Ehsan Amal
احسن عمل
اچھا، بات یہ ہے کہ میں نہیں جانتا یہ صاحب کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں، مگر چونکہ میں فن کا مداح ہوں اور ان کا فن کیچڑ اچھالنا ہے، لہذا پروموشن کے واسطے شئیر کر رہا ہوں۔ دیکھئیے، لوگ نہ جانتے ہیں نہ زندگی میں کبھی ملے ہوتے ہیں۔ مگر مفت کا بیر اور فری کا حسد ان کو سکون نہیں لینے دیتا اور ایسی حرکات پھر ان کے اندرونی غبار کا عکاس بن جاتیں ہیں۔
ہم نے لوگوں کو جج کرنا سیکھا ہے۔ اس میں ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے ماہر ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ہر لکھنے والا کسی نہ کسی کے ہاں چغد ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جو لکھ رہا ہوتا ہے۔ اس سے کسی کی دم پر پاؤں آ سکتا ہے۔ ان صاحب کی دم پر کس وجہ سے پاؤں آیا مجھے نہیں معلوم کسی نے سکرین شاٹ بھیجا تو خیال آیا کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ اس چیخ و پکار کی بلاک لسٹ دیکھی تو اس میں یہ پرؤفائل موجود تھی۔ معاملہ سمجھ آ گیا۔
اچھا ان کا دُہرا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے۔ اول تو یہ فنِ کیچر اچھالی میں آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ جو کہ عامیانہ فن ہے مگر ان کی لگن سچی ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کی بدولت اپنے پاس ایڈ کم و بیش چار لوگ بلاک کرنے کو ملے جو میری لسٹ میں ایڈ تھے اور اپنے اندرون کا غبار لگے ہاتھ نکال رہے تھے۔ یہ تو آستین کے سانپ والی بات ہی ہوگئی۔ ایسے لوگ نعمت بھی بن جاتے ہیں کہ ان جیسوں کے سبب وہ بھی ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔
جن کو چمونے کاٹ رہے ہوتے ہیں، مگر خود خارش نہیں کر سکتے۔ دنیا عجب ہے، بلاک ہونے والوں پہ اس واسطے بھی دکھ ہوا کہ محمد احسن سے اچھا تعلق رہا۔ ملاقات رہی۔ مجھے یہ امید نہ تھی کہ وہ صرف اپنی داد سمیٹنے کو کمنٹ کریں گے۔ دکھ یہ ہوا کہ اس نے مذمت نہیں کی کہ تم نے میری محبت میں باقیوں کو کیوں رگید دیا۔ اس طرزِ عمل کی اس سے توقع مجھے نہیں تھی۔
ایک ایم بلال ایم ہے۔ اس پر بھی دکھ ہوا کہ آپ تو میرے گھر مجھے ملنے آئے کہ وقت دے دیں، مجھے آپ سے سیکھنا ہے۔ اور آپ تو میری مہمان داری کے گواہ ہو۔ میرے گھر بیٹھ کر گئے ہوئے ہو اور اب آپ نے مذمت کرنے کی بجائے لمبا سا کمنٹ کیا ہوا ہے۔ جس کے کوئی معنیٰ نہیں نکلتے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو مگر اتنا کہنا چاہوں گا کہ آپ چناب کنارے کے باسی ہو اور چناب کی زمین ایسی بے فیض تو نہ تھی۔
اسی سبب میں لوگوں سے بیزار ہو چکا ہوں اور تنہائی پسند ہوں۔ نفرت ہونے لگتی ہے۔ لوگوں سے جب وہ ملنے پر بچھے چلے جاتے ہیں اور پیٹھ پیچھے یا موقعہ ملتے ہی اندر کی اصلیت سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اسی واسطے میل ملاقاتوں سے بیر رہتا ہے اور حتی الممکن کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں سے واسطہ نہ رکھا جائے۔ مست رہو اپنے حال میں بس دنیا ایسی ہی ہوتی ہے۔
اور جو صاحب تحریر ہیں، ان سے میں شناسا تو نہیں، مگر یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر تجھے کوئی پسند ہے تو سیدھا لکھ کہ میں فلاں کو بہت Like کرتا ہوں۔ دوسروں پر اپنا گند اچھال کر کیوں لکھنا کہ اب مجھے فلاں پسند ہے۔ سیدھا کہو کہ من تیرا حاجی بگویم تو میرا ملا بگو اور پھر آپ جناب اتنے ہی تیس مار خان ہوتے تو کوئی فن تو ہوتا آپ میں جسے دنیا جان چکی ہوتی؟
بھئی مجھے، ناطق اور حسنین جمال کو آپ نے ذاتیات پر اترتے ہوئے رگیدا ہے، انہوں نے تو دنیا کو اپنا فن دکھا دیا ہوا ہے۔ آپ کے پاس کیا ہے؟ حسد کے سوا کچھ کرتے بھی ہیں؟ ہر لکھنے والا اپنے ذاتی تجربات کشید کر کے لکھتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر جو سیکھتا ہے۔ جو سوچتا ہے، وہ بیان کر دیتا ہے۔ سیاست ہو، سماجیات ہو، مذہب و اخلاقیات ہو، سفری دنیا ہو کہ آزو بازو کی دنیا۔
ہر انسان کی فکر، مائنڈسیٹ اپنا ڈویلپ ہوتا ہے۔ اس سے اختلاف رکھیں یا اتفاق یہ قاری پر منحصر ہے۔ جس کی جیسی سوچ اس کی ویسی ججمنٹ مسئلہ ہی یہ ہے کہ کچھ قارئین توجہ کے شدید طالب ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگلا ان کی سوچ سے ہم آہنگ ہو کر چلے ورنہ پھر آیا جے غوری۔ آپ کو کوئی پسند نہیں، اس کی شکل کے سبب یا اس کے افکار کے سبب، اس کو ان فالو کر جائیں اور اپنی زندگی میں سکون بھریں۔
مفت میں حسد پال لینا یا اپنی اہمیت جتانے کو اگلے کو ڈی فیم کرنا بس خوامخواہ کہ حسد کی آگ ٹھنڈی ہو جائے یہ انسانیت کا درس تو نہیں ہوتا۔ ہاں آپ کو کسی کا کام پسند نہیں تو اس پر تنقید کریں، اس کے فن پر ٹرولنگ کر لیں۔ اس کے کام کو بلنڈر ثابت کر دیں یا اس نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہے۔ جو نامناسب ہے، اس کو حدفِ تنقید بنائیں، مگر ذاتیات پر اتر آنا کونسا احسن عمل ہے؟ اور جو لوگ اس عمل کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں وہ کونسا احسن عمل کر رہے ہوتے ہیں؟