Baap Ka Rawaiya Bhi Badal Sakta Hai
باپ کا رویہ بھی بدل سکتا ہے
کہتے ہے کہ باپ اپنی اولاد کیلئے سایہ ہوتا ہے۔ اولاد پر جتنی بھی تکالیف آتی ہے باپ ان تکالیف کو دور کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ باپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی زمہ داری سونپی ہے۔ باپ جب باپ بنتا ہے تو اس کے ساتھ ان کی زمہ داریاں بڑھتی ہے۔ باپ کی دل میں بہت سی خواہشات ہوتی ہے اپنی اولاد کیلئے کہ میری اولاد کامیاب زندگی گزارے۔ ماں باپ وہ رشتے ہیں جو اپنی اولاد کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی بس یہی خواہشات ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ہماری اولاد کامیاب ہوجائے اور ہمارا نام روشن ہوجائے۔
باپ کا مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ جب کوئی بچہ کسی اچھے کام میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کا سارا کریڈٹ باپ کو جاتا ہے۔ معاشرے میں لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کے بیٹے نے یہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ تو باپ کے مرتبے سے آپ سب کو پتہ چل گیا ہوگا۔ لیکن اب باپ کے دوسری رخ کو دیکھ لیتے ہیں۔
باپ کی ہمدردی، باپ کی شفقت، باپ کی محبت، باپ کی محنت، باپ کی خواہشات وغیرہ کچھ حد تک ہوسکتی ہے اور وہ حد ہے جب اس باپ کی اپنی بیوی زندہ ہو اسی کی اولاد کیلئے باپ اس وقت تک سب کچھ ہوتا ہے۔ لیکن جب اولاد کی ماں مرتی ہے تو باپ کے رویہ میں تبدیلیاں شروع ہوتی ہے۔ سگے باپ کے رویہ میں وہ تبدیلیاں آتی ہے کہ اولاد حیران رہ جاتی ہے کہ یہ وہ باپ ہے جو ہمارے لئے سب کچھ کرنے کیلئے تیار تھا۔ یہ وہ باپ ہے جس نے گرمی کی موسم میں سخت گرمی برداشت کرکے ہمارے اچھے مستقبل کیلئے سوچا۔ یہ وہی باپ ہے جو اپنے اولاد کو کامیاب دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ وہ باپ ہے جو اپنی اولاد کیلئے دن رات ایک کرکے محنت مزدوری کرتا رہا۔ یہ وہ باپ ہے جو اپنی اولاد کیلئے دوسرے رشتہ داروں سے لڑرہا تھا، یہ وہ باپ ہے جو اپنی اولاد کی خاطر اپنے سگے بھائی سے لڑ رہا تھا۔
یہ سب کچھ صرف چند لمحوں میں ختم ہوجاتا ہے جب بچے یتیم رہ جاتے ہیں۔ باپ دوسری شادی کرکے اپنے نئی بیوی بچوں کے ساتھ زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ یتیم اولاد کی کوئی فکر ہی نہیں رہتی۔ باپ کی آنکھیں اتنی بند ہوجاتی ہے کہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں ایک باپ ہو میری اولاد دو بیویوں کی ہے۔ بیویاں میری پرائی ہے لیکن اولاد تو اپنی ہے۔ لیکن نہیں باپ صرف نئی بیوی کی اولاد کیلئے سب کچھ کرتا ہے اور کچھ تو برملا یہ کہتے ہیں کہ میری تو کوئی اولاد ہی نہیں ہے۔ یعنی سگہ باپ سگے بیٹے سے کہتا ہے کہ تم میرے بیٹے ہی نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ باپ کی محبت عارضی ہے۔ باپ کی محنت اولاد کیلئے عارضی ہے۔ باپ کی دوڑ عارضی ہے۔ یہ کیسی محبت ہے جو دوسرے بیوی کی آتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔
اگر باپ دوسری بیوی کی موجودگی کے باوجود وہ رہتا جو پہلے تھا تو کبھی بھی کسی یتیم کو دوسروں کی باتیں نہیں سننا پڑتی، کبھی یتیم کے زہن میں یہ خیال نہ آتا کہ میں یتیم ہوں، کبھی کسی یتیم کو یہ سوچ نہ ڈوبتی کہ میں ایک یتیم ہوں اور میری ماں نہیں ہے۔ یتیم کی جب ماں مرتی ہے تو اسی دن سے اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تو دنیا ہے کسی کی ماں مرگئی اور وہ بچہ ہے تو کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے کہ باپ کی رویہ میں تبدیلی آتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بیوی کی وفات کے بعد تو باپ کی زمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایک ان کی بیوی مرتی ہے دوسرا ان کی اولاد یتیم ہوتی ہے، اس باپ کو چاہیئے کہ اپنی زمہ داریاں پہچانیں کہ مجھے اب اپنی اولاد کو ڈبل محبت دینی ہے۔ لیکن نہیں ہمارے معاشرے میں باتیں الٹا چل رہی ہے۔ سب کچھ الٹا چل رہا ہے۔
باپ کی بیوی مرجاتی ہے تو باپ نئی شادی کرکے اپنے زندگی کو کہیں اور انجوائے کرنا چاہتا ہے۔ ان کے دل میں زرا بھی رحم نہیں ہوتا کہ میں وہ باپ ہوں جس نے اپنی اولاد کیلئے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے۔ دنیا میں ایک ہستی ہے جسے ہم ماں کہتے ہیں ان کی رویہ میں کبھی تبدیلی نہیں آتی۔ اولاد اگر اپنی ماں کو گالیاں بھی دے تو وہ ہستی اولاد کو دعائیں دیتی ہے کہتی ہے کہ یہ میری اولاد ہے۔ ماں اپنی سب کچھہ داؤ پر لگاتی ہے لیکن بچوں پر آنچ تک نہیں انے دیتی۔ باپ کی محبت عارضی ہے۔ باپ کی محبت پر کمر باندھ نہیں لینی چاہیئے۔ باپ کی محبت میں کسی بھی وقت تبدیلی آسکتی ہے۔
دنیا کے تمام رشتوں کی محبت میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن واحد ہستی ہے ماں جس کی دل میں اپنی اولاد کیلئے تبدیلی نہیں آسکتی چاہے وہ ماں دوسری شادی کرے، چاہے کہیں اور چلی جائیں لیکن اولاد کیلئے ان کی محبت تا حیات جاری رہتا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہے کہ میں ماں جیسی عظیم ہستی کیلئے بیان کرسکوں۔ لہذا باپ کو یہ ضرور سوچ لینی چاہئیے کہ میرے یتیم اولاد بھی میری ہی اولاد ہے۔ بیوی کے سامنے اولاد سے محبت اور بیوی کی غیر موجودگی میں نفرت۔ اولاد بھی سوچتی رہتی ہے کہ یہ وہی باپ ہے جو ہماری ماں کی موجودگی میں سب کچھ لٹانے پر تلہ تھا۔
اولاد کو کبھی بھی یہ احساس نہیں دلانا چاہیئے کہ تم یتیم ہوں۔ اولاد یتیم ہوئی تو یہ تو اللہ کی رضا ہے، اس میں کسی کا قصور تو نہیں ہے۔ لیکن باپ کو اپنا رویہ تبدیل نہیں کرنا چاہیئے۔ اس تحریر سے آپ نے سیکھا ہوگا کہ ماں کی غیر موجودگی میں باپ کا رویہ مکمل طور پر تبدیل ہوسکتا ہے۔ وہ باپ باپ کہلانے کے قابل نہیں ہے جو اپنی اولاد میں فرق کرے۔