Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Aam Koi Aam Phal Nahi

Aam Koi Aam Phal Nahi

آم کوئی عام پھل نہیں

با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار، پھلوں کے بادشاہ آم تشریف لاتے ہیں۔ آم کوئی عام پھل نہیں ہر خاص و عام میں مقبول عام لذیز اور خوش ذائقہ پھل آم ہے۔ ابتدائی سیزن میں آنے والا آم کولڈ اسٹور میں رکھ کر بذریعہ کیمیکل پکایا جاتا ہے، اس کو مطلوبہ دھوپ نہ ملنے کی وجہ سے یہ ذائقہ اور غذائیت میں کچھ کم ہوتا ہے، عموماً 15 پندرہ مئی کے بعد آم موسم کی شدت سے پک کر تیار ہوتا ہے۔

اس پھل کا آبائی وطن جنوب ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا ہے، آم کو پاکستان، بھارت اور فلپائین کا قومی پھل ہونے کا اعزاز حاصل ہے، آم کا درخت بنگلہ دیش کا قومی درخت ہے اس کی وجہ پر تاریخ خاموش ہے۔ آم کی کاشت میں رقبہ کے لحاظ سے بھارت 16 سولہ لاکھ ہیکٹر کیساتھ پہلے نمبر پر ہے، جبکہ چین، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، میکسیکو، فلپائن کےبعد پاکستان کاشت کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔

البتہ آم کی پیداوار میں بھارت 16۔ 37 ملین ٹن کیساتھ پہلے نمبر پر اور چین، تھائی لینڈ کے بعد پاکستان کم زمین پر آم کی شاندار پیداوار کی وجہ سے 1۔ 78 میلین ٹن کیساتھ دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ آم کی درجنوں اقسام پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں پاکستان سے آم کئی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے، پاکستانی آم دنیا بھر میں اپنی غذائیت، منفرد ذائقہ اور دلفریب خوشبوؤں کی وجہ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں پاکستانی آم کی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں تاکہ اس کی برآمدات کو بڑھایا جا سکے، چند مشہور اقسام یہ ہیں، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، چونسا، انور رٹول، مالدا، انفانسو، لال پری، الماس، توتا پری، بادام، بنگن پلی، بیگم پسند، ثمر بہشت، سرولی، سفیدہ، سہارنی، سیندوریا، فجری، نیلم، پرنس، گولا، امر پالی، حسن آرا، بہیلی، بمبیا، قسم بھوگ، کلکتیہ، بجو، حمائت، ملغوبہ، شکر گلٹی وغیرہ۔

آم کچا ہو یا پکا ہر حالت میں اس کو کھانے کے لئے ہمارے ہاں متعدد طریقے ہیں، کچے آم سے انواع و اقسام کی چٹنیاں بنتی ہیں، اچار اور امچور بنائے جاتے ہیں، پکے ہوئے آم کو کاٹ کر کھایا جاتا ہے، بچے چوس کر آم کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں، اس کا جوس نکال کر بھی پیا جاتا ہے، آم کو دودھ یا دہی میں ڈال کر کھایا جاتا ہے، آم کو کئی طرح کے کسٹرڈ، کیک اور میٹھے پکوان میں استعمال کرتے ہیں، آم مختلف فروٹ سلاد اور فروٹ چاٹ کا لازمی جزو ہے۔

آم کو پسند کرنے کے لئے کسی خاص عمر کا ہونا ضروری نہیں ہاں البتہ خاص مزاج کا ہونا ضروری ہے، مرزا غالب کو آم بہت پسند تھے، ایک دفعہ کسی دوست کے ساتھ کہیں سے گزر رہے تھے کہ ایک گدھے نے آم کے چھلکوں سے منہ موڑ کر کچھ اور کھانا شروع کر دیا تو مرزا کے دوست بولے دیکھو مرزا! آم تو گدھے بھی نہیں کھاتے، اس پر مرزا غالب برجستہ بولے ہاں درست کہا گدھے آم نہیں کھاتے، آم کی توہین مرزا کیسے ہونے دیتے؟

سائنسی اعتبار سے دیکھیں تو سو گرام آم میں تقریباً دو سو پچاس کیلوریز ہوتی ہیں، خواتین کے لئے خصوصی توجہ طلب اطلاع ہے کہ آم کھانا بڑھاپے کے اثرات کو غالب آنے سے روکتا ہے وجہ یہ کہ آم وٹامن ای سے بھرپور ہے جس سے جسم صحت مند اور چہرہ شاداب رہتا ہے یہی وٹامن ای جلد کو ترقی تازہ رکھتا ہے اور چہرہ پر دانوں کیل مہاسوں کو آنے سے روکتا ہے۔ عموماً یہ مشہور ہے کہ آم تاثیر میں گرم ہوتا ہے حقیقت میں ایسا نہیں۔

آم ہیٹ اسٹروک کا موثر علاج ہے اسکا جوس پانی اور شکر ملا کر پینے سے گرمی اور لُو کے شدید اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ آم میں موجود وٹامن سی کولیسٹرول کی مقدار خون میں کم کرتا ہے، جبکہ وٹامن اے بینائی کو کمزور ہونے سے بچاتا ہے اور سخت گرمی میں سورج کی تیز شعاعوں میں بھی آنکھوں کو خراب ہونے سے بچاتا ہے اللہ نے یہ پھل اسی لئے گرم موسم میں پیدا کیا ہے۔

یہی وٹامن اے کی آم میں موجود وافر مقدار جسم کی خارجی تہہ بنانے والی بافتوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے جس سے انفیکشن مثلاً نزلہ، زکام وغیرہ اور تپ دق، انیمیا، ہیضہ اور پیچیس کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ آم کے فوائد کی بڑی لمبی فہرست ہے، دمہ اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات کو ختم کر دیتا ہے۔ آم میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ آنتوں اور خون کے کینسر، گلے کے غدود کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر کے خطرے کو کم کر دیتا ہے۔

آم میں موجود فائبر آنتوں کی صفویہ کر کے نظام ہضم کو درست رکھتا ہے۔ آم میں موجود کیلشیم ہڈیوں کو مظبوط رکھتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لئے بھی خوشخبری ہے کہ اس میں موجود وٹامن اے، بی، سی اور فائبر کے علاوہ بیس سے زائد اقسام کے دیگر اجزا خون کی گردش میں شکر کے جذب ہونے کے عمل کو کم کرتے ہیں آم میں قدرتی مٹھاس ہے اس کا مناسب استعمال ذیابیطس کے مریضوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے۔

وزن میں کمی ہو رہی ہو اور جسم کمزور ہو جائے تو بہترین علاج آم اور دودھ کو ملا کر استعمال کرنا ہے یہ منفرد آمیزہ ہے کیونکہ آم میں شکر تو ہوتی ہے لیکن پروٹین کم ہوتی ہے دوسری طرف دودھ میں پروٹین ہوتی ہے لیکن شکر نہیں ہوتی۔ جدید تحقیق کے مطابق آم کو دھو کر چھلکے سمیت کاٹ لیں اور اسی طرح اس کا ملک شیک بنا لیں، اس کے چھلکے میں موجود قیمتی اجزا خون میں کولیسٹرول کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

خون میں شوگر کی سطح مستحکم کرنے اور موٹاپے کے عوامل کو کم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ طب میں آم کا پورا پودا ہی بہت اہمیت رکھتا ہے اس سے کئی بیماریوں کی ادویات تیار کی جاتی ہیں، آم کے پتوں کو ابال کر یہ پانی اگر بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریض کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتا ہے، یہی پانی روزانہ ایک کپ پینے سے خون میں فولک ایسڈ کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

اس پانی سے کُلیاں کرنے پر دانت اور مسوڑھے جراثیم سے پاک ہو جاتے ہیں اور منہ کی بدبو ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے پتوں کو خشک کر کے پیس لیا جائے اور پانی کیساتھ استعمال کروانے پر کچھ ہی دنوں میں گردے کی پتھری خارج ہو جاتی ہے۔ آم تو اردو ادب میں بھی محاوروں کی صورت میں مستقل جگہ بنائے ہوئے ہے، جیسے آم کے آم گھٹلیوں کے دام، آم کھانے سے غرض یا پیڑ گننے سے، آم ٹپکنا وغیرہ۔

بے شک اپنے موسم میں یہ پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے اور مناسب قیمت پر دستیاب ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کئی غریب اور مالی مشکلات کا شکار خاندان اس پھل کو خرید نہیں سکتے، ایسے میں بہترین عمل یہ ہے کہ جب آپ اپنے گھر کے لئے آم خرید کر لے جا رہے ہوں تو ایک لفافہ اضافی خرید لیجئے، آپ کے خیال میں اس لفافے کی منزل فوراََ آ جائے گی خصوصاََ بچوں اور بزرگوں تک پہنچائیے جو اس پھل تک نہیں پہنچ سکتے۔

یقین جانیئے یہ آم آپ کے اس فعل سے عام نہیں رہیں گے خاص آم بن جائیں گے۔

Check Also

Izhar Ul Haq

By Rauf Klasra