Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sana Shabir/
  4. Rozmarah Ki Zindagi Aur Samaji Rasam o Rivaj

Rozmarah Ki Zindagi Aur Samaji Rasam o Rivaj

روزمرہ کی زندگی اور سماجی رسم و رواج

پورے پاکستان میں، جیسا کہ زیادہ تر زرعی معاشروں میں، خاندانی تنظیم سختی سے پدرانہ ہے، اور زیادہ تر لوگ بڑے وسیع خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں، اکثر ایک ہی گھر یا خاندانی احاطے میں۔ سب سے بڑا مرد، چاہے وہ باپ، دادا، یا پھوپھی ہوں، خاندان کا رہنما ہوتا ہے اور خاندان اور اس کے ارکان کے حوالے سے تمام اہم فیصلے کرتا ہے۔ روایتی طور پر، معاشرے میں عورت کا مقام مردوں کے مقابلے میں ثانوی رہا ہے، اور اسے گھریلو کاموں کی انجام دہی اور فرض شناس بیوی اور ماں کا کردار ادا کرنے تک محدود کر دیا گیا ہے۔

تاہم، پنجاب میں، کپاس کی چنائی خاص طور پر خواتین کا کام ہے، اور خواتین اس طرح کمائی گئی رقم کو اپنے مقاصد کے لیے رکھ سکتی ہیں۔ امیر کسان اور زمیندار گھرانوں اور شہری متوسط ​​طبقے کے گھرانوں میں خواتین کو تنہائی میں رکھنے کا رواج اب بھی عام ہے۔ جب خواتین گھر سے نکلتی ہیں تو وہ عام طور پر سر ڈھانپتی ہیں۔ دیہی غریبوں میں، خواتین کی کھیت اور گھر میں ڈیوٹی ہوتی ہے اور وہ روایتی طور پر پردہ نہیں کرتی ہیں۔

پردہ کرنے والوں کے گھروں کے سامنے مردوں کا حصہ (مردانہ) ہوتا ہے، تاکہ آنے والے خواتین کو پریشان نہ کریں، جو عقب میں خواتین کے حصے (زنانہ) میں الگ تھلگ ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی ماتحت حیثیت "غیرت کے نام پر قتل" کے عمل سے بھی واضح ہوتی ہے، جس میں کسی عورت کو کسی مرد رشتہ دار کے ذریعے قتل کیا جا سکتا ہے اگر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خاندان یا قبیلے کی بے عزتی کر رہی ہے۔

گھروں میں باورچی خانے بڑے ہوا کرتے تھے، تب کھڑے ہو کر کھانا پکانے کا رواج نہیں تھا اور چولہے بھی نیچے فرش پر رکھے جاتے تھے۔ دیہاتی علاقوں میں گیس کی سہولت نہیں تھی تو لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ گیس کے چھوٹے سیلینڈر صرف اشد ضرورت کے تحت ہی استعمال ہوتے تھے۔ کچن کے ایک طرف دیوار کے ساتھ دبیز چادر، دری یا پرانا کمبل بچھا دیا جاتا تھا سردیوں کی شاموں ان باورچی خانوں میں بڑی رونق ہوا کرتی تھی۔

سب بچے اور گھر والے وہاں بیٹھ جاتے، وہیں چولہے پر ہنڈیا کی بھنائی ہوتی، تازہ تازہ روٹیاں سب کے سامنے چنگیر میں اتاری جاتیں اور وہیں بیٹھ کر سب کھاتے تھے، مونگ پھلی اور چائے کے کئی دور بھی وہیں چلتے، سردی میں وہ جگہ سب سے گرم اور آرام دہ لگتی تھی۔ سخت جاڑے میں انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر رکھے جاتے اور ہر کسی میں چولہے یا انگیٹھی کے زیادہ قریب بیٹھنے کی دوڑ شروع ہو جاتی۔ بجلی چلی جاتی تو لالٹین روشن کی جاتی جن کی روشنی میں دیواروں پر ہاتھ سے ہیولے بنائے جاتے تھے۔

بچے لکڑی کے چولہوں میں دہکتے انگاروں میں آلو دبا کر ان کو بھون کر کھاتے، کبھی تو وہ کوئلہ بن جاتے، بھنے ہوئے آلوؤں کا سیاہ چھلکا اتار کر نمک لگا کھانا سب سے مزے دار ڈش تھی۔ ماں سے ہنڈیا کا بھنا ہوا مسالہ فرمائش کر کے نکلوایا جاتا۔ رات دیر تک محفلیں جمی رہتیں یہاں تک کہ دہکتے کوئلے ٹھنڈی راکھ میں تبدیل ہو جاتے۔

پھر وقت بدلا، ہم ماڈرن ہو گئے نئی سہولیات آ گئیں، جدید طرز پر کچن تعمیر ہونے لگے، گھروں میں سوئی گیس آ گئی اور جدید چولہے نصب ہو گئے جن میں کھڑے ہو کر پکانے کی ترتیب بن گئی۔ آہستہ آہستہ باورچی خانے خالی ہو گئے، باورچی خانوں میں سامان زیادہ اور مکین کم ہو گئے۔ ماڈرن ہونا اور ترقی کرنا مثبت چیز ہے مگر وہ جو کہر کی شاموں میں جمنے والی محفلیں تھیں۔ وہ خواب و خیال ہوگئیں۔ اب بھی پرانے گھروں کے غیر آباد باورچی خانے ان مکینوں کو یاد کرتے ہیں۔ شاید چند گھرانوں میں اب بھی ایسا ہو، لیکن اکثر میں نہیں ہے۔

کدھر گیا دور پرانا، پے گیا کیہڑی راہ

سارا ٹبر پی لیندا سی پایا دودھ دی چاہ

Check Also

Babo

By Sanober Nazir