Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Safai Nisf Eman Hai

Safai Nisf Eman Hai

صفائی نصف ایمان ہے

میرے ایک حساس دوست نے سڑک کے درمیاں بنی گرین بیلٹ پر بکھرے کچرے کی تصویر شیئر کر کے لمبی چوڑی حساس تحریر لکھی ہوئی ہے کہ دیکھیں لوگ بدتہذیب ہیں صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ میں یہاں ان سے اختلاف کرتے ہوئے بصد احترام عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ بالکل غلط فرما رہے ہیں۔ لوگ بدتہذیب ہی نہیں بدمزاج اور بدعقلے بھی ہیں۔

ایک دفعہ میں نے بھی بے خیالی میں سگریٹ کی خالی ڈبی گاڑی ڈرائیو کرتے گرین بیلٹ پر پھینک دی تھی۔ کچھ آگے جا کر خیال آیا تو بہت افسوس ہوا۔ وہاں سے یو ٹرن لے کر واپس پلٹا۔ گاڑی سڑک کنارے سروس لین میں بالکل سائیڈ پر لگائی اور ہیذرڈز آن کر دیئے۔ سگریٹ کی ڈبی تلاش کرتا رہا مگر وہ نہیں ملی۔ اسی اثناء میں ایک موٹر سائیکل سوار تیزی سے آیا جس نے ایک ہاتھ میں موبائل تھام رکھا تھا۔ اس کا دھیان میسج پڑھنے پر تھا اور میری کھڑی گاڑی کے پچھلے بمپر سے آن ٹکرایا۔

بمپر کا اچھا خاصا نقصان ہو چکا تھا۔ وہ پچک کر ٹوٹ چکا تھا۔ یہ جاپانی گاڑی تھی جس کا بمپر بھی تیس پینتیس ہزار سے کم نہیں ملا کرتا۔ خیر، وہاں چند اردگرد سے لوگ جمع ہو گئے۔ مجھے موٹر سائیکل سوار پر غصہ تو تھا کہ آخر اتنی تیز رفتاری سے کیوں آیا اور اپنی بریکس کیوں نہیں چیک کیا کرتے یہ۔ میں نے اس نوجوان کو کہا کہ "کونسی آگ لگی ہوئی تھی تمہیں؟ دھیان موبائل میں تھا اور موٹرسائیکل تیز چلاتے آ رہے تھے اگر خدانخواستہ حادثہ سنگین نوعیت کا ہو جاتا تو تمہارے ماں باپ کس کو روتے؟"

اس نوجوان نے پلٹ کر کہا کہ تم یہاں گاڑی کھڑی کر کے خود گرین بیلٹ پر کیا کر رہے تھے؟ اس سوال پر اردگرد جمع دو چار لوگوں نے میری جانب مشکوک اور جواب طلب نظروں سے دیکھا۔ میں نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا "میں نے سگریٹ کی خالی ڈبی پھینکی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ مجھ سے بے خیالی میں غلط حرکت ہوئی ہے لہٰذا واپس آ کر وہ کچرا اٹھانے کو گرین بیلٹ میں خالی ڈبی تلاش کر رہا تھا۔ "

جواب سنتے ہی مجمع نے اپنی پھٹی آنکھوں سے فیصلہ سنایا کہ یہ شخص کوئی پاگل ہے اور ساری ہمدردیاں اس موٹر سائیکل سوار کی جانب ہوگئیں۔ میں نے ان کے تاثرات نوٹ کئے اور سوچا کہ چھوڑو، اب یہاں سے چلا جائے۔ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھا تو عقب سے ایک شخص کی بات کان میں پڑی۔ وہ دوسرے سے کہہ رہا تھا "بندہ کوئی کھسکیا جیا لگدا اے، کس کس طرح دے لوکاں نوں گڈی لبھ جاندی اے۔ " پتہ نہیں اس دن مجھے کونسا کیڑا کاٹ گیا تھا حالانکہ آنجہانی سر مارٹر لوتھر کنگ اور سر کارل مارکس مشترکہ طور پر فرما گئے تھے۔

۔ When in Pakistan، do as Pakistanis do

اور وہ اپنے ٹیپو سلطان مرحوم تو کیا ہی خوب فرما گئے۔

۔ Sanity is a crime in an insane society

ہے کچھ یوں کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ غیر مسلموں کے دیسوں میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ چرچوں میں یہ بھی تعلیم نہیں کرتے "یسوع مسیح نے فرمایا صفائی نصف ایمان ہے"۔ یہودی راہب یہ بھی نہیں کہتے "موسیٰؑ نے فرمایا صفائی نصف ایمان ہے"۔ ان کے ہاں یہ نصاب کا حصہ بھی نہیں ہے۔ ان کو کوئی یہ بھی نہیں بتاتا کہ مسلمانوں کے پیغمبر ﷺ نے تلقین کی کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ پھر بھی وہ خیال کیوں رکھتے ہیں؟

شاید صاف ستھرا رہنا، صاف ستھرا دکھنا، بنیادی انسانی سرشت میں شامل ہے۔ انسان کی فطرت کچرا یا گند نہیں دیکھ سکتی۔ انسان کی جمالیاتی حس اتنی خوبصورت ہے کہ گندگی دیکھ کر اس کا مزاج بگڑنے لگتا ہے۔ اس کا مذہب سے تعلق بھی نہیں بنتا یہ تو انسان کی فطری چاہ ہے۔ ہم، ہوش سنبھالنے سے پڑھنے لگتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ منبر سے سنتے ہیں، استاد بار بار یاد دلاتے ہیں، ماں باپ ساری عمر سناتے رہتے ہیں۔ صفائی ہمارے دین کی اساس ہے۔ ہمارے نبیؐ کا فرمان ہے۔ اللہ کا حکم ہے۔

ہم، جو مذہب کے از خود ٹھیکیدار بھی بنتے ہیں۔ جو مذہبی رجحان اس حد تک رکھتے ہیں کہ مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کلمہ گو کو دین سے خارج، بدعتی و مشرک کہتے ہوئے ایک ثانیے کو بھی بدن میں جھرجھری یا خوف محسوس نہیں کرتے۔ ہم ہی نے اس ملک کی کوئی شاہراہ، چوک، نہر، دریا، جھیل، آبشار، ساحل نہیں چھوڑا جہاں گندگی نہ پھیلائی ہو۔ اسلام کا قلعہ یہ ملک اور یہاں کے بستے لوگوں کے اندر سے گندگی کون نکالے گا؟

کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہمارا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کو ہماری خدمت کے واسطے پیدا کیا گیا۔ وہ تحقیق کریں، پڑھیں لکھیں، محنت مشقت کریں، ایجادات کریں اور ہم ان سے استفادہ حاصل کریں۔ صفائی ہمارا نصف ایمان ہے مگر صفائی کرنے کا کام وہی سرانجام دیں۔ پاک و ہند کے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم بخشے بخشائے ہیں، خدا کو بنی اسرائیل سے زیادہ محبوب ہیں، شفاعت کا حق ہی ہمارا ہے۔

سوشل میڈیا پر تو ہر پروفائل نوحہ کناں بنی ہوتی ہے تو پھر وہ لوگ کون ہیں جو گند پھیلاتے ہیں؟ مریخ سے آتے ہیں کیا۔ اس ملک میں ہر شخص کے ہاتھ ٹچ سکرین اینڈرائڈ موبائل آ چکا اور ٹک ٹاک سے فیس بک تک اکاؤنٹس بن چکے۔ شاید کچرا پھیلانے والے یہاں قاتلوں کی مانند "نامعلوم" افراد ہی ہیں۔

یوں بھی یہ تو ظاہری کچرا ہے جو ہمارے آل اطراف بکھرا نظر آ جاتا ہے۔ ایک کچرا تو وہ بھی ہے جو بنام کلچر، بنام سیاست، بنام مسلک، بنام غیرت و عسکریت ہمارے ذہنوں اور دل میں پھیلا ہے۔ اس کو کون سمیٹے گا؟ یہ باہر والا کچرا تو "اغیار" کی کوئی کمپنی ٹھیکے پر لے کر صاف کر سکتی ہے یا کسی بیرونی کفاری امدادی فنڈ کی بدولت اٹھانا ممکن ہو پائے مگر اندر کا کچرا؟

Check Also

Kami Mehsoos Hui

By Mumtaz Malik