Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Alahl e Danish Ne Bahut Soch Ke Uljhai hai

Alahl e Danish Ne Bahut Soch Ke Uljhai hai

اہلِ دانش نے بہت سوچ کے اُلجھائی ہے

جس ملک کا میں باسی ہوں وہاں جمہوریت تین مراحل سے گزر کر انسٹال ہوتی ہے۔

پری پول رگنگ

الیکشن ڈے رگنگ

پوسٹ پول رگنگ

یہاں ہر جماعت جمہوریت کی چیمپئین ہونے کی دعویٰ دار ہوتی ہے خواہ اپنی جماعت کے اندر جمہوریت ہو یا نہ ہو۔

جس ملک کا میں باسی ہوں وہاں دو قسم کا میڈیا ہے

کنٹرولڈ میڈیا یا مین سٹریم میڈیا

اَن کنٹرولڈ میڈیا یا سوشل میڈیا

مین سٹریم میڈیا یا کنٹرولڈ میڈیا کو نیشنل میڈیا کہا جاتا ہے۔ اس میں اخبارات اور ٹی وی چینلز شامل ہیں۔ کنٹرولڈ میڈیا پر سینسر شپ کا ٹوپ چڑھا ہوتا ہے۔ " منے کے ابا"، "اجی سنتے ہو" ٹائپ گفتگو چلتی رہتی ہے۔ آزادی اظہار رائے کی گنجائش کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔

اَن کنٹرولڈ میڈیا یا سوشل میڈیا سچ میں مادر پدر ان کنٹرولڈ ہے۔ یعنی جس کے منہ میں جو آئے وہ کھُلا بک دیتا ہے۔ یہ آزادی اظہار رائے سے بہت آگے کی شے ہے یعنی اس پر آپ یونیورسل ٹروتھ کو بھی اُلٹ کرنے کا کرتب دکھا سکتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ ملک کے اندر بستے لوگ اپنے رسک پر ایسے کرتب دکھا سکتے ہیں اور بیرون ممالک بستے لوگ مکمل طور پر آزاد ہیں وہ چاہیں تو ننگا ناچ سکتے ہیں۔ اس پر اسی فیصد جعلی خبروں اور پھر ان پر تجزئیوں کی فصل صبح شام کٹتی رہتی ہے۔

جس ملک کا میں باسی وہاں ریاست کے آپریٹ کرنے کو یعنی رولز آف دی گیم کے واسطے ایک کتابی صورت میں آئین موجود ہے جو آئین پاکستان کہلاتا ہے۔ مگر یہ چونکہ مقدس ترین کتاب ہے لہذا اس کو لپیٹ کر اونچی جگہ رکھا گیا ہے۔ نظام فون کالز اور واٹس ایپ پر چلتا رہتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میرا ملک ایک جدید ریاست ہے مگر اغیار اسے بنیاد پرست ریاست اور "ڈیپ سٹیٹ" کہتے رہتے ہیں۔ مجھے تو اغیار کے دہرے معیار کی کبھی سمجھ نہیں آ سکی۔

جس ملک کا میں باسی ہوں وہاں صاحبان اختیار یا رولنگ ایلیٹ انتہائی پڑھی لکھی ہے۔ ایک بھائی سیاستدان ہے تو دوسرا بیوروکریسی میں فٹ ہے، بیٹا کسی دوسری سیاسی جماعت کا نمائندہ ہے تو بھتیجا پاک افواج میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ چچا جج ہے تو تایا ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک اور بیٹی کسی این جی او کی ترجمان ہے۔ یعنی میرا ملک انتہائی تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھوں میں نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ بس عوام جاہل ہیں جن کے سبب ملک کا بیڑہ غرق ہے۔

اس ملک میں زیست کرنے کو کچھ بنیادی اور راہنما نتائج میں نے اخذ کئیے ہیں وہ آپ کے حوالے بطور امانت کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔

میں سابق ٹوئٹر یا موجودہ X پر اکاؤنٹ تو رکھتا ہوں مگر کبھی اسے کھول کے نہیں دیکھا۔ بس بنا چھوڑا تھا۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ زندگی کی آدھی خوامخواہ کی ٹینشن سے اسی سبب محفوظ ہوں باقی آدھی خوامخواہ کی ٹینشن فیسبک ہے اس سے بچ کر رہے تو زندگی بہت پیاری محسوس ہوتی ہے۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر آپ نارمل لائف بسر کرنے کے خواہاں ہیں تو یوتھیوبرز اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی شکلیں دیکھنا ترک کر دیں۔ یقین مانیں آپ کا بلڈ پریشر کنٹرول رہے گا۔ یوٹیوب پر اسی فیصد جعلی خبروں کا بازار گرم رہتا ہے اور ایک ویو حاصل کرکے اسے ڈالر میں ڈھالنے کو ایک سے بڑھ کر ایک مداری کرتب دکھانے میں لگا رہتا ہے۔

اگر آپ اس حقیقت کو من و عن تسلیم کر لیں کہ آپ کا ملکی حالات پر کوئی کنٹرول ہے نہ آپ کے چاہنے سے وطن عزیز کے حالات سدھر سکتے ہیں تو جینے میں بہت بڑی سہولت رہے گی۔ آپ ریاست کا ایک نمبر ہیں اور بس۔ وہ شعر ہے ناں

غیر ممکن ہے کہ حالات کی گُتھی سُلجھے

اہلِ دانش نے بہت سوچ کے اُلجھائی ہے

رشتے داروں یا خاندان اور دوستوں یا عزیزوں کے آپسی معاشی، سماجی یا نجی معاملات سے جتنا کٹ آف رہ کر زندگی گزار سکیں اسے عطیہ خداوندی سمجھیں۔

نوکری یا بزنس اور اپنے بال بچوں پر اپنی توانائی صرف کریں یہ انہی کا پہلا حق ہوتا ہے۔ اگر جیب اجازت دے تو سفر کریں دنیا دیکھیں قدرت ملاحظہ کریں، کتابیں پڑھیں، مختلف انسانوں اور ان کے کلچرز سے شناسائی حاصل کریں۔ اپنے مشاہدات و تجربات اپنی نسل کے حوالے کریں۔ انہیں انسان کا بچہ بنانے پر توجہ دیں۔ یہی اصل لائف سائیکل ہے۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad