Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. DHA Lahore

DHA Lahore

ڈی ایچ اے لاہور

اللہ نظر بد سے بچائے، لاہور شہر کے کل رقبے کا چالیس فیصد ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی پر محیط ہے۔ ڈی ایچ اے پھیلتے پھیلتے اب تو اتنا پھیل چکا ہے کہ اس سے باہر نکل کر خود کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ ختم ہو گیا۔ خدا سلامت رکھے اتنے فیز بن چکے ہیں کہ گنتی ختم کر کے اب خوشنما ناموں سے نوازا جا رہا ہے۔ پرزم، شہداء ٹاؤن وغیرہ وغیرہ۔

اب تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ لاہور میں چلتے آپ کس گھڑی ڈیفنس کی پاک سرزمین میں داخل ہو گئے ہیں اور کب آپ واپس لاہور میں نکل آئے ہیں۔ پرانا لاہور جسے والڈ سٹی کہہ سکتے ہیں وہاں کی تنگ و تاریک گلیوں میں چلتے میں نے اک بار گھبراتے گھبراتے اپنے ساتھی فوجی افسر دوست سے کہا "یار کبھی اس بارے خیال نہیں آیا کہ والڈ سٹی کو ڈیفنس ڈکلئیر کر کے اس کو از سر نو تعمیر کیا جائے اور تاریخی مقامات کو بحال کر کے ان پر مہنگی ٹکٹس رکھی جائیں تو ہو سکتا ہے فارن ٹورازم کھچا چلا آئے"۔

وہ چونکہ دوست تھا لہٰذا اس نے مجھے سر پر چِت لگاتے جواب دیا "کہتا تو تُو ٹھیک ہے مگر یہ جمہوری حکومتیں اور جاہل لوگ ایسا ہونے دیں گے؟" میرے جتنے خوشحال دوست ہیں وہ سب ڈیفنس کے کسی نہ کسی فیز میں بستے ہیں۔ کئی بار کہہ چکے کہ تم آخر کب تک ڈیفنس سے باہر رہو گے؟ ان کی یہ بات سن کر مجھے نجانے کیوں لگتا ہے کہ جیسے کہنا چاہتے ہو "بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی"۔ میں کبھی کبھی ان کی باتیں سن کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں تو پھر فخر سے سینہ پھُلائے کہہ دیتا ہوں"تو میں کونسا چیچو کی ملیا بستا ہوں؟ بحریہ ٹاؤن رہتا ہوں"۔

مگر وہ ایسے پکے ہیں کہ جواباً کہتے ہیں"بحریہ ٹاؤن کا پاک بحریہ سے تو تعلق نہیں ناں؟" ہک ہا، صد افسوس کہ بحریہ ٹاؤن کا پاک بحریہ سے تعلق نہیں مگر دل چھوٹا کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ عسکری کالونی، فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم اور نیول اینکریج سوسائٹی جیسے عظیم الشان رہائشی منصوبے بھی تو ہیں۔ کیا ہوا اگر نیوی اور فضائیہ کے رہائشی منصوبے ڈیفنس جتنے توانا اور بڑے نہیں۔ حصہ بقدرِ جُثہ تو ملا ہی ہے۔

تو میں کہہ رہا تھا کہ ڈی ایچ اے لاہور شہر کا چالیس فیصد رقبہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست نے لاہور شہر سے باہر زرعی رقبہ خریدا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہاں سفیدے کا جنگل لگایا جائے اور پانچ سال بعد کاٹ کر بیچ دیا جائے۔ منافع ہو گا۔ میں نے اس جگہ کا وزٹ کیا۔ اس نے سفیدے کے نوزائیدہ پودے منگوائے اور جنگل لگ گیا۔ سال گزرا ہو گا کہ ایک دن کال کر کے کہنے لگا "اوئے مہدی شاندار موقع ہے انوسٹمینٹ کا۔ ڈی ایچ اے میں کنال کی فائل لینی ہے بالکل مفت"۔

"بالکل مفت" کا سُن کر تو میں بستر سے اٹھ بیٹھا۔ "مفت؟ وہ کیسے؟ مفت کون دیتا ہے؟"۔ جواب آیا "ابے وہ جو زرعی رقبہ لیا تھا ناں وہ ڈی ایچ اے مانگ رہا ہے۔ ان کو ایکسٹینشن کی ضرورت ہے اور میرا رقبہ ان کو لگ رہا ہے۔ بات سُن غور سے، یہ رقبے کے پیسے نہیں دیتے اس کے بدلے فائلز دے دیتے ہیں۔ یعنی میرے کل رقبے کے عوض مجھے کنال کی اکیس فائلیں ملیں گی۔ تو ایسا کر فوری طور پر مجھ سے کم از کم دو کنال جگہ زرعی ریٹ پر خرید لے۔ میں تیرے نام انتقال کروا دیتا ہوں۔ اس طرح تیرا دو کنال بھی اسی رقبے میں آ جائے گا اور پھر ڈیفنس کو دے کر فائل لے لیں گے"۔

یہ ساری اسکیم سُن کر میں نے کہا "اچھا اور وہ فائل کی مالیت کیا ہو گی؟" بڑے پختہ یقین سے بولا "تُو تو ایک دم للو ہے۔ ابے ڈی ایچ اے دو تین سال میں وہ جگہ ڈویلپ کر لے گا۔ آج کی قیمت سے دس گنا زیادہ پر فائل جب چاہنا بیچ دینا۔ ایک سیکنڈ میں بک جائے گی"۔ میں نے نجانے کیوں سوال کر دیا کہ اگر نہ ڈویلپ ہوا اور نہ بک سکی تو؟ اس نے جواب میں مزید یقین کے ساتھ کہا "تو واقعی للو ہے اور فدو ہے۔ ڈیفنس کی فائل نہ بکے؟ جا سو جا تُو تیرے بس کا نہیں"۔

فون بند کر کے میں سو گیا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیفنس کی فائل ہو اور نہ بکے۔ سفیدے کا جنگل اور ملحقہ زرعی رقبہ آج کل بجری کے نیچے دفن ہے۔ وسیع و عریض روڈ بیلٹ بچھایا جا رہا ہے۔ ایک دن وہاں سے گزرتے گاڑی میں بیٹھی بیگم کو دکھاتے ہوئے کہا "ہک ہا، اس بجری کے میدان تلے میری کنال کی فائل بھی ہو سکتی تھی"۔ اس نے سن کر بہت افسوس کیا اور ملال کرتے بولے "آپ تو ہیں ہی سست کچھوے۔ آپ سے کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ آپ بس گھر جا کے سویا کریں"۔

ایک دن آئے گا جب دیگر شہروں میں لاریوں والے لاہور جاتی سواریوں کو آواز دیا کریں گے "ڈی ایچ اے، ڈی ایچ اے، ڈی ایچ اے۔ باہروں باہر لاہور"۔ شالا خدا ڈیفنس کو ہر بری نظر سے بچائے۔ اللہ مجھے بھی وہاں کنال کا پلاٹ دے اور آپ سب کو بھی۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra