Lahore Sirf Aik Shehar Hi Nahi Aik Attehas Hai
لاہور صرف ایک شہر ہی نہیں ایک اتہاس ہے
لاہور صرف ایک شہر ہی نہیں ایک اتہاس ہے، ایک تہذیب ہے۔ لاہور دنیا کے ان چند خوش قسمت شہروں میں سے ہے جن کی تاریخ ہزاروں سال پُرانی ہے۔ قدیم زمانے میں لاہور تین ٹیلوں پر قائم تھا جو آج کی گنجان آبادی میں کہیں کھو گئے۔ یہ موہن جوداڑو اور ہڑپہ کے وقتوں کا شہر ہے اور شاید یہ تمام عالم میں واحد شہر ہے جو مسلسل آباد چلا آ رہا ہے، کبھی اُجڑا نہیں۔ اس شہر کی طویل تاریخ میں بے شمار بادشاہ، حاکم، پیر فقیر و مہاتما سلطنت کے ساتھ ساتھ عوام کے دِلوں پر بھی راج کرتے رہے۔
لاہور نے متعدد جنگجوؤں و حملہ آوروں کو دیکھا۔ تُرک جنگجوؤں کے ساتھ محمود غزنوی آیا۔ منگول سردار چنگیز خان کے لشکر آئے۔ تیمور لنگ آیا جس نے نہ صرف بہت سی زمینوں پر قبضہ کیا بلکہ اپنے جانشینوں میں سے ستائیس بادشاہ چھوڑے۔ تُرکوں کے ساتھ ظہیر الدین بابر آیا۔ ایرانی سپاہیوں کا لشکر لیے نادر شاہ آیا۔ بلآخر انگریز ہندوستان سے پندرہ ہزار میل دور سے یہاں آ کر مالک بن گئے۔
لاہور کے بارہ دروازے تھے جن میں سے اکثر نہیں رہے۔ کچھ دروازے اپنا نام چھوڑ کر شہر سے وداع ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ محض دروازے نہیں ماضی سے لے کر موجودہ وقت تک کا اتہاس ہیں۔ انہی دروازوں سے ہو کر اتہاس اپنے تمام پہلوؤں کو آنچل میں سمیٹے ماضی کے پل پل کو ساتھ لیے دستک دیتا رہا۔ یہ دستک بھگوان داس، داتا گنج بخش، میاں میر، شاہ حسین سمیت سینکٹروں فقیروں ملنگوں کی تھی۔
لاہور کے دروازوں میں ایک ٹکسالی دروازہ تھا، جس کا نام ہیرا منڈی پڑا۔ یہ نام کیسے پڑا کسی کو پتہ نہیں لیکن سچ مُچ یہ تھی ہیروں کی منڈی۔ مغل شہزادوں اور شہزادیوں کی رہائش گاہیں یہاں سے قریب تھیں اور اس دور میں یہاں ہیرے بکتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ جگہ بدنام ہیرا منڈی بن گئی۔ ٹکسالی کے اندر مُجرے کا بازار الگ تھا جہاں شوقین مزاج امراء و نواب صرف و صرف گانا سُننے اور رقص دیکھنے ہی جاتے تھے۔ ناچ گانے کے ساتھ شراب و کباب کے دور چلتے اور ان گلیوں کی رونق صبح صادق تک قائم رہتی۔
آج سے لگ بھگ دس گیارہ سال قبل کا قصہ ہے۔ ان دنوں مجھے جنون ہوا کہ مجُرا اور کوٹھوں کو شوٹ کیا جائے۔ رنگین جھروکوں اور بالکونیوں میں طوائف کا فوٹوشوٹ کیا جائے کیونکہ یہ بھی کلچر تھا جو اب معدوم ہوگیا۔ ریسرچ شروع کی تو معلوم ہوا کہ اب یہاں کوئی چلتا کوٹھا ہے نہ ایسی کوئی روایتی طوائف بچی ہے جو رقص کرتی ہو۔ ایک لاہور کے دوست نے بتایا کہ ہیرا منڈی میں ایک پینٹر رہتا ہے اس کے پاس چلے جاؤ۔ فنکار بندہ ہے وہ شاید فوٹوشوٹ کے لئے کوئی بندوبست کر دے۔۔
میں وہاں چلا گیا۔ مدعا بیان کیا تو بولا "یہ سب ارینج کرنا پڑے گا۔ جو تم چاہتے ہو اس کے لئے بھاری زیورات، لکھنوی کرتہ پاجامہ اور رقص کی ماہر طوائف چاہییے جو اب نہیں ملتی۔ یہاں سے سب لوگ چھوڑ چھاڑ کر رخصت ہو چکے ہیں۔ کوٹھے ویران ہو چکے ہیں۔ اب وہاں ان کے خاندان اور بوڑھیاں ہی بستی ہیں"۔ کچھ دیر بعد وہ مجھے ایک عورت سے ملوانے تاریک سی گلی میں لے گیا۔ انتہائی تنگ زینوں سے دوسری منزل پر پہنچے۔ ایک بڑھیا فرش پر لیٹی سگریٹ پی رہی تھی۔
ہمیں دیکھ کر وہ اُٹھ بیٹھی۔ اس سے ساری گزارش کی تو پنجابی میں بولی " بادشاہی مسجد کے پیچھے اداکارہ انجمن کی حویلی ہے۔ وہاں لڑکی آ جائے گی۔ زیورات، لباس کا انتظام ہو جائے گا۔ حویلی کے جھروکے رنگین شیشوں سے مزین ہیں اور صحن سفید سنگِ مرمر سے بنا بہت دلکش ہے۔ جس کے عین مرکز میں قدیمی فوارہ بھی لگا ہوا ہے۔ نقش و نگار ابھی تک باقی ہیں۔ وہاں جیسا تم چاہتے ہو اچھا شوٹ ہو جائے گا"۔ میں نے سن کر عرض کی کہ خرچہ کتنا آ جائے گا اس انتظام میں؟ بڑھیا بولی " 40 ہزار سے ایک آنہ کم نہیں۔ لڑکی کو بھی دینے ہیں، میک اپ، لباس و زیورات بھی منگوانے ہیں، کچھ میرے بھی ہوں گے وغیرہ وغیرہ"۔۔
اس دور میں چالیس ہزار میرے لئے بہت زیادہ رقم تھی۔ میں وہاں سے چپ کرکے نکل آیا اور اس دن کے بعد آج یہاں پھر آیا ہوں لیکن ایک دوست کی فرمائش پر کھانا کھانے۔ گلی آج بھی تاریک ہے۔ لاہور وقت کے ساتھ بدلا۔ اتنا بدلا کہ اب یہ شہر تہذیب، ثقافت، ادب، آداب، روایت، تاریخ، سب کو پسِ پشت ڈال کر نیند میں چلتے انبوہ اور روزگار کی تلاش میں نان و نمک کا بوجھ اٹھائے بھٹکتے ہجوم سے آباد خرابہ ہے۔ منو بھائی کی پنجابی نظم یاد آ گئی ہے۔
تاریخ تماشا بُھکھاں دا، تہذیب کھڈونا رَجاں دا
تنقید جگالی لفظاں دی، تشہیر سیاپا لَجاں دا
موسیقی راتب کُتیاں دا تے ادب گتاوا مجھاں دا
پر اجے قیامت نئیں آئی
پارا تھرما میٹر دا، سیاست چوھدری طالب دی
ہیرا منڈی شاہیے دی تے دِلی مرزا غالب دی
چادر جنرل رانی دی تے چاردیواری جالب دی
پر اجے قیامت نئیں آئی