Khwaja Sara
خواجہ سرا
ایک محلے دار دوست کی عیادت کرنے ہسپتال گیا۔ اس کو خون کی ضرورت تھی۔ میرا گروپ میچ کر گیا تو مجھے اسٹاف خون نکالنے ایک کمرے میں لے گیا۔ کسی خواجہ سرا کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہوا تھا، اس کی عیادت کے واسطے اس کا پورا گروپ بھی وہاں موجود تھا۔ اسے بھی خون کی ضرورت تھی۔ دو خواجہ سرا بیڈ پر لیٹے خون دے رہے تھے۔ مجھے برابر ہی ایک سٹریچر پر لٹا دیا گیا۔
ایک خواجہ سرا نے گردن پھیر کر مجھے دیکھا اور چند لمحوں بعد بولا " ہائے ہائے، اس مونچھوں والے بندے میں بڑا خون ہے۔ دو منٹ میں اس نے بوتل بھر دی"۔ میں نے اسے دیکھا تو وہ میری ہاتھ کے اشاروں سے بلائیں لینے لگ گیا۔ ایک خواجہ سرا کو ڈاکٹر نے سوئی لگائی تو اس کی ایسی آواز نکلی جو یہاں بیان نہیں کی جا سکتی۔ پورے کمرے پر ان کا قبضہ تھا۔
خون دے کر کمرے سے باہر نکلا تو باہر ایک میک اپ شدہ فل ریڈی خواجہ سرا ہال کے پلر سے لپٹا ایسے کھڑا تھا جیسے پلڑ کے ساتھ سٹرپ ڈانس کرنے کا موڈ ہو۔ میرے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا، جو ہسپتال کے عملے نے خون نکالنے کے بعد مجھے تھما دیا تھا۔ دیکھ کر بولا " ٹر چلے او۔ مولا سلامت رکھے جے۔ جوس ہی پلاؤ سانوں، میں وی خون دے کے کھلوتی آں" میں نے جوس کا ڈبہ اسے تھمانا چاہا تو وہ ناز و ادا دکھاتے بولا "بس؟
نرا جوس ای دینا جے؟ راہداری کے مرکزی دروازے پر چار پانچ خواجہ سرا تیار ہو کر دیوار سے ٹیک لگائے الگ الگ یوں کھڑے تھے۔ جیسے ایک دوسرے سے ناراض ہوں۔ ان کے کسی گرو کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔ جو اتنی تعداد میں سارے جمع تھے۔ گزرتے گزرتے ایک فربہ جسم، موٹے اور بھدے سے خواجہ سرا نے میرا راستہ روکا۔ سامنے آ کر اس نے گردن جھٹکی، اپنے لمبے بالوں میں انگلی پھیری اور بولا " اللہ تیرے مریض نوں لمی حیاتی دیوے۔
صدقہ دے جا، میں نے پچاس کا نوٹ اسے تھمایا تو بولی " ہائے ہائے، اے نئیں میں لیندی۔ ببلی نوں سو دا نوٹ دے۔ میں نے ببلی کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ چلتے چلتے اسے کہا کہ تم ببلی نہیں ببل ہو۔ سن کر بولا " وے توں وی ساڈے نال ہی ٹر پے، جگتاں چنگیاں لا لینا ایں، ہسپتال کی پارکنگ میں پہنچ کر گاڑی ریورس کرنے لگا تو ایک خواجہ سرا نے میری گاڑی بلاک کی اور دوسرا ڈرائیونگ سیٹ کے پاس آیا۔
میں نے اس سے بات کرنے کو شیشہ ڈاؤن کیا۔ وہ جھک کر اپنا منہ گاڑی کے اندر لایا اور انتہائی قریب آ کر بولا "وے، کتھے چلا ویں؟ سانوں برکت مارکیٹ تک لفٹ دے دے۔ اللہ نے تینوں بڑا دینا ای۔ ساڈے کول کرایہ کوئی نئیں" میں نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے اسے سو روپے کا نوٹ دینا چاہا کہ یہ لو چنگ چی کا کرایہ اور چلے جاؤ۔ اس نے نوٹ واپس کرتے کہا " سارے اکو جے نئیں ہوندے۔
کما کے کھانی آں، فقیر نئیں ہے گی۔ لفٹ دینی آ تے دے نئیں تے جا ٹر جا۔ اس کی مسکین سی صورت دیکھ کر اور صاف جواب سن کر میں نے ان دونوں کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ دیا۔ برکت مارکیٹ بس تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ گاڑی چلی تو فرنٹ پسنجر سیٹ پر بیٹھا ہوا بولا " باؤ اسی تنگ نئیں کردے کسے نوں۔ اسی دویں اک لفظ نئیں بولن والے۔ تیری مہربانی توں سانوں بٹھا لیا اے۔
میں سن کر چپ رہا۔ وہ دونوں بھی ایکدم چپ رہے۔ جب برکت مارکیٹ اترنے لگے تو پیچھے بیٹھا ہوا بولا " جا تینوں مولا نے بوہت دینا ای۔ اے ہنی دی دعا اے"۔ میں نے از رہ تجسس پوچھا " ہنی کیسے ایکسیڈینٹ ہوا تمہاری سہیلی کا؟ کافی سارے تم سب لوگ جمع تھے" ہنی نے سپاٹ چہرے سے جواب دیا " ایکسیڈینٹ تے نئیں ہویا۔ کسی فنکشن تے گئی سی۔ اوتھے منڈیاں نے گھٹ لا کے (شراب کے نشے میں) مستو مستی کٹ چھڈیا۔
اوناں دا تے فن سی۔ وڈیرے لوگ سن۔ غریب دی ہڈیاں پن چھڈیاں۔ سر تے بٹ مارے نیں خون کافی ضائع ہوگیا اے۔ پولس ساڈا پرچہ وی نئیں لیندی۔ اسی سارے پیسے پا کے اوہدا آپریشن پے کروانے آں"۔ یہ سن کر میں چپ ہوگیا کہ اب کیا کہتا۔ پھر اس نے مجھے دیکھ کر کہا" باؤ توں تے جا۔ تیرا بڑا شکریہ" پھر ہنی اتر کر برکت مارکیٹ کی بھیڑ میں گم ہوگئی۔
گھر پہنچ کر بیگم کے ہمراہ ماہانہ گروسری لینے جانے کا پلان تھا۔ بیگم گاڑی میں آ کر بیٹھی تو لمبی سی سانس کھینچ کر بولی " گاڑی میں کون بیٹھا تھا، جس نے اتنی تیز پرفیوم لگائی ہوئی تھی؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہنی بیٹھا ہوا تھا، جو خواجہ سرا تھا۔ بیگم نے ایک لحظہ مجھے چونک کر دیکھا اور بولی " ہائے میں مر گئی۔ اب آپ ان کے ساتھ گھومنے لگے ہیں؟
ساتھ ہی نان سٹاپ جملہ بولی جو اس کا تکیہ کلام ہے " شیم آن یو جسٹ شیم آن یو" اگلے دس منٹ مجھے اس کو ساری صورتحال تفصیل سے بتاتے گذرے۔ ماجرا مکمل سن کر اداس ہوتے بولی" یہ تو اچھا کیا آپ نے۔ بیچاروں کی زندگی ویسے ہی اس معاشرے میں جہنم بنی ہوتی ہے۔ مجھے ان پر بہت افسوس ہو رہا ہے" پھر وہ باقی رستہ بھی چپ چاپ رہی۔
ای ایم ای سوسائٹی کے اشارے پر گاڑی رکی تو ایک خواجہ سرا پاس آیا۔ تالی مارتے بولا " وے تیرے جوڑی جیوے" بیگم نے فوراً اپنے پرس سے نکال کر اسے تھمائے۔ گاڑی چلی تو پھر بولی " ان کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے۔ بیچارے کیسے کیسے گذارہ کرتے ہیں" اس نے تو صرف قصہ سنا تھا، لہذا اس کی اداسی ایک گھنٹے بعد رفع ہوگئی البتہ میں نے چونکہ دیکھا تھا لہذا رات گئے سونے تک ذہن وہیں انہی کرداروں میں اٹکا رہا۔