Aur Kharish Chirr Gayi
اور خارش چھڑ گئی
گزشتہ روز میں اسلام آباد سے لاہور آ رہا تھا۔ گاڑی اور ڈرائیور میرے ادارے کا تھا۔ معلوم ہوا کہ ادارے نے بھی تھرڈ پارٹی رینٹ پر لیا ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد میں وی آئی پیز کی موومنٹ تھی جس کے سبب گاڑیاں شارٹ ہوگئیں تھیں۔ خیر، ڈرائیور چالیس پینتالیس سالہ باتونی انسان تھا۔ سفر شروع ہوا شام چھ بجے اور لاہور پہنچا صبح کے دو بجے۔ اس دوران ان آٹھ گھنٹوں میں ڈرائیور نے دماغ کی لسی بنا دی۔
اول تو گاڑی کا انجن کمزور تھا۔ وہ سپیڈ پکڑنے سے قبل "کڑ کڑ" کرتا اور پھر انجن وائبریشن کی بدولت گاڑی کھڑکنے لگتی۔ دوم، ڈرائیور انتہا درجے کا احتیاط پسند بھی تھا یعنی گاڑی کو خالی سڑک پر حد رفتار پر چلانا اس کے نزدیک جرم تھا۔ سوم، اس کو خارش لگی ہوئی تھی کبھی کہیں خارش کرتا تو کبھی کہیں۔ مجال ہے سیٹ پر ٹک کر بیٹھتا ہو۔ چہارم، انتہا درجے کا بھوکا انسان تھا۔
سفر شروع ہوا تو اس نے دو تین مقامات پر دونوں ہاتھوں سے خارش کرتے کہا "جی ٹی روڈ سے نہ چلیں؟ موٹروے بہت لمبی پڑتی ہے۔ سو کلومیٹر کا سفر زیادہ ہو جاتا ہے"۔ میں نے اسے کہہ دیا کہ چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔ بس یہی میری غلطی تھی۔ سفر شروع ہوا تو میں نے اسے کہا کہ استاد گاڑی تو تھوڑی تیز چلا لو۔ اس نے بھگانا چاہی مگر گاڑی کھڑکنے لگ گئی اور یوں مجھ پر انکشاف ہوا کہ انجن جواب دے چکا ہے۔ بس ہولے ہولے سفر جاری رہا۔
پنڈی سے نکل کر روات تک آتے ڈرائیور نے کھانوں کا تذکرہ جاری رکھا۔ کبھی کہتا "فلانے ہوٹل کی مکھنی دال ماش اعلیٰ ہے" کبھی کسی ہوٹل کا نام لے کر بتاتا کہ روش کھانا ہو تو اس سے بہتر کوئی دوسری جگہ نہیں ملتا۔ نجانے کیوں وہ خود سے ہی ہوٹلز و کھانوں کا ذکر چھیڑ بیٹھا اور میں کام کی بدولت تھک چکا تھا لہٰذا بس سنتا رہا کہ اسے بولنے دو۔ مگر نفسیاتی اثر یہ پڑا کہ مجھے خود بھوک ستانے لگ گئی۔ میں نے سوچا کہ یہ بھی بھوکا ہوگا اسی واسطے کھانے یاد کر رہا ہے۔ اسے کہا "اچھا ٹریفک سے نکل کر روات سے آگے کوئی ہوٹل آیا تو روکنا"۔
یہ سنتے ہی اس نے خوش ہو کر کہا "سر جی، فلاں ہوٹل پر رکتے ہیں، اس کے پائے ہائے ہائے ہائے۔ بس دعا کریں کہ پائے ختم نہ ہو چکے ہوں"۔ مذکورہ ہوٹل آتے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ یہ گوجر خان اور دینہ کے بیچ کوئی ٹرک ہوٹل تھا۔ گاڑی رک گئی۔ اس سے قبل کہ میں آرڈر کرتا ڈرائیور نے خود ہی کہہ دیا "پائے لے آؤ فل پلیٹ اور صاحب سے پوچھ لو وہ کیا کھائیں گے"؟ میں نے اس کا اعتماد دیکھا تو میرا اپنا اعتماد متزلزل ہوگیا۔ میں نے اپنے لیے دال ماش آرڈر کی۔
کھانا آیا۔ کھانا لذیذ تھا۔ میں دال کھاتا رہا اور وہ چھوٹے پائے کا پیالہ اڑاتا رہا۔ فل جہازی سائز پیالہ تھا جس میں دو عدد چھوٹے پائے شوربے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اس کو پائے کھاتا دیکھ کر میرا دل بھی للچانے لگا مگر وہ اپنی دھن میں مست اپنی ساری خارش زدہ انگلیاں پیالے میں ڈبو چکا تھا۔ ساتھ ساتھ خارش کرتا اور ساتھ ہی کھانے لگتا۔ اسے یہ خیال بھی نہ رہا کہ شوربے والی انگلیوں سے کپڑے بھی گندے ہو رہے ہیں۔ عجیب وحشی انسان تھا۔ میرا تو دل ہی اچاٹ ہوگیا۔ میں نے اپنی دال کی پلیٹ اور ایک روٹی اٹھائی اور قدرے فاصلے پر جا بیٹھا۔
اس نے پائے پھڑکا لیے تو آرڈر دیا۔ "دو چائے لاؤ۔ پتی تیز۔ ایک صاحب کو دے دینا"۔ چائے آ گئی۔ اس کے بعد بل آیا۔ پائے کا پیالہ مبلغ نو سو روپے، دال کی پلیٹ ایک سو بیس کی۔ میں نے بل چکایا اور سفر پھر شروع ہوگیا۔ گاڑی رینگتی رہی۔ جہلم کے آتے چار گھنٹے بیت چکے تھے۔ اس کی خارش جاری رہی اور میں اس کی باتوں سے اکتایا گاڑی سے باہر دیکھتا رہا۔ یکایک اس نے عجوہ بیکرز پر پھر خود سے بریک لگا دی۔ میں نے چونک کر پوچھا "اب کیا؟"
خوبصورت جواب آیا "صاحب ان کا رشین سیلیڈ بہت مزے کا ہوتا ہے۔ آپ کھائیں ناں"۔ میں نے انکار میں سر ہلایا اور کہا کہ خود ہی کھاؤ۔ وہ اندر چلا گیا اور سیلڈ لے کر باہر نکلا۔ گاڑی میں آیا تو بولا "صاحب آپ لیں ناں" میں نے پھر انکار کیا۔ اس نے اب پرزور اصرار کیا کہ وہ دو چمچ لایا ہے اسی واسطے کہ آپ لیں گے۔ میں نے ایک دو چمچ لیے اور کہا کہ بس مجھے بھوک نہیں۔
وہ باقی سارا چٹ کر گیا اور چٹ کرتے ہی اس نے بل مجھے دیتے کہا "صاحب یہ بل"۔ میں نے حیران ہو کر کہا "ہاں تو؟ یہ مجھے دینا ہے؟" مسکین سی صورت بنا کر بولا "میں نے دے دیا ہے۔ آپ نہ دیں۔ کوئی بات نہیں"۔ یہ سن کر مجھے ایسا لگا جیسے میں قرضدار ہوں اور وہ اپنا قرض مجھے چھوڑ رہا ہے۔ بل چار سو روپے کا تھا۔ میں نے اسے پیسے تھماتے کہا لو رکھ لو۔ سفر پھر شروع ہوگیا۔
گاڑی رینگتی رہی اور میں بیزار رہا۔ راستے میں اس نے راہوالی کے قریب قلفی کا ذکر چھیڑ دیا۔ میں سمجھ گیا مگر نہ ہوں کی نہ ہاں۔ جب وہ مایوس ہوگیا تو بولا "صاحب یہ والا اصلی سلمان صوفی قلفی والا ہے۔ اس کے بعد نہیں آئے گا کوئی"۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ نہ آئے کوئی۔ تم بس لاہور پہنچاؤ۔ اس نے اب کے سیٹ سے اٹھ کر اپنے پچھلے نازک مقام پر خارش کی اور پھر سیدھا ہوگیا۔
اللہ اللہ کر کے گھر پہنچا۔ اترنے لگا تو ڈرائیور بولا "صاحب میں نے واپس بھی جانا ہے۔ لمبا سفر ہے۔ گھر سے چائے مل جائے گی؟" اب رات کے دو بجے بیگم کو چائے بنانے کا کہنا تو جنگ کا آغاز کرنے کے مترادف تھا۔ میں نے بٹوے سے ٹوٹے ہوئے نوٹ نکالے شاید دو سو یا تین سو تھا اور اسے دے دئے کہ بھائی راہ میں پیتے جانا اب۔ اس نے اپنی ٹانگ پر خارش کرتے جھکتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔
گھر داخل ہوا۔ بیگم نے تاخیر کا سبب پوچھا تو میں نے اسے وجوہات کی بابت بتایا۔ وہ سن کر ہنستی رہی۔ مجھے اچانک بھوک لگنے لگی۔ کھانا کھائے چھ گھنٹے بیت چکے تھے اور میں نے کھایا بھی کم ہی تھا۔ بیگم کو کہا کہ کچھ کھانے کو ملے گا؟ وہ اٹھی، اپنا پرس کھولا اور مجھے پیسے دیتے بولی "یہ سات سو ہیں۔ جائیں قریب ہی میکڈونلڈز سے برگر کھا آئیں"۔ یہ سنتے ہی میرے تن بدن میں بھی خارش چھڑ گئی۔