Ishq Aur Mohabbat Mein Farq?
عشق اور محبت میں فرق؟
محبت ہو جاتی ہے، محبت کی بھی جاتی ہے، لیکن عشق میں چنا جاتا ہے، اور چننے والی ذات قادرِ مطلق کی ہوتی ہے۔ اور جب آپ کو چن لیا جائے تو آپ اس سے بھاگ نہیں سکتے، یہ آپ کی رگ رگ پہ قابض ہو جاتا ہے۔
محبت اور عشق میں جو فرق ہے، اسے امام أبو ہلال الحسن بن عبد الله بن سهل بن سعيد بن يحيىٰ بن مہران العسكري (المتوفى: قریباً 395ھ) یوں بیان کرتے ہیں:
ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ عشق کہتے ہیں معشوق سے اپنی مراد و مطلوب حاصل کرنے کی خواہش۔ اسی لیے اچھا کھانے کی چاہت کو عشق سے تعبیر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح عشق اس خواہش کو بھی کہا جاتا ہے جو حد سے بڑھ جائے اور عاشق اگر اسے پورا نہ کر سکے تو وہ خواہش اسے مار ڈالتی ہے۔
(الفروق اللغویۃ، ج: 1، ص: 122، ط: دار العلم والثقافة القاهرة)
محبت اور عشق میں فرق اس انداز سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ محبوب محبوب ہی رہتا ہے، کوئی محبّ ہو یا نہ ہو جبکہ معشوق معشوق نہیں ہوتا جب تک کوئی عاشق نہ ہو۔
محبت کا تعلق اور نسبت ربّ، رسول کی اور ہر ایک کی طرف کی جا سکتی ہے جبکہ عشق کا تعلق صرف معشوق سے ہوتا ہے۔
محبّ ساری دنیا کے لیے سکون کا طلب گار ہوتا ہے جبکہ عاشق صرف اپنی جنسی تسکین چاہتا ہے۔
(ملخصاً از: میں محبت کس سے کروں، از: الشیخ عظیم حاصل پوری، ص: 23)
معلوم ہوا کہ عشق ایک مذموم فعل ہے جبکہ محبت ایک پسندیدہ فعل ہے۔
عشق کی شرعی حیثیت۔
قرآن و حدیث میں عقیدت و الفت کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ محبت ہی استعمال ہوا ہے۔ لفظ عشق کا استعمال ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ عزیز مصر کی بیوی کو یوسفؑ سے جو تعلق پیدا ہوگیا تھا، وہ تو ہر لحاظ سے عشق ہی تھا، لیکن قرآن مجید میں اس موقع پر بھی عشق کا لفظ لانے کی بجائے "قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا" کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ اس لفظ کے استعمال سے کس قدر پرہیز کرنے والے ہیں۔
عشق کی ابتداء اکثر محبت سے ہوتی ہے، اور جب محبت ہوتی ہے تو آپ کو خبر بھی نہیں ہو پاتی جب کہ آپ کی محبت کی مشک پورے گلشن میں چھائی ہوتی ہے، اور پھر خوشی کے دو لمحوں کے بعد ہی آپ کو جلایا جاتا ہے، جسم کا درد روح کی درد کے سامنے بہت معمولی ہوتا ہے، روح کو جب جلتے انگاروں پہ لٹایا جاتا ہے تو اس پہر جسم پہ دوزخ بھی الٹی کر دی جائے تو اس درد کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آپ کو سرابوں کی طرح بار بار آپ کی محبت سامنے لا کر دکھائی جاتی ہے اور آپ ہر بار اسے کھو دیتے ہیں، وہ لاحاصل ہی رہتی ہے۔
آپ کو بار بار درد کی گہری وادیوں میں سے گزارا جاتا ہے، اور ہر تکلیف کے بعد آپ کی ذات میں ایک نیا در کھلتا ہے، اور اس در سے گزرتے ہوئے آپ کائنات کے بہت سے مخفی رازوں کو بنا کسی سائنسی علوم کے جاننے لگتے ہیں، کئی بھید آپ پر وا ہونے لگتے ہیں، فلسفہ کی طاقت کیا ہے، لاشعور کیا ہے، روح کی کمیونیکیشن کیا ہے، سب سمجھ آنے لگ جاتا ہے۔ کائنات کے کچھ رازوں تک بنا عشق کے رسائی ممکن ہی نہیں۔
محبت میں جسم کی طلب ہوتی ہے لیکن عشق کبھی جسم سے نہیں ہوتا، عشق کا ٹھکانا روح ہے، اور جب آپ محبت سے ہوتے ہوئے عشق کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہیں تو سب سے پہلے جسم سے بےنیاز ہونے لگتے ہیں، آپ کا محبوب آپ کی دسترس میں بھی دے دیا جائے تو آپ اسے چھو نہیں پاتے، اس پل آپ کو یقین اور گمان کے ترازو میں تولا جاتا ہے، آپ محسوس کرتے ہیں کہ جو جسم آپ کے سامنے بیٹھا ہے، وہ تو آپ کی چاہت نہیں ہے، آپ کی ضرورت نہیں ہے، آپ کی تشنگی اس کی موجودگی ختم نہیں کر سکتی، آپ مایوس ہوتے ہیں۔
آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جسم کو اس خاکی کو حاصل کر کے آپ کیا کریں گے؟ وہ تو آپ کے اندر بستا ہے، آپ اس سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ تم سے زیادہ تم تو میرے اندر موجود ہے۔ میں تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہوں، تم میری ذات کا حصہ ہو، اور اگر تم خود کو میری ذات سے الگ کرنا بھی چاہو تو نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اختیارِ خداوندی ہے۔
اور پھر ایک مقام آتا ہے کہ آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ کی ذات کو توڑ توڑ کر مٹی کیا جاتا ہے، اور اس مٹی میں اس شخص کی مٹی کو شامل کر کے اک نیا خمیر تیار کیا جاتا ہے، اور آپ کی از سرِ نو تخلیق کی جاتی ہے، اور پھر آپ کے وجود میں وہ اس طرح ضم ہو جاتا ہے کہ کبھی آپ اپنی ذات میں خود کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور کبھی اس کو، دونوں میں سے کبھی ایک دوسرے پہ حاوی ہو جاتا ہے تو کبھی دوسرا۔ اور یہ تلاش جاری رہتی ہے۔
اس میں محبوب تو ایک کیریئر کا کردار نبھاتا ہے، اور باقی ساری کہانی لافانی لکھتا ہے۔
عشق پیغمبری کے اصولوں پر چلتا ہے، اس میں دلوں پر الہام اترتے ہیں، آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے، قربتِ الہٰی نصیب ہوتا ہے۔ ایک ہی جہان میں رہتے ہوں دوسرے کئی جہانوں کو انسان پر کھول دیا جاتا ہے۔