Faryad Karen To Kis Se Karen
فریاد کریں تو کس سے کریں
کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسے ہوتی ہے، لیکن یہ باتیں ہم نے صرف سنی ہے عملی زندگی میں ہم نے محسوس نہیں کیا کہ ریاست ماں جیسے ہوتی ہے اور ماں جیسے کردار ادا کرتی ہے۔ ہم جس ریاست میں رہتے ہیں یہ تو ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے۔ ہم ایسی ریاست میں رہتے ہیں جہاں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے، یعنی ہر چیز سے مالا مال ہمارا ملک ہے۔ معدنیات کی کمی نہیں، گیس کی کمی نہیں، پانی کی کمی نہیں، فصل کی کمی نہیں حتیٰ کہ کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ چیزیں کسی کو میسر نہیں ہوئی۔ یہ سب مختلف اشرافیہ کے گرفت میں ہے۔
پاکستان انتہائی امیر ملک ہے۔ پاکستان کےپاس جو موجود ہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہمارے ملک پر بہت کرم ہے۔ لیکن ہم بدقسمت قوم ہیں کہ اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا۔ ہمارے ملک میں وہ پیداوار ہیں کہ ہم دنیا کے دوسرے ممالک کو دے سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارا ملک پیچھے جا رہا ہے۔
ہمارے ملک کے بعد زیادہ تر ممالک آزاد ہوئے ہیں آج وہ ممالک دنیا کی کامیاب ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ ہم اگر اپنی بجلی پر بات کریں تو پاکستان میں بجلی کی پیدوار میں کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی خیبرپختونخوا پیدا کر رہا ہے۔ خیبر پختونخوا سالانہ 20 ہزار ارب یونٹ بجلی پیدا کر رہا ہے، اور خیبرپختونخوا کی ضرورت صرف 10 ہزار یونٹ ہے۔ پھر باقی بجلی کہاں گئی؟
یہ میں نے صرف خیبرپختونخواہ کی بات کی باقی ملک میں بھی کئے ڈیمز ہیں جو سالانہ کافی بجلی پیدا کر رہی ہے۔ پاکستان اتنے پانی کے باوجود تیل سے بجلی پیدا کر رہا ہے لیکن یہ حیران کن بات ہے کہ آخر کیوں؟ ہمارے ملک میں تو پانی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پانی اتنا تو ہے کہ اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کر رہی ہے۔ پھر یہ پانی جا کہاں رہا ہے۔ بجلی بلوں میں مختلف قسم کے ٹیکسز لگائے جاتے ہیں حالانکہ ان ٹیکسز کا کوئی جواز ہی نہیں ہے کہ آخر کس بنیاد پر یہ ٹیکسز شامل کئے جاتے ہیں۔
خیبر پختونخوا وہ واحد صوبہ ہے جن کے عوم بر وقت بجلی بل ادا کر رہے ہیں۔ اور بجلی بھی اپنی پانی سے پیدا کر رہا ہے لیکن بلوں میں ایندھن کے ٹیکس لگائے جاتے ہیں بڑی حیران کن بات ہے کہ آخر کس بنیاد پر یہ ٹیکسز لئے جاتے ہیں۔ سوالات یہ اٹھ رہے ہیں کہ آخر یہ کیا وجوہات ہیں کہ باوجود سب کچھ ہم پاکستانی خوار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں صرف مسائل ہیں۔ ہم کس کس مسئلے پہ بات کریں۔
مہنگائی کو دیکھیں پاکستان دنیا میں وہ واحد ملک ہے جس میں مہنگائی کی شرح زیادہ ہے۔ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وہ چیزیں مہنگی ہیں جو ہمارے ملک کی اپنی پیداوار ہیں۔ مثال کے طور پر چینی، گندم یہ وہ پیداوار ہیں جو پاکستان میں وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن مارکیٹ میں یہ پہلے تو آپ کو ملے گی نہیں اور اگر ملے گے تو انتہائی مہنگی قیمت پر ملے گی۔ دوسرے چیزیں اگر مہنگی ہیں تو چلے ہم مان لیں گے لیکن یہ دو چیزیں کیوں مہنگی ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کم از کم ہمارے اپنی پیداوار کی چیزیں تو سستی ہوتی۔ لیکن نہیں بس عوام خوار ہونگے۔
تیسری بات یہ ہے کہ چلو چیزیں تو مہنگی کردی گئی مہنگائی کے بم تو گرائے گئے لیکن پہلے اپنے عوام کی حالت کو تو دیکھو عوام کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عوام پر زرا بھی ترس نہیں کھاتے۔ بے روزگاری کی بات کی جائے تو پاکستان میں اتنی بے روزگاری ہے کہ پچھلے چار مہینوں میں تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار افراد ملک سے باہر چلے گئے۔ ایک طرف مہنگائی، دوسری طرف بے روزگاری تو عوام کیا کریں گے۔ ریاست آخر چاہتی کیا ہے۔ اتنا ظلم تو دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ہے۔ یہود بھی اتنے ظلم کسی مسلمان پر نہیں کریں گے جتنے ظلم ہمارے اس مسلمان ریاست میں مسلمانوں پر ہو رہے ہیں۔
اگر ریاست نے یہ رویہ ایسے جاری رکھا تو وہ دن دور نہیں کہ ریاست کے خلاف عوام نکلیں گے اور بغاوت کرنے کا اعلان کریں گے۔ ظلم اور جبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ پاکستان دنیا کے نقشے میں ہر طرح سے بدنام ہوا۔ اپنے ملک کا یہ حال ہے جب یہ پاکستانی دوسرے ممالک میں جاتے ہیں تو پھر ان کو وہاں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، وہاں بھی ان کی عزت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں جو ذخائر ہیں وہ ذخائر دنیا کے دیگر ممالک خرید کر اپنے ممالک کو ترقی دے رہے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔
اداروں کو چاہیئے کہ کرپشن کی روک تھام پر زور ڈالے۔ نا انصافی کی مخالفت کرے، غریب کی آواز سنے، اس ملک کے جوان کی طاقت بنے، اس ملک کی ترقی میں عوام کے ساتھ کھڑے ہوجائے۔ یہ ملک ترقی کرے گا تو سب خوشحال ہونگے۔ اس ملک کے ہر فرد کو ان کے حقوق دینے کی ضرورت ہیں۔ اس ملک کی عوام کو سہولت ہوگی، اس ملک کی عوام کے ساتھ رعایت ہوگی، اس ملک کے عوام کو انصاف ملے گے تو یہ ملک ترقی کرے گا۔ جتنے بھی سیاستدان ہیں سب کو پاکستان کی ترقی کے بارے میں مل بیٹھ کر سوچنا چاہیئے سیاست اپنی جگہ سب سے پہلے اس ملک کی ترقی ہے۔ یہ ملک ترقی کرے گا تو یہاں سیاست ہوگی۔