Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Hathi Ke Han Hathi Hi Janam Le Ga Lomri To Peda Hone Se Rahi

Hathi Ke Han Hathi Hi Janam Le Ga Lomri To Peda Hone Se Rahi

ہاتھی کے ہاں ہاتھی ہی جنم لے گا لومڑی تو پیدا ہونے سے رہی

نہ کچھ عجیب ہے نہ انہونا، وہی ہم عوام ہیں، وہی سیاستدان، وہی عدلیہ، وہی فوج۔ ہاتھی کے ہاں ہاتھی ہی جنم لے گا لومڑی تو پیدا ہونے سے رہی۔ جس طرح کا ڈھانچہ اور مزاج ورثے میں ملا ہے، نسل در نسل وہی تو کروائے گا جو ہوتا آیا ہے۔ شاہ رخ جتوئی کی باعزت بریت پر تعجب کاہے کا؟ یہ شور و فغاں تو ہر معمولی و غیر معمولی خبر پر اٹھتا ہے اور اگلے روز کمبل اوڑھ کے سو جاتا ہے۔ رات گئی بات گئی۔ یہی ہمارا ثقافتی ڈھانچہ ہے اور یہی ہماری بود و باش۔

یہ باتیں اور مناظر کم از کم میری نسل کے لیے بالکل بھی نئے نہیں لہٰذا اس پر بات کیسی اور پھر ایسی باتوں پے حیرت کیسی۔ کچھ عرصہ قبل تک (اور آج بھی گلی محلوں اور گنجان شہروں کی آبادیوں میں) جب گھر کا مرد کام پر اور بچے اسکول روانہ ہو جاتے تو عورتیں برتن اور کام کاج سمیٹ کر سبزی خریدنے، کاٹنے کے بعد وقت گزاری کے لیے پچھلی گلی میں کھلنے والے اپنے اپنے دروازے پر کھڑی ہو جاتیں اور پھر باتیں شروع ہو جاتیں۔

اپنے اپنے مردوں کی اچھائی برائی، بچوں کی بیماری، مہنگائی، فلانی کا فلانے سے آنکھ مٹکا، کسی محلے دار کی لونڈیا کے لچھن سے ہوتی ہواتی غیبت کے چراغ جلاتی ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور بعض اوقات اے فلانی ڈھینگنی، اپنی شکل دیکھی ہے تو نے کمینی، جوتا مار دوں گی منہ پر جو ایک لفظ بھی اور اس منحوس منہ سے نکالا، اے ہے ذرا ایک قدم آگے تو آ تیرا جُوڑا پکڑ کے اسی گلی میں نہ گھسیٹ دیا تو نام صفیہ نہیں وغیرہ وغیرہ تک آن پہنچتی اور پھر دو چار کواڑ دھڑم سے بند ہونے کی آوازیں آتیں اور دوپہر کا سکوت چھا جاتا۔

ذرا دیر بعد بچے اسکول سے واپس آنے شروع ہو جاتے۔ ان کی کھلائی پلائی ہوتی، چھوٹے بچے سو جاتے اور بڑے بچے سائے لمبے ہونے کے ساتھ ہی یا تو ٹیوشن پر یا پھر ساتھ والے میدان میں کھیلنے چلے جاتے۔ چنانچہ پچھلی گلی میں کھلنے والے دروازوں اور چوباروں پر صبح کو جو سیشن بدمزگی کے ساتھ ختم ہوا تھا وہ دوبارہ شروع ہو جاتا۔ کوئی عورت کسی سے نہیں پوچھتی تھی کہ صبح کو بدمزگی کیوں ہوئی تھی؟

پھر سے وہی گفتگو جو صبح کے سیشن کی طرح دھیمے خوشگوار سروں میں ہنسی مذاق کے ساتھ شروع ہوتی اور پھر گالم گلوچ کی سیڑھی پر چڑھتی جاتی۔ پھر ملازمت پیشہ اور کام کاج پر گئے گھر کے مردوں کی واپسی شروع ہو جاتی اور خالو سلام، چچا آداب، بھائی صاحب کیسے ہیں، جیتی رہو، جیتے رہو کے ساتھ ساتھ پچھلی گلی کے پٹ بند ہوتے چلے جاتے۔

مغرب کے بعد کبھی کبھار کسی گھر کے اندر سے مردانہ گالیوں کی آوازیں، کبھی تھپڑ یا لات مکی اور اس کے ساتھ ہی کوئی روتی ہوئی مسلسل باریک سی آواز، کبھی دیوار سے سر ٹکرانے کی دھمک یا کبھی بلند ہوتے قہقہے اور کبھی ایک ساتھ سب بچوں، بڑوں کی گفتگو کا شور آس پڑوس کو سنائی دیتا۔ جوں جوں اندھیرا چھانے لگتا توں توں آوازوں کا دائرہ سمٹنے لگتا اور پھر ٹی وی یا پڑوس کی مسجد میں ہونے والی کسی محفل کی آواز محلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور پھر بھیگتی رات کا سکوت تمام آوازوں کو فجر تک کمبل اوڑھا دیتا۔

یہ ہے وہ ماحول کہ جس کے خمیر سے ہماری اٹھان ہوتی ہے اور پھر پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ شائد ہم سب ایک "کنٹرولڈ کیاس" یعنی منظم افراتفری کے وال کلاک میں لگی سوئیاں ہیں جو روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کا دائرہ مکمل کرنے کے سوا نہ کچھ سوچ سکتی ہیں نہ کر سکتی ہیں۔

تو صاحبو۔ ایسی خبروں پہ حیرت کیسی اور شور کاہے کا؟ نہ خبر کچھ نئی ہے نہ نظام نیا ہے۔ ہاتھی کے ہاں ہاتھی ہی جنم لے گا لومڑی تو پیدا ہونے سے رہی۔

Check Also

Gujrat Mein Moroosi Siasat Ka Khatma

By Gul Bakhshalvi