Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Khawateen Se Mutaliq Thos Qawaneen

Khawateen Se Mutaliq Thos Qawaneen

خواتین سے متعلق ٹھوس قوانین

خواتین سے متعلق ٹھوس قوانین، حقوق و فرائض کا تعین نبی کریمﷺ کے خاتم النبین ہونے کی ایک دلیل ہے۔ آپ ﷺ جس معاشرے میں تشریف لائے، وہاں خاتون کا معیار زندگی کوئی خاص قابل قدر نہ تھا۔ بالکل جیسے آج ہمارے معاشرے میں خاتون انا، رسم ورواج اور عصبیت کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے، ویسے ہی اس دور میں خاتون ایک جنس کی طرح استعمال کی جاتی تھی۔ جو ناسور بیٹی کی پیدائش پر آج ہمارے معاشرے میں پھیل رہا ہے، وہ عرب معاشرے کا بعثت سے قبل رواج تھا۔

لہذا اس عرب معاشرے میں جہاں بیٹیاں عار سمجھی جاتیں اس معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر قران یوں اظہار خیال فرماتا ہے، ترجمہ، اور جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے۔ اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں۔ (النحل)۔

اسی طرح آج کے معاشرے میں لڑکی کی پیدائش سے قبل ہی اس کی جنس معلوم کر کے بچے کا استقاط حمل کر دیا جاتا ہے۔ قران نے قیامت کے قائم ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی قرار دی ہے کہ "اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے۔ کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی" (التکویر) جیسا کہ قران مجید میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریمﷺ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں بولتے، بلکہ آپ کی گفتگو اور اعمال سب وحی ہیں۔

ترجمہ: اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں، وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے (النجم)

اسی لئے حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ حضور کے اخلاق خالص قران تھے۔ حضرت حسان بن ثابت نے کیا ہی خوبصورت اشعار کہہ کر امت کو رموز نبوت سے روشناس کرایا۔

واحسن منک لم ترقط عینیِِ

واجمل منک لم تلد النساءِِ

خلقت مبرءاََ من کل عیب

کاَنک قد خلقت کما تشاء

لہذا اس معاشرے میں جہاں خاتون ایک جنس تھی۔ جس کی خرید وفروخت ہوتی، اور بیٹیاں ناموس و نام کی خاطر بالکل اسی طرح زندہ درگور کر دی جاتین جیسے آج غیرت کے نام پر نامعلوم قبروں میں دفنائی گئی ہزاروں بے کفن عورتیں۔ آپ کریمﷺ کی اولاد میں بیٹیاں ہونا۔ مختلف قبائل کی خواتین سے نکاح کر کے انہیں امہات المومنین کا درجہ عطا کرنا اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہ کا ایک کامیاب ترین تاجر ہونا اور نبی کریم کو خود رشتہ ازدواج کی دعوت دینا۔

حضرت عائشہ صدیقہ کا فقیہہ ہونا، مسلمان خواتین کا افواج کےبشانہ بشانہ جہاد کرنا اور حضرت صفیہ (آقاﷺکی پھوپھی) کا اکیلے قلعہ کا دفاع اور حفاظت، اس بات کی نشاندہی ہے کہ تاقیامت آنے والے ادوار میں عورت معاشرے کا ایک موثر اور فعال حصہ ہوں گی۔ جس کی تعلیم اور تربیت اور اسے معاشرے میں خاص مقام دلانا حضور نبی کریمﷺ کے آفاقی مشن کا اہم حصہ تھا۔ اور یہ سب کچھ آگے آنے والے زمانوں کے لئے بطور وحی نبی کریمﷺکے مشن کا حصہ تھا۔

آپ نے فرمایا "بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بے شک وہ مَحبّت کرنے والیاں ہیں۔ (مسندامام احمد) عرب معاشرے میں حضور نبی کریمﷺ اپنی بیٹیوں (شہزادیوں ) کے ساتھ دعوت حق لے کر کھڑے ہوئے۔ جب آپ پر تکلیف کے پہاڑ توڑے گئے۔ آپ کو اذیتیں دی گئی، آپ کی شہزادیاں آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ جب حضور نبی کریمﷺ کو بھرے بازار میں اذیت دی جاتی آپ پر آپ کے چچا خاک اڑاتے اور لوگ زود و کوب کرتے، تو شہزادیاں انہیں سخت غصہ فرماتیں۔

حضور پاک کا چہرہ اقدس اور بال مبارک دھلواتیں اور روتی جاتیں۔ آپ اپنی شہزادیوں کو تسلی دیتے اور فرماتے "اے میری بیٹی، نہ تو بے شک اللہ تعالی تیرے والد کا نگہبان ہے" (ضیا القرآن) یہی نہیں ہمارے نبی کریمﷺ کا سلسلہ نسب آپ کی بیٹیوں سے ہی چلا، جو آج بھی امت کے لئے باعث تکریم ہے۔ قرب قیامت کی علامات میں سے ایک مرد و خواتین کے تیزی سے بگڑتا تناسب بھی ہے۔ جس میں خواتین ہر معاشرے میں مردوں کی نسبت زیادہ ہیں۔

حضرت انس سے مروی ایک حدیث پاک کا آخری حصہ کچھ یوں ہے کہ "مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہوگی۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا"(البخاری) آج کے زمانے میں ہم مرد و خواتین کے تیزی سے بگڑتے تناسب کا دیکھ رہے ہیں۔ قران پاک نے آپﷺ کے زریعے مسلمانوں کو 4 شادیوں کی انصاف برتنے کی شرط کے ساتھ اجازت فرمائی۔

کیونکہ بحیثیت خاتم النبین آپ کے علم میں یہ بات تھی کہ آخری زمانوں میں مرد اور عورت کا تناسب کس حد تک بگڑ جائے گا، لہذا بیٹی کی پیدائش کو رحمت خداوندی سے تعبیر فرمایا، آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہےکہ "جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کیا اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کیا اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

اسی طرح بیٹی کی پرورش پر آپ نے والد کو جنت کی خوشخبری اور کئی مقامات پر اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر اس باپ کو اپنی رفاقت کا مژدہ سنایآ۔ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "اگر کوئی شخص بیٹیوں کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور پھر اُس نے کوش دلی کے ساتھ اُن کی پرورش کی اور اُن پر احسان کیا تو یہ بیٹیاں جہنم کی آگ سے اُس کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ (بخاری ومسلم) معاشرے کی بنیادی اکائی گھر اور خاندان ہے۔

گھروں کا ماحول پاکیزہ اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہوگا تو معاشرے کی ہر اکائی خود بخود بہتر ہو جائے گی اور اس طرح ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ نبی کریمؐ نے خواتین کو خانگی اور معاشرتی ہر سطح پر ان کا صحیح مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔ خانگی اور معاشرتی ہر دو سطح پر عورت کو انسانی عظمت و احترام سے سرفراز کیا، ماں کی حیثیت سے عورت کو وہ مقام عطا کیا کہ جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی۔ آقا ﷺ نے فرمایا "مائوں کے قدموں تلے جنت ہے۔

ایک موقع پر رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا، اگر میری ماں حیات ہوتیں اور میں حالتِ نماز میں ہوتا، پھر وہ مجھے پکارتیں، اے محمدؐ، تومیں ان کی صدا پر لبیک کہتا اور نماز کوتوڑ کر ان کی خدمت اور فرماں برداری میں مصروف ہو جاتا۔ "اسی طرح گھر اور اولاد پر خرچ کرنے کی تاکید کے سلسلہ میں آپ ﷺ کا ارشاد پاک ہے" کہ شوہروں پر بیویوں کا حق ہے کہ ان کو کھلانے اور کپڑا پہنانے میں ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے" (ترمذی)

جس معاشرے میں بیٹیاں زندہ درگور کر دی جاتی تھی۔ وہاں اللہ اور اس کے رسول کریمﷺ نے بیٹی، بہن کو بھی میراث کا حقدار بنایا، ترجمہ، مردوں کے لیے بھی حصہ ہے، اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے، اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر ہو حصہٴ قطعی۔

لیکن فی زمانہ جو سلوک بیٹی یا بہن کو جائیداد کے معاملے میں بھگتنا پڑ رہا ہے، اس پر اپنے نبی کی وعید بھی سن لیں۔ جس نے ظلم کرتے ہوئے زمین روک لی وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے) (مسلم) بیوی کو اللہ کریم نے مرد کے لئے سکون کا باعث بنایا ہے۔ اور اسے مردہ کی کھیتی قرار دیا ہے۔ کوئی ذی عقل شخص کبھی بھی اپنے کھیت کو برباد نہیں کرتا۔

آقاﷺنے بیوی کو وہ حقوق عطا فرمائے کہ اس کی نظیر کسی مذہب میں نہیں ملتی "رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا، مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے، جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے، جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے" (مشکوات) اسی طرح بیوی سے لطف و محبت و دلجوئی کے لئے اس کی ناز برداری کا بھی حکم فرمایا، حضرت سعد سے ایک طویل حدیث روایت ہے۔

جس میں ارشاد نبوی ہے کہ" یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کروگے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو " (بخاری) یہ آج کے بگڑتے معاشرے میں اصلاح کا سب سے عظیم سبق ہے۔ اگر مرد عورت خصوصا اس کے حرم میں موجود خاتون کا احترام کرے، اس سے لطف ومحبت سے پیش آئے تو شرح طلاق، بے راہ روی کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر اولاد کو یہ سبق ملے گا کہ اپنے ازواج کی تعظیم ایک ضروری امر ہے۔ کیونکہ عورت کی تکریم و تعظیم اور اسے معاشرے میں فعال مقام دلانے کے لئے سب سے زیادہ مرد کی تربیت ضروری ہے۔ قرآن مجید نے وہ تمام اخلاقی پابندیاں جو مرد اور عورت دونوں پر لاگو ہوتی ہیں۔ ان کا اطلاق مرد پر پہلے اور خاتون پر بعد میں کیا ہے۔ مثلا، غض بصر یا نگاہوں کا نیچے رکھنا، سورہ النور میں آیت 30 مردوں سے خطاب ہے جبکہ 31 کا رخ خواتین کی طرف ہے۔

ترجمہ، اے نبیﷺ، مؤمن مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے خوب باخبر ہے۔ صحابہ کرام ؓم سے ایک مرتبہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا " راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ صحابہ کرام ؓم نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سوال کیا راستہ کا حق کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، نگاہ نیچی رکھنا، اذیت کا ردکرنا، سلام کا جواب دینا، اور بھلی بات کا حکم دینا اور بری بات سے منع کرنا۔

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

یہ سعادت حور صحرائی تری قسمت میں تھی

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed