Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Burhapa Aur Umeedein

Burhapa Aur Umeedein

بڑھاپا اور امیدیں

بابا جی کی کوئی ستر سال سے زائد عمر ہو گی کمزور بھی تھے اور نظر کی عینک کے باوجود کچھ کم بھی دیکھائی دیتا تھا، پرانا لیکن صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا اللہ کیلئے کچھ مدد کر دو۔

میں نے انہیں کچھ امدادی رقم پکڑائی اوراپنے پاس کرسی پر بیٹھا لیا۔ میری گاڑی دھوئی جا رہی تھی اور سردی کی میٹھی دھوپ میں سروس اسٹیشن پر میں فارغ بیٹھا ہوا تھا۔

میں نے پوچھا بابا جی کیا مسئلہ ہے آپ کیوں مانگ رہے ہیں؟ وہ بولے: پتر میری ایک بیٹی بیوہ ہے اسکی دو بچیاں جوان ہیں انکی شادی کرنا ہے حالات بڑے تنگ ہیں۔

میں نے پوچھا: بابا جی! آپکے بیٹے کہاں ہیں؟ وہ بولے: پتر میرا ایک بیٹا ہمیں چھوڑ کر اپنے بال بچوں کے ساتھ دوسرے شہر چلا گیا ہے دوسرا بیٹا میرے ساتھ ہی رہتا ہے اسکا بال بچہ بھی میرے ساتھ رہتا ہے۔

میں نے پوچھا بابا جی آپ کہاں رہتے ہیں؟ اگر آپکے پاس آپکے گھر آنا ہو تو آپکا پتہ کیا ہے؟

اب بابا جی تھوڑا ناگواری سے بولے کہ یہاں قریب ہی رہتا ہوں آپ کے پاس خود آگیا ہوں جو امداد کرنا ہے کر دیں۔

میں نے کہا بابا جی! آپکی نواسیوں کی شادی کا مسئلہ ہے وہ یہاں بیٹھے تو حل نہیں ہو سکتا، آپ مجھے اپنا پتہ بتائیں یہاں ساری آبادیاں میں جانتا ہوں۔ بابا جی بولے میری نواسیاں تو گجرات میں ہیں وہاں میری بیٹی اپنی سسرال میں رہتی ہے۔

میں نے پھر پوچھا اسکے سسرال والے اسکا ذمہ نہیں اٹھا رہے؟ بابا جی اب زرا پریشان ہوئے اور بولے ذمہ تو وہ اٹھا رہے ہیں باقی بچیوں کی شادی میں جتنا ہو اتنا ہی کم ہوتا ہے۔

اب میں نے ان سے گھر کا پتہ پوچھنے کیلئے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں ان باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ قریبی آبادی میں اپنے ذاتی گھر میں اپنے بیٹے بہو اور پوتے پوتیوں کیساتھ رہتے ہیں، بیٹا کسی فیکٹری میں ملازم ہے بہت خوشحال نہیں لیکن گذر اوقات ہو رہی ہے بچے پڑھتے ہیں اور مہنگائی سے ہر فرد کی طرح وہ بھی متاثر ہے۔ نواسیوں کی شادی ضرور ہو رہی تھی لیکن وہاں کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا، بابا جی اپنی ضروریات کیلئے مانگنے نکلے ہوئے تھے۔

بابا جی کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ بیٹا مجھے میری ضروریات کیلئے خود نہیں پوچھتا، اگر مانگنا ہی ہے تو میں اس سے کیوں مانگو پھر میں کسی سے بھی مانگ سکتا ہوں۔

ساری کہانی سمجھ آ گئی تھی اب بابا جی سے گفتگو آگے بڑھی اور میں نے بابا جی سے انکی زندگی کی کہانی کریدنی شروع کی وہ بھی ساری محنت اور جدوجہد کی کہانی تھی، میں نے عرض کی بابا جی آپ کی طرح آپکا بیٹا بھی اپنی اولاد کیلئے حلال کما کر انہیں پالنے کی کوشش کر رہا ہے آپکو اس پر خوش ہونا چاہیئے وہ آپکا مودب بھی ہے آپکو انکار نہیں کرتا لیکن مسائل میں الجھا ہوا ہے اسے آپ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں کھانا آپ سب کیساتھ کھاتے ہیں، کپڑے آپکو بہو دھو کر استری کر کے دیتی ہے۔

یہ سب رب کے کرم ہیں اسکی عنایات ہیں ان پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ اگر اس کے علاوہ آپکی کوئی ضرورت نکل آتی ہے آپکو اب نظر کم آتا ہے اور آنکھیں چیک کروانا ہیں تو بیٹے کو بتائیے آپکا اس پر حق ہے اسکا مال آپکا مال ہے، لیکن اسکی مالی تنگی بھی آپکو پتہ ہے اس لئے اگر آپکی ضرورت پورا ہونے میں تھوڑا سا وقت بھی لگ جائے تو یہ ناراضگی کی بات نہیں ہے۔ آپکو اپنے بیٹے کی اس دنیا میں خوشحالی کیلئے دعا کرنا چاہیئے اور اس سے راضی رہ کر اس کی آخرت میں کامیابی کا سامان کرنا چاہیئے، آپکی ناراضگی اسکی آخرت برباد کر دے گی۔

ذمہ دار اولاد اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے اسکے باوجود لوگوں سے مانگنا اللہ کی ناشکری ہے، آپکی اولاد اللہ کا کرم ہے اس سے محبت کریں اس کو خدمت کا موقع دیں اسکے لئے آسانی پیدا کریں یہ اللہ کا شکر ہے۔

بابا جی سر جھکائے سن رہے تھے انکی آنکھیں نم ہوئیں تو میں نے انہیں گلے لگایا اور کہا بابا جی اپنے بیٹے کو جا کر گلے لگائیں اسے حوصلہ دیں کہ سب مشکلیں حل ہونگی اللہ سے اس کے لئے دعا کریں اور اسے اپنی ضروریات بتائیں۔ لوگوں میں خود کو رسوا نہ کریں اللہ کی ناشکری نہ کریں۔

بابا جی نے میری طرف دیکھا اور بولے پتر تم ٹھیک کہتے ہو مجھے غصہ اس پتر پر ہے جو مجھے چھوڑ کر چلا گیا لیکن میں غصہ اس پر نکالتا ہوں جو میری ساری باتیں سنتا ہے۔ اب میں نہیں مانگوں گا اپنے پتر کو ہی کہوں گا۔

ہمارے بزرگوں کی اپنی اس عمر میں بچوں جیسی طبیعت ہو جاتی ہے، ہم انہیں اپنے سے زیادہ سمجھدار اور ذمہ دار سمجھتے ہیں ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی ضروریات کے متعلق خود اگاہ کریں گے خود اپنے مسائل بتائیں گے لیکن بہت دفعہ ایسا نہیں ہوتا انہیں بچوں کی طرح سمجھیں جن کی صحت، صفائی، کپڑے جوتے، کہیں جانے آنے کا معاملہ سب کیلئے آپکی توجہ درکار ہے۔ اپنی مالی حیثیت کے مطابق اپنے والدین کی خدمت کو ترجیح بنائیے، کہیں ایسا نہ ہو وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہو جائیں۔

Check Also

Sehat e Zuban Par Itna Israar Kyun

By Abu Nasr