Puttar Hun Toon Apni Manzil Te Ja
پُتر ہن توں اپنی منزل تے جا
لاہور میں قدیم تاریخی مساجد بھی ہیں اور شاہی نشانیاں بھی مگر لاہوریوں کے دل میں بہت کچھ ایسا ہے جسے سُنتے آنکھ تر ہو جاتی ہے۔
شاہ عالم مارکیٹ سے سُنہری مسجد کی جانب چلیں تو کشمیری بازار میں واقع اس تاریخی مسجد کی راہ میں عجب مقام آتے ہیں۔ میں اندرون گلیوں سے ہوتا کوچہ چابک پہنچا اور اَدھر اُدھر بے مقصد آوارگی کرتے کوچہ کالی ماتا جا نکلا۔ ایک بزرگ تھڑے پر بیٹھے حقہ پھونک رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کی تو انہوں نے موڑھے پر بٹھا لیا۔ کوچہ کالی ماتا کی داستان سنانے لگے۔
تقسیم کے وقت ان سبھی گلیوں سے ہندو و سکھ لاہور چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سارے بازار ویران ہو گئے۔ مگر ایک بزرگ عورت نجانے کیوں یہاں اکیلی رہ گئی۔ بیٹے کا نام کشن لال بتاتی تھی، جس کی سُنار کی دکان تھی۔ آہستہ آہستہ ہندوستانی مسلمانوں کے قافلے آ کر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے اور یہ کوچہ لوگوں کے رد و بدل کے ساتھ پھر بس گیا۔ یہاں آ کر بسے مہاجروں نے اس بُڑھیا کو گھر چھوڑ کر مہاجر کیمپ میں پناہ لینے کا کہا تو وہ انکار کرتے بولی " نہیں جاؤں گی، یہ میرا گھر ہے، یہیں مروں گی"۔
شروع میں ہی کوئی سرپھرا اسے قتل کر دیتا تو بات آئی گئی ہو جاتی مگر وہ زندہ رہ گئی۔ مہینے گزر گئے۔ وہ گھر میں اکیلی رہتی۔ جب تنہائی سے دل بھر جاتا تو باہر تھڑے پر بیٹھ کر سُوت کاتنے لگتی۔ سنہ 47 کی دیوالی آئی تو اس نے گلی میں چراغ روشن کر دئیے۔ مٹھائی بنائی اور محلے میں بانٹتی گئی۔ رفتہ رفتہ محلے والوں نے بھی اسے پوچھنا شروع کر دیا۔ پھر سال گزرتے رہے۔ کوئی بیمار پڑتا تو اس کے گھر تیمارداری کو پہنچ جاتی اور اس کے گھر کا سارا نظام سنبھال لیتی۔ کھانا پکاتی۔ صفائی کرتی۔ یہ اس کا معمول بننے لگا۔ بیمار ٹھیک ہوتا تو جاتی۔ اس طرح زیادہ گھروں میں اس کا آنا جانا شروع ہوگیا۔
نہ جانے اس کے قدموں میں کیسی مسیحائی تھی کہ جس کے گھر اس کے قدم پڑتے دلی مراد پوری ہونے لگتی۔ کسی کے بیٹے کو روزگار مل گیا۔ کسی بیٹی کو اچھا گھر نصیب ہوگیا۔ کوئی اس کی دعاؤں سے ترقی کر گیا۔ کسی بے اولاد کی گود ہری ہوگئی۔ محلے والوں میں اس کی محبت بڑھتی چلی گئی۔ اہل محلہ نے ہر گھر کی باری لگا دی کہ ہر شام اس کے گھر دال روٹی پہنچ جایا کرے۔ چائے جب کسی کے گھر بنتی ایک بچہ پتیلی اور کپ اسے دے جاتا۔ آہستہ آہستہ اس کی نیک نامی سارے علاقے میں پھیل گئی اور رنگ محل سے بھاٹی تک وہ "کالی ماتا" کہلانے لگی۔ نام تو اس کا "جگ مائی" تھا مگر لوگوں نے اس کی کالی رنگت اور ہندو مذہب کے سبب اسے ہی کالی ماتا قرار دے دیا اور یوں اس کوچے کا نام کوچہ کالی ماتا ہُوا۔
بابا داستان سنا کر دم بھرنے کو رکا۔ میں سن کر چلنے لگا تو اس نے کلائی پکڑ کر پھر موڑھے پر بٹھا لیا۔ داستان آگے بڑھی۔
آخر سنہ 60 میں وہ عورت مر گئی۔ چونکہ ساری عمر مسلمانوں میں ان کی خدمت کرتے گزار دی اس لیے محلے والوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی میت کو عزت و احترام سے قبرستان لے جا کر دفنا دیا جائے۔ شمشان گھاٹ تو لاہور میں رہا نہیں تھا۔ چارپائی لانے کے لیے ایک بندہ مسجد پہنچا تو فرشتہ صفت مولوی صاحب پوچھ بیٹھے کہ موت کس کے گھر ہوئی ہے؟ معلوم ہونے پر مولوی صاحب خود محلے میں نکلے اور سب کو جمع کرکے بولے " دیکھو اب وہ مر چکی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا مردہ جسم کس ٹھکانے لگتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ وہ آخری سانس تک ہندو تھی۔ ہمارے ایمان کا تقاضہ یہ گوارا نہیں کرتا کہ ہندو کو قبر کھود کر دفنانے کی اجازت دی جائے"۔
مولوی صاحب کی بات سب کو سمجھ آ گئی۔ بڑھیا کی لاش پھٹوں پر ڈالی۔ کاندھا دیتے راوی کنارے لے گئے اور لاش دریا بُرد کر آئے۔
بابا جی نے حقے کے گہرے کش بھرے اور بولے " پُتر ہن توں اپنی منزل تے جا۔ میری مُک گئی اے۔ "۔ داستان سُن کر چلا تو سنہری مسجد کے گنبد سے آذان بلند ہو رہی تھی۔