Chand Aur Farishte
چاند اور فرشتے
آلو لو، پیاز لو ٹماٹر لو، کھیرا بھنڈی توری دیسی ٹینڈے لو!
یہ آواز سنتے ہی چاچی حاجراں نے اپنی بہو کو آواز دی میمونہ! آج چاند آ گیا ہے بتاؤ کیا لاؤں پکانے کو؟
اُدھر باہر سے رحمت بی بی، رخسانہ، بشریٰ اور ریحانہ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔
سب ہی نورالدین سے جسے سب چاند کہتے تھے یہی پوچھ رہے تھے کہ وہ اتنے دن کیوں نہیں آیا؟
چاند چھوٹا سا بچہ تھا تو اپنے ابا کیساتھ گدھا گاڑی پر سبزی بیچنے آتا تھا، یوں تو وہ اسکول میں پڑھتا تھا لیکن جس دن بھی اسکول سے چھٹی ہوتی وہ اپنے ابا کیساتھ آتا اور گاہکوں کے سبزیوں کے لفافے ترازو پر تولتا کبھی سبزیوں کو ترتیب سے لگاتا، پھر اس کا ابا ایسا بیمار ہوا کہ چارپائی سے جا لگا، چاند کا بچپن یہیں ختم ہو گیا۔
اب وہ گدھا گاڑی کا مالک تھا کیونکہ اب گھر کا نظام اس نے چلانا تھا۔
کتنے ہی سال بیت گئے اب چاند بیس بائیس سال کا جوان ہے۔ کوئی اس سے شادی کے بارے میں پوچھتا تو چاند شرما جاتا اور کہتا وہ جی اماں کہتی ہے جلد ہی تیری شادی کر دوں گی بس کچھ پیسے جمع ہو جائیں، اماں کو بڑا شوق ہے بہو کی بری (وری) بنانے کا، دونوں بہنوں کو ماں نے رشتہ داروں میں بیاہ دیا تھا اماں کہتی تھی ان کے فرض ادا ہو جائیں باقی ہماری خیر ہے اللہ وقت پاس کروا دیگا۔
سب اس کے شرمانے کا مزہ لیتے اس لئے روز کوئی نہ کوئی اس سے شادی کی بات ضرور کرتا۔
دو، تین سال پہلے اس نے گدھا گاڑی بیچ کر موٹر سائیکل لوڈر رکشہ (چاند گاڑی) خرید لی تھی اس پر بھی اکثر گاہک اسے چھیڑتے، ہاں بھئی چاند آ گیا ہے اپنی چاند گاڑی کیساتھ۔
چاچا اعظم باہر نکلے تو خواتین اس موٹر سائیکل لوڈر پر سجی دوکان کے ایک طرف ہو گئیں سب نے باری باری سلام کیا، چاچا اعظم نے سلام کا جواب دے کر سب سے حال پوچھا۔
سب خیر ہےناں کڑیو؟
بشریٰ بولی چاچا جی اللہ کا شکر ہے، لیکن یہ چاند آج ہفتے بعد آیا ہے اور کچھ بتا نہیں رہا یہ تھا کہاں؟
اتنے میں مہر سلیمان بھی گھر سے نکل آئے اور مسکرا کر چاچا اعظم سے ملنے لگے۔
چاچا اعظم نے پوچھا چاند پتر کہاں گیا ہوا تھا تو؟
روزے شروع ہو گئے ہیں لیکن کھانا تو پکانا ہے سب کو سبزی پھل تو چاہئیں۔
رخسانہ نے ہنستے ہوئے گرہ لگائی، لگتا ہے چاند کی شادی تھی چپ کر کے غائب ہو گیا تھا کہ ہم لوگوں کو شادی پر نہ بلانا پڑے۔
چاند نے سر اٹھا کر چاچا اعظم کی طرف دیکھا تو اس کی دونوں آنکھیں جھیل بنی ہوئی تھیں، چاچا اعظم آگے بڑھے کہ اس کو کندھے سے پکڑ کر پوچھیں بتا چاند کیا بات ہے؟
چاند بے اختیار ایک بچے کی طرح چاچا اعظم کے گلے لگا اور دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
یہ علاقہ چاند کیلئے اپنے محلے جیسا تھا ان سب لوگوں کے سامنے اس کا بچپن مزدوری کرتے ہوئے جوانی میں بدلا تھا۔ یوں تو وہ شہر سے باہر ایک گاؤں کے قریب نئی کچی آبادی میں رہتا تھا، لیکن اس کا سارا دن انہی گلیوں میں سبزی بیچتے ہوئے گذرتا تھا۔
چاچا اعظم کے گلے لگ کر روتے ہوئے چاند کا کندھا مہر سلیمان نے تھپتھپایا اور پوچھا پتر کچھ بتا تو سہی کیا ہوا؟
چاند نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ہچکی کو روکا اور بولا چاچا جی! ہمیں ڈاکو پڑ گئے تھے۔
چاچی حاجراں جو ابھی آ کر کھڑی ہوئی تھی اس نے بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھا اور بولی ہائے میرے اللہ! ڈاکو!
چاچا اعظم بولا صبح سویرے منڈی جاتے ہوئے نہتے محنت کش غریب لوگوں کیساتھ ایسی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔
چاند بولا چاچا جی جب سے ابا بیمار ہوا ہے ہمارے گاؤں کے پانچ، چھ لوگ جو مزدوری کیلئے منڈی جاتے ہیں وہ مجھے ساتھ لے کر جاتے ہیں ہمارے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ ڈاکو تو ہمارے گھر آئے تھے جی۔
ڈاکو تمہارے گھر آئے تھے مطلب جہاں تم رہتے ہو وہاں تمہارے گھر۔
بشریٰ نے حیرت سے پوچھا۔
ہاں جی! چاند نے جواب دیا۔
ہم رات کو صحن میں سوئے ہوئے تھے دو ڈاکو دیوار پھلانگ کر آ گئے دونوں کے پاس پستول تھے ایک نے ابے کو اٹھایا ایک نے میرے سر پر پستول کا دستہ مارا تو میں درد سے چیخ کر اٹھ بیٹھا۔
انہوں نے مجھے کہا پیسے نکالو تمہارے پاس پیسے ہیں۔
بارہ تیرہ ہزار روپے تھے جو منڈی میں ادھار واپس کرنے اور نیا سودا لانے کیلئے تھے وہ چھین لئے، ہمارے دو سستے سے موبائل بھی چھین لئے۔
میرا تو سب کچھ وہ روپے تھے جی، میں نے رو کر انہیں کہا اللہ کا خوف کھاؤ میں سبزی بیچتا ہوں تو بیمار ابے کی دوائی آتی ہے اور گھر چلتا ہے۔
ابے نے ایک کا بازو پکڑا اور اسے اپنی طرف کر کے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے لیکن اس دوران پتہ نہیں وہ ڈاکو گھبرا گیا کہ یہ مجھے پکڑنے لگے ہیں اس نے ابے کے پیٹ میں گولی مار دی اور دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔
دوسرا بھی اس کے پیچھے بھاگا تو میں نے اسے پکڑ لیا، مجھے غصہ آ گیا تھا اس نے میرے سر میں پستول کا دستہ کئی بار مارا یہ دیکھیں میرا سر کئی جگہ سے زخمی ہوا پڑا ہے، میں نے اسے نہیں چھوڑنا تھا وہ تو اماں بھاگ کر آئی اور میرے بازو کھول دئیے ڈاکو بھاگ گیا۔
میری اماں روتے ہوئے کہہ رہی تھی چاند پتر اسے چھوڑ دے کہیں یہ بھی گولی نہ چلا دے۔
سب کو گویا سکتہ ہو گیا تھا سب خاموش کھڑے تھے۔
چاچا اعظم بولے: پتر تیرا ابا محمد مالک اب کیسا ہے؟
چاند نے چاچا اعظم کی طرف دیکھا اور بولا، ابا مر گیا!
اور پھر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، وہ اکیلا نہیں رویا سب ہی روئے۔
چاچی حاجراں بولی چاند پتر تو آج آیا ہے تو ہمیں پتہ چلا ہمیں اطلاع ہوتی تو ہم لوگ بھی وہاں آتے۔
چاند بولا چاچی ہمیں تو ہوش ہی نہ تھی کسی کو کیا بتاتے؟
چاچا اعظم نے پوچھا پتر یہ سامان کیلئے پیسے کہاں سے لئے؟
چاند بولا چاچا جی! جب ابے کی لاش کو پولیس والے پوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال لے گئے تو وہاں سے لاش لے کر گھر لانے کیلئے میرے پاس کچھ نہیں تھا۔
ایک بابو وہاں آیا اس کی ماں بھی ہسپتال میں داخل تھی اس نے ہی وہاں سارے پیسے دئیے اور پھر ابے کے کفن اور قبر کیلئے بھی انتظام کیا۔
چار، پانچ دن گھر میں رشتہ دار آتے رہے یہ سب غریب لوگ ہیں مجھے کیا دے سکتے تھے! تسلیاں سب نے دیں۔
اماں نے بڑی دعائیں کیں ابے کیلئے اور میرے سر کے زخموں کیلئے ان مشکلوں سے نکلنے کیلئے۔
پانچویں دن پھر وہی بابو اپنے بھائیوں کیساتھ آیا اور مجھے بیس ہزار روپے دے گیا۔
کہتا تھا!
جو پہلے دیا تھا وہ میری ماں کا صدقہ تھا۔
جو اب دے رہا ہوں یہ زکوٰۂ ہے تمہارا حق ہے۔
چاچا جی! میری اماں کہتی ہے، پُتر جب اللہ فرشتوں کو بھیجتا ہے تو وہ اسی طرح انسانوں کے حلیے میں آتے ہیں۔
چاند تھا، چاند گاڑی پر سبزی تھی ارد گرد روتے ہوئے انسان تھے، جنہوں نے دل میں دوسروں کیلئے فرشتہ بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔