Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Saare Shehar Aik Jaise Hain

Saare Shehar Aik Jaise Hain

سارے شہر اک جیسے ہیں

ایسکی شہر ترکی کا خوبصورت ترین شہر ہے، سرد ہے، بارونق ہے۔ اس شہر کی جاذبیت ہی الگ ہے۔ اس کی شاموں و راتوں میں آپ اکیلے فٹ پاتھ پر چلتے رہیں۔ آپ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے برانڈز کی جگمگاتی دکانیں چلیں گی۔ وہیں ساتھ ساتھ ٹرام چلتی رہے گی۔ میں خود سفر پر نکلتا ہوں تو شاید اس لیئے کہ انسانوں کا ایک گروہ اور مخصوص معاشرہ (میرے ارد گرد کا) اپنے زورِ حرکت سے میرے قدم اکھاڑ کر مجھے۔

ایک بے اختیار وجود میں بدل دیتا ہے، لیکن میں تا دیر ان سے جدا بھی نہیں رہ سکتا۔ کچھ دن بعد پھر گھر کی جانب چلا آتا ہوں۔ واپسی ہوتی ہے تو ایک مختصر مدت پچھلے سفر کی یادوں میں غرق ہو کر گزرتی ہے۔ مگر بلآخر مجھے سانس لینے کو واپس اپنے ماحول میں، سطح آب پر آنا پڑتا ہے اور تب میری آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں، میں دیکھ نہیں سکتا اور ایک بار پھر ٹٹولتا ہوا نئی روشنیوں کی تلاش میں سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہوں۔

یوں نہ تو میں مچھلی کی طرح تا دیر پانی سے باہر جی سکتا ہوں نہ ہی سفر کا سمندر مجھے ہمیشہ کے لیئے قبولتا ہے۔ جہاں تک میری اپنی شخصیت کا تعلق ہے تو مجھے اعتراف کرنا چاہیئے کہ میں اپنے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، اس سلسلے میں میرے احباب مجھ سے کہیں بہتر جانتے ہیں کہ میرے شب و روز کی تمام مسافتیں اور کٹھنائیاں، میری شہرتیں اور رسوائیاں، میرے ہنگامے اور تنہائیاں اُن کے سامنے کھُلتی رہتی ہیں۔

اور جو جو کچھ میں لکھتا ہوں اس سے مجھے نہ جاننے والے لوگ بھی کچھ کچھ جان ہی لیتے ہیں۔ میں ایک ایسے شہر کا باسی ہوں، جس کی خاک سے ذہن اُگتے تھے۔ جس کی گلیوں میں کبھی ہوا زندگی کی روشنائیاں بانٹتی تھی۔ فیض احمد فیض، شیو کمار بٹالوی، اقبال اور نہ جانے کتنے ہی لوگ اس دھرتی سے جنم لے گئے۔ اس شہر کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا عبادت سمجھتے تھے۔

چناب کے پانیوں میں محبت کی چاندنی کا امرت گھُلتا تھا۔ مگر یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں۔ یہاں کی تمام رسمیں بدل چکی ہیں اور میرے سارے لوگ اب اپنی اپنی صلیبوں کی کیلیں شمار کرنے میں مگن ہیں۔ اس لیئے لوگوں سے بے نیاز ہو کر میں اب بس سفر کے خواب دیکھتا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میرے ناقص فن نے اپنا قد بڑھانے کے لیئے نہ تو کسی "اُدھار" کی شاخ سے جھولنے کی اجازت طلب کی ہے نہ ہی اپنے خد و خال نکھارنے کے لیئے مانگے کا آئینہ استعمال کیا ہے۔

میرا تمام کام اپنے خوابوں کو پیچھا کرتے کرتے خود ہی ہوتا گیا ہے کہ میں سفر کے خواب بہت دیکھتا ہوں اور جب تعبیر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہوں تو وہ ذات جو خواب نازل کرتی ہے، وہ تعبیر پانے کی چاہ میں بھی میری مددگار رہتی ہے۔ کبھی کبھی شدت سے احساس زیاں ہوتا ہے۔ الفاظ ضائع کرنے کا احساس، ایک کاوش رائیگاں، ایک مسلسل بیکار عمل، لکھنا اور لکھے جانا اور پھر اگلا دن اور نئی بات۔

بے ہنگم سا اک شور ہے، کچھ سمجھ نہیں آتی کہ پیچھے کیا چھوڑا ہے اور آگے کیا لینا ہے۔ اس معاشرے میں سب کہا، سنا، لکھا، پڑھا کالعدم سا لگتا ہے۔ پرفیکٹ بلائنڈنیس۔ بس اک ہاؤ ہو ہے۔ اک تماشہ ہے، کبھی اس بات پہ تالی تو کبھی اس بات پہ قہقہہ، کہیں ثانیہ بھر کو آنکھ نم ہو بھی گئی تو پھر بے حسی عود آتی ہے۔ وہی معاشرہ ہے جو ریورس گئیر میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

وہی قلمکار دوست ہیں، جو اپنے اپنے نظریئے، سوچ، خیال، پہلو، نقطہ نظر کو کائناتی سچائی جان کر اس کے ہاتھ یرغمال ہو چکے ہیں۔ مردم بیزاری، فیمن ازم، عسکریت پسندی، جنونیت، دائیں بازو کی سوچ اور دوسری جانب وہی کیمونزم، لبرلز، آزاد خیالی، روشن خیالی یا جو بھی نام دینا چاہیں۔ دونوں نے ہر صورت ہر خبر کے پہلو سے اپنا پہلو برآمد کرنا سیکھ رکھا ہے، وہی پیش کیئے جاتے ہیں۔

مجال ہے کوئی خلا سے زمین کو دیکھے، کوئی بیرونی دنیا سے ملک کو دیکھے، کوئی معاشرے کے مدار سے باہر ہو کر جائزہ لے۔ ہر کسی نے اپنے بنائے بت کو پوجنا ہے۔ جاری ہے، جاری رہے گا، اور پھر قارئین ایسے افلاطون ہیں جو دونوں جوانب یہ کہتے نظر آتے ہیں"آپ نے تو قلم کا حق ادا کر دیا" یہ ہماری روائیتی، نسلی، جدی پشتی منافقت ہے، جو جنیاتی کوڈ سے اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی آتی ہے۔ ایسے معاشروں میں آپ کیا کیجیئے گا۔

کبھی کبھی تلخ حقائق کے اظہار کے لئے الفاظ گونگے کے اشاروں سے بھی زیادہ مبہم ہو جاتے ہیں۔ ہر حساس ذہن اس معاشرے میں رفتہ رفتہ ذہنی مفلوج ہوتا جاتا ہے۔ امریکی نقاد، شاعر اور افسانہ نگار ایڈجر ایلن یاد آ گیا۔ "I became insane، with long intervals of horrible sanity" بات لمبی ہوگئی۔ آخر میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی بھی معاشرے کا فنکار حساس ہوتا ہے۔

لہذا وہ اپنی حساسیت سے بچنے کو اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان مزاح، لٹریچر، سفر یا کسی دوسرے شوق کی قدِ آدم دیوار کھڑی کر لیتا ہے، وہ اپنا روئے خنداں سورج مکھی پھول کی مانند ہمیشہ سرچشمہء نور کی جانب رکھتا ہے، جب اس کا سوج ڈوب جاتا ہے تو وہ اپنا رخ اسی طرف کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ سورج طلوع نہیں ہوتا، اندھیرا لمبا ہو جاتا ہے۔

سوچیں گہری ہونے لگتی ہیں۔ پرفیکٹ بلائنڈنیس، کبھی کبھی جب اندر کا شہر کسی سبب یا فکر یا سوچ سے برباد و اداس ہو تو باہر کے سب شہر اک جیسے ہی لگتے ہیں۔ یہیں، ایسکی شہر میں سڑک کنارے چلتے ذہن میں آیا تو پیش ہے

کہیں بھی جاؤ کہیں بھی رہو تم

سارے شہر اک جیسے ہیں

سڑکیں سب سانپوں جیسی ہیں

سب کے زہر اک جیسے ہیں

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari