Mehangai Ka Toofan Aane Wala Hai
مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے
وزیراعظم کی کرسی کانٹوں کی سیج ہے۔ جس پر کوئی بیٹھنے کو دل سے آمادہ نہیں۔ آئی ایم ایف پیکج سر پر کھڑا ہے۔ چوبیس بلین ڈالرز قرض کی اقساط اس سال دینا ہیں اور مجموعی طور پر آئندہ تین سالوں میں باسٹھ بلین ڈالرز چُکانے ہیں۔ کرسی پر جو بیٹھے گا وہ عوام میں ذلیل و خوار ہوگا۔ مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے۔ معاشی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ مقتدرہ ہو یا سیاسی جماعتیں کسی کو عوام کی پرواہ نہیں۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ بلا شرکتِ غیرے تخت پر مکمل قبضہ حاصل کرے اور پھر چاہے اپنا تختہ ہو جائے۔
زیادہ دور کی بات نہیں، گذشتہ سال انہی دنوں کا ذکر ہے۔ مملکتِ خداداد میں آٹے کی قلت پیدا ہوئی تھی۔ میرپور خاص میں محکمہ خوراک کا ٹرک آیا تو سینکڑوں ضرورتمند اس پر ٹوٹ پڑے۔ کھینچا تانی دھینگا مشتی میں بدلی اور دھینگا مشتی بھگدڑ میں بدل گئی۔ ہرسنگھ کولہی نامی مزدور اپنے ہی جیسے محروموں کے پیروں تلے کُچلا گیا اور شہیدِ رزق ہوا، بیسیوں زخمی ہوئے۔
"سٹوڈنٹس" سے نمٹنے کا عزم ظاہر کرنے والی ریاست اور اس کے صوبے آٹا فروشوں سے نمٹنے میں بھی ناکام رہے۔ دال گوشت سبزی دسترس سے باہر ہو جائیں تب بھی انسان ایک آدھ پیاز یا دو چار ہری یا لال مرچوں کے ساتھ روٹی حلق سے اتار کے پانی پی سکتا ہے۔ لیکن جب روٹی ہی بیس روپے سے چھلانگ مار کے تیس روپے کی ٹہنی پر جا بیٹھے اور سرکاری ریٹ پر ایک کلو آٹے کی قیمت انسانی جان کے برابر ہو جائے تو پھر دل میں یہ خیال ضرور آنا چاہیے کہ جس نجی سیکیورٹی گارڈ یا مزدور کو تنخواہ بیس تا پچیس ہزار روپے ماہانہ مل رہی ہو اور وہ بال بچے دار بھی ہو تو سوچئے اس کی اپنی معیشت کا کیا حال ہوگا۔
اگر وہ سیکیورٹی گارڈ یا مزدور اب تک کسی ڈکیتی کے لیے بندوق سیدھی نہیں کر رہا اور حلال کی کمائی پر آج کے دن تک اس کا ایمان متزلزل نہیں ہو پا رہا تو میرے حساب سے وہ دورِ حاضر کا ولی ہے۔
انڈہ بچوں کی پسندیدہ غذا ہے۔ دو سال پہلے سو ایک سو دس روپے درجن ملنے والے اب یہی انڈے سوا تین سو روپے درجن دستیاب ہیں۔ لوگ تین سو سے چار سو روپے کلو فروخت ہونے والی دالوں کو خریدتے ہوئے بھی تین بار سوچتے ہیں۔ اب تو یہ محاورہ بھی ساقط ہو چلا ہے کہ بس جی دال روٹی چل رہی ہے۔ کجا یہ محاورہ کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔
میرے پڑوس کا فٹ پاتھیا ہوٹل ایک برس پہلے ایک پلیٹ دال اور دو چپاتی سو روپے میں خریدنے والے مزدور کا پیٹ بھر دیتا تھا۔ آج اسی دال اور دو چپاتی کی قیمت دو سو روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اب دو مزدور مل کے دال کی ایک پلیٹ اور تین چپاتی منگاتے ہیں۔ اس ہوٹل کا مالک الگ سے نوحہ کناں ہے کہ اگر ان بے چارے مزدووں کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ کام کب کا بند کر چکا ہوتا۔
اوسط درجے کے نام نہاد انگلش میڈیم اسکول میں داخل ہونے والے بچوں کے تنخواہ دار سفید پوش والدین کا حال اب یہ ہے کہ کئی ماں باپ اپنے بچوں کو فیسوں میں اضافے کے خوف سے محلہ اسکول میں داخل کروا رہے ہیں یا اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر فیس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان پر جو بیت رہی ہے سو بیت رہی ہے مگر بچوں کو اچانک جب ان اساتذہ اور دیگر کلاس فیلوز سے جدا ہونا پڑ رہا ہے جن کی موجودگی کے وہ سال دو سال میں عادی ہو چکے ہوتے ہیں اور انہیں بالکل ایک اجنبی اسکول اساتذہ اور ہم جماعتوں سے واسطہ پڑتا ہے تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آناً فاناً کیا ہوگیا۔ چنانچہ اکثر بچے اس اچانک تبدیلی کی تاب نہ لا کر پڑھنے لکھنے سے ہی دل اچاٹ کر بیٹھتے ہیں۔ گویا بے فکری کی عمر میں ہی نامعلوم عدم تحفظ نے ان معصوم ذہنوں کا گھیراؤ کر لیا ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ معاش اور مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ بڑے صنعتی گروپ ملت ٹریکٹر سمیت کئی گروپ اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں۔ سب سے بڑے ٹیکسٹائیل گروپس کریسنٹ، نشاط، سرتاج نے اپنی پیداوار جزوی طور پر معطل کر رکھی ہے۔ چھوٹے صنعتی گروپوں کے حالات کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یعنی بے روزگاروں کی فوج ظفرِ موج میں اگلے چند ماہ کے دوران مزید کئی لاکھ افراد کا اضافہ ہونے والا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی شرح بھی کئی گنا بڑھنے کا پہلے سے زیادہ خدشہ ہے۔ اوپر سے "سٹوڈنٹس" اس آگ میں ہاتھ تاپنے کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہو کے آ رہے ہیں۔
ایسی زبردست قسم کی متزلزل معاشی صورتحال میں حاجتِ وقت یہ تھی کہ انتخابات کے نتیجے میں ایک پائیدار حکومت جنم لے جو اس ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے پر فوکس کرے مگر کرتے دھرتوں نے پولیٹیکل انجینئیرنگ کی تمام حدیں یوں توڑ دیں ہیں کہ اب سمجھ نہیں آ پا رہی کون اس ڈولتی نِیا پر سوار ہو کر چپو چلانے کے قابل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز ایک میز پر مل بیٹھیں اور کم از کم معاشی ایجنڈے پر کوئی لائحہ عمل واضح کریں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے آئینی کردار تک محدود ہو۔ مگر۔۔ یہ دیوانے کا خواب ہے اور شبنم شکیل کا ایک شعر از خود ہی یاد آ جاتا ہے۔
قفس کو لے کے اڑنا پڑ رہا ہے
یہ سودا مجھ کو مہنگا پڑ رہا ہے