Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Dard Ki Dastan Hai Pyare

Dard Ki Dastan Hai Pyare

درد کی داستان ہے پیارے

چترال میں گرمی برس رہی تھی۔ میری منزل چترال سے 16 گھنٹے دور وادی بروغل تھی۔ یہ 16 گھنٹوں کی جیپ مسافت تھی کیونکہ بروغل کو جاتی سڑک صرف جیپ کے قابل ہے۔ میں نے ایک جیپ والے سے بہت بحث کر کے ریٹ طے کیا اور بہت خوش ہوا کہ جیپ والا پھنس گیا اور جیپ سستے میں مل گئی۔ سفر شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اصل میں جیپ والا خوش ہے کیونکہ اس کی جیپ 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ نہیں چلتی تھی، پھنسا تو میں ہوں۔ فل تھروٹل پر تارکول بچھی سڑک پر بھی اس کی انتہائی رفتار اتنی ہی تھی۔ میں نے سر پکڑ لیا کہ اس رفتار سے تو یہ سولہ گھنٹوں کا سفر 32 گھنٹوں کا بن جائے گا۔

ڈرائیور نے ایک دکان سے بہت سی ٹافیاں اور لالی پاپس لیئے۔ سفر شروع ہوا۔ مستوج کے آتے آتے اس نے جیپ میں USB لگا کر گانے لگا دیئے۔ گانا کیا تھا۔ ہر گانے سے پہلے آواز آتی "سفیر درد محسن حیات شاداب کی آواز میں پیش خدمت ہے چترال کے مشہور شاعر شورش بنگش کا کلام" اور پھر چترالی زبان میں غزل چل پڑتی۔ ہر غزل میں بس شاعر ہی بدلتا باقی کمپوزیشن اور گلوکار اور موسیقی مستقل تھی۔ سفیر درد محسن حیات شاداب گاتا رہا۔ مجھے خاک پلے پڑنا تھا۔

یارخون ویلی کا جیپ روڈ شروع ہوا تو ہڈی پسلی ایک ہوگئی۔ ایک تو یہ مقامی جیپوں کا سسپنشن نہیں ہوتا کہ جھٹکے سہہ سکے دوسرا وہ سڑک سڑک تو تھی ہی نہیں پتھروں کا قبرستان تھا۔ ڈرائیور کو شائد بڑے پتھروں سے دشمنی تھی وہ انہیں کچلنے کو گاڑی ان کے اوپر سے جان کے گزارتا اور جیپ ربڑ کے گیند کی طرح ہوا میں اچھلتی اور ٹپہ کھا جاتی، ساتھ ساتھ دریائے یارخون بہہ رہا تھا۔

باہر پانی اچھلتے رہے اور اندر میں اچھلتا رہا۔ سفیر درد گاتا رہا۔ اچھل اچھل کر جھٹکوں کی وجہ سے میری کمر اور گردن کے مہرے جواب دینے لگے۔ سفیر درد محسن حیات شاداب کی آواز سے کانوں میں تکلیف ہونے لگی اور نفسیاتی اثر ایسا پڑا کہ دماغ میں کھچاؤ محسوس ہونے لگا۔

وادی یارخون کا آغاز ہوا جو کہ ڈرائیور کا وطن بھی تھا۔ وہیں کسی گاؤں میں اس کا گھر تھا۔ ڈرائیور کی PR بہت زیادہ تھی۔ وہ ہر آنے جانے والے کو رک کر ملتا۔ کبھی کبھی گاڑی سے اتر کر ملتا اور پھر سفر شروع ہو جاتا۔ پھر دو منٹ بعد اسے کوئی راہ چلتا مل جاتا اور بریک لگ جاتی۔ میں درد اور سفیر درد کی وجہ سے پہلے ہی بیزار ہو چکا تھا اب جب ڈرائیور کی میل ملاقاتیں بھی شروع ہوگئیں تو میں خود کو کوسنے لگا کہ پہلے ہی سفر کمینہ ہے دوجا جیپ کمینی ہے تیجا سفیر درد کے علاوہ کوئی میوزک نہیں سننے کو اور اب یہ ہر قدم بریک مار کر دو تین منٹ کسی نہ کسی سے ملتا ہے۔

ڈرائیور کی صرف ایک بات اچھی لگی۔ وہ جس سے ملتا چلتے ہوئے اسے شاپر سے ٹافی یا لالی پاپ نکال کر دیتا۔ وہ چاہے بزرگ ہو یا جوان یا بچہ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس عمل کی کوئی خاص وجہ؟ بولا "ایسے ہی سر لوگ خوش ہو جاتے ہیں۔ غریب لوگ ہیں۔ ٹافی اور میٹھا شوق سے کھاتے ہیں"۔ صرف اسی وجہ سے میں ڈرائیو کو برداشت کرتا رہا کہ وہ خوش اخلاق اور مہربان انسان تھا۔

سفر ایسے ہی ہوتا رہا۔ درد بڑھتا رہا۔ لمبا سفر تھا۔ اس پر ڈرائیور کی میل ملاقاتیں اسے مزید لمبا اور درد بھرا بنا رہی تھی۔ سفیر درد کی موسیقی کی الگ اذیت تھی۔ میں نے ٹیپ بند کرنا چاہی تو ڈرائیور بولا کہ سر اس کے بنا سفر نہیں ہو سکتا ورنہ مجھے نیند آ جائے گی یا ڈرائیونگ سے تھک جاؤں گا۔ سفیر درد محسن حیات شاداب گونجتا رہا اور میرا ڈپریشن بڑھتا رہا۔

ایک جگہ ڈرائیور پھر کسی کو ملنے اترا تو قریب ہی کھیلتے بچوں میں سے ایک بچہ جیپ کے قریب آیا اور سلام لے کر بولا "ہم کو فٹ بال لے دو"۔ یارخون میں سیاح کم ہی آتے ہیں۔ غربت زدہ وادی ہے۔ سادہ سے لوگ ہیں۔ بچے سیب جیسے لال سرخ ہیں جن کی آنکھیں سبز یا نیلی ہیں۔ یارخون میں جگہ جگہ سیبوں کے باغات ہیں جو سیب سے لدے ہوئے تھے۔

مجھے اس بچے کی معصومیت اور فرمائش پر بہت پیار آیا۔ میں نے اسے کہا اچھا کہاں سے ملتا ہے فٹ بال؟ بچہ خوش ہو کر بولا "وہ سامنے دکان سے"۔ میں جیپ سے اترا۔ بچوں کو ساتھ لیا اور دکان سے فٹ بال خرید کر گفٹ کر دیا۔ جیپ چلی تو میں نے بیک مرر سے دیکھا۔ بچوں کی نیلی آنکھیں اور سرخ سیب جیسے گال خوشی سے پھیلے تھے اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ میری آنکھ ڈبڈبا گئی۔

ڈرائیور نے خوش ہو کر مجھے بھی ٹافی دینا چاہی مگر میرا حلق دھول مٹی اور گرد و غبار سے جام ہو چکا تھا میں نے ٹافی لینے سے معذرت کر لی۔ شام کے سائے پھیلنے لگے۔ کمر و گردن کا درد ناقابل برداشت ہوتا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈرائیور کی میل ملاقاتوں کا سلسلہ بھی۔ آخر تنگ آ کر میں نے اسے کہا کہ تمہاری مہربانی یہ سلسلہ کچھ دیر ترک کر دو لمبا سفر ہے جلد رات بھی ہو جائے گی۔

ڈرائیور کچھ کچھ سمجھ گیا۔ ابھی آدھ گھنٹہ ہی گاڑی مسلسل چلی تھی کہ پھر بریک مارتے ہوئے بولا "چائے پی لوں ذرا۔ " چائے کیا تھی وہاں مقامی چھوٹے سے ہوٹل پر اس کے یار دوست بیٹھے تھے۔ چائے لمبی ہوگئی۔ میں جیپ میں بیٹھا خود کو کوستا رہا۔ سفیر درد گاتا رہا۔ درد بڑھتا رہا۔

وادئ بروغل کے پہلے گاؤں گھڑیل کے آتے آتے اگلی صبح صادق ہو چکی تھی۔ مجھے مسلسل سفر اور ایسے کمینے سفر کی وجہ سے تھکاوٹ سے بخار ہو چکا تھا۔ جیپ سے سامان اتار کر چلنے لگا کہ آگے وادی بروغل میں کرمبر جھیل کا پیدل مسافت کا دو دن کا راستہ تھا۔ طبیعت بیزار تھی۔ چلنے لگا تو ڈرائیور نے میری طرف ایک لالی پاپ بڑھایا اور بولا "بس یہی بچا ہے۔ یہ رکھ لو۔ جھیل پر چوسنا"۔ مجھے سن کر ہنسی آ گئی مگر اس کا دل رکھنے کو لالی پاپ لے کر بیگ کے ایک خانے میں ڈال دیا کہ کسی بچے کو دے دوں گا۔

گھڑیل گاؤں سے جھیل تک کے مسلسل دو دن پیدل سفر کی داستان بھی بہت درد بھری ہے وہ پھر کبھی سہی۔ جیسے تیسے جھیل پر پہنچا۔ بیگ سے لالی پاپ نکلا۔ مجھے دیکھ کر ہنسی آ گئی۔ سخت سردی میں تیز ہوائیں گلا خشک کر رہی تھیں۔ میں اسے چوسنے لگا۔ سامنے جھیل پر شام ڈھل رہی تھی۔ لالی پاپ کی مٹھاس اچھی لگ رہی تھی۔ درد اور سفیر درد سمیت سر کا درد یعنی ڈرائیور بہت پیچھے رہ گئے تھے۔

شاعر شورش بنگش، سفیر درد محسن حیات شاداب اور سر کے درد میرے ڈرائیور کو سلام۔

Check Also

Muhabbat Fateh e Alam

By Amir Khakwani