Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hamare Haal Par Roya December

Hamare Haal Par Roya December

ہمارے حال پر رویا دسمبر​

ہمارے حال پر رویا دسمبر​

وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر​

شاعر دسمبر کی اوس کو بھی اغیار کی طعنہ زنی سمجھ رہا ہے۔ سردی نے شاعر کا دماغ اتنا خراب کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھا ہے کہ ساون دسمبر میں نہیں آتا۔ اصل میں شاعر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے ان کی کوئی وجہ تلاش کرنے کے چکر میں ہے۔ اب اور کوئی نہ ملا تو یہ الزام اس نے مہینے کے سر منڈھ دیا۔

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو​

نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر​

ابے جہاں سارا سال گزرا وہاں ان اکتیس دنوں کو کیا بیماری ہے؟ اصل میں شاعر نے یہاں استعارے سے کام لیا ہے کہ اپنے گھر والوں کے سامنے شادی کا ذکر کس طرح کرے۔ سو اس نے دسمبر کا کاندھا استعمال کرنے میں رتی بھر رعایت نہیں برتی۔

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا​

تمہارے وصل کا پیاسا دسمبر​

اسی موضوع کو شاعر نے جاری رکھا ہے۔ جب پہلے شعر پر کوئی ردعمل نہ ہوا اور گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہ ہوئی تو شاعر کا لہجہ بیباک ہوگیا۔ اور اس نے کھلے الفاظ میں وصل کی تمنا ظاہر کرنی شروع کر دی۔ شاعر کو اخلاقی سدھار کی اشد ضرورت ہے۔ یا کم سے کم شادی کی۔

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن​

بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر​

یہاں پر شاعر نے اپنی نام نہاد محبت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اگر اسے محبوب سے الفت ہوتی تو اسے وقت اور دن یاد ہونا چاہئے تھا۔ مگر شاعر کو تو عشرہ بھی یاد نہیں۔ کہ شروع تھا درمیان یا پھر آخر۔ اس کو صرف مہینہ یاد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبوب شاعر کی نسیانی بیماری و نفسانی خواہشات سے تنگ تھا۔ اور یہی وجہ بنی اس کے چھوڑ کر جانے کی۔ شعر کے الفاظ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعر کو بھی کوئی دکھ نہیں ہے۔

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے​

میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر​

اب شاعر نے یکدم پلٹی کھائی ہے۔ اور محبوب کے ذکر سے سیدھا غم روزگار پر آ پہنچا ہے۔ شاعر کسی ہوٹل میں پیاز کاٹنے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ اور انکی وجہ سے جو آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اس کو بھی دسمبر کے سر تھوپ دیا۔ حالانکہ دسمبر اک خوشیوں بھرا مہینہ ہے۔ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے لیئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مگر اسے شاعر کی مغرب بیزاری کہیں یا پھر دسمبر سے چڑ کے اس نے پورے دسمبر کو ہی نوحہ کناں قرار دے دیا ہے۔

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی​

مری تنہائی اور میرا دسمبر​

شاعر اک انتہائی غریب آدمی ہے یا مسلسل بیروزگار کہ اس کے پاس تنہائی کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔ اوپر سے اس نے اس غربت کے دور میں جب کچھ اور ہاتھ آتا نہ دیکھا تو دسمبر کو ہی اپنی ملکیت قرار دے دیا۔ اک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شاعر اک بدزبان آدمی تھا۔ اور اسی وجہ سے کوئی بھی اس سے ملنا یا بات کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ اب تنہائی میں بیٹھا اکیلے میں باتیں کرتے ہوئے دسمبر کو کہنے لگا کہ یار تم تو میرے ہو۔

دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟

دسمبر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ "شوراء اکرام" کے ساتھ ہے جنہوں نے دسمبر کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ جیسے ہی ماہ دسمبر شروع ہوتا ہے "شوراء" تو شوراء بھینس کی دم فیسبک پر بھی دبی دبی سسکیوں کے ساتھ میرے کئی دوست پرانے نیل یا قدیمی چوٹ کی مانند ابھر ابھر کر آہیں بھرنے لگتے ہیں۔ ابے کیا سب کی اسی ماہ بھاگی تھی؟ کیا اسی ماہ سب کا محبوب داغ مفارقت دے گیا؟ مرد تو مرد، خواتین بھی اس ماہ خوامخواہ اداس ہوئی پھرتی ہیں۔ یوں تو خواتین کو اداس ہونے کا بس معمولی سا بہانہ چاہیئے ہوتا ہے اور ایسے عالم میں جب آس پاس سب شاعر ابھر آئیں تو وہ بھی رنگ پکڑ لیتی ہیں۔

شاعری کا ذوق و شوق تو مجھے بھی ہے مگر یہ جو کچھ دسمبر میں نکلتا ہے یہ سراسر بیہودگی ہے۔ میری پروفائل میں ایڈ 375 لوگوں میں سے پونے دو سو احباب آجکل تن کے شاعری پوسٹ کر رہے ہیں۔ او بھائیو سویٹر نکال لو، گاجر حلوہ کھاؤ، مونگ پھلی چھیلو، اس ماہ کو انجوائے کرو۔ یہ کونسی انسانیت ہوئی کہ بلا وجہ، خوامخواہ، برائے فیشن اداس دکھنا ہے؟ اور پھر آپ کی شاعری سے وابستگی کیا پورے سال میں صرف دسمبر تک ہی محدود ہے؟

مجھے معلوم ہے کہ میری یہ سعی ناکام ہے۔ کسی کو گھنٹہ فرق نہیں پڑنے کا۔ مجھے بھی اس ماہ کے طفیل آمد ہوئی۔ آپ دوستوں کی نذر۔ داد کھل کر دیجیئے گا۔

کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی

اور اس کے سخن ور کی ایسی کی تیسی

دوبارہ یہ چخ چخ اگر میں نے سن لی

تو قندِ مکرر کی ایسی کی تیسی

اسی ماہ محبوبہ بھاگی سبھی کی؟

تمہارے مقدر کی ایسی کی تیسی

محرم میں کرنا جو کرنا ہے ماتم

محرم سے باہر کی ایسی کی تیسی

آداب۔

Check Also

Virsa Aur Jad o Jehad

By Muhammad Aamir Hussaini