادری ہی سمجھیں"
میری مذکورہ "برادری" کی چہ مگوئیاں جو رہ رہ کر میرے کانوں میں پڑ رہی تھیں وہ بھی کچھ اس نوعیت کی تھیں
"ارے بھائی سپاری کھا کے چھالے پڑ گئے مجھ سے کھانا نہیں کھایا جائے گا"
"عادل بھیا! یار کھانا کھُلنے میں گھنٹہ بھر لگ جائے گا میں بس یہ پاس میں ناگن چورنگی سے چکر لگا کر آیا"
"بھائی بھائی مٹن پکا ہوا ہے"
"جنید چکن روسٹ کی خوشبو آ رہی ہے"
"ابے او۔ ایک روپے کے دو۔ ذرا سگریٹ کی ڈبیہ تو پاکٹ سے نکال"
اس گھمسان کے رن میں کچھ جملے اس قسم کے بھی سنائی دینے لگے
" بھائی میں بتائے دے ریا اوں وہ سبز سوٹ والی مجھے بھاؤ دے رئی ہے"
یہ سن کر میں نے عادل جدون کو سٹیج پر بلایا اور اس کے کان میں کہا کہ بھائی بارات کے جذبات کو قابو کر، میرا نیا نیا سسرال بننے جا رہا ہے۔ میں پہلے دن موقع پر ہی ذلیل نہیں ہونا چاہتا۔ اس کے واسطے تو عمر پڑی تھی!
جاری ہے۔۔