Prism Gar
پرزم گر
بادشاہ گر کے ہاتھ میں رنگا رنگ ڈسکیں تھیں۔ ایسی پرزم جس میں رنگین شیشوں والی سائیڈ بھی تھی اور کالے بلائنڈرز والی بھی۔ وہ اسے گھما گھما کر مختلف روشنیوں سے خواب بناتا اور تباہ کرتا تھا۔ یہ پرزم شفاف نہ تھا البتہ اس پرزم میں فلیٹ، پالش شدہ اور دیگر بے شمار سطحیں اور زاویے موجود تھے جو روشنی اور اندھیرا پھیلانے کے لئے الگ سے منتشر ڈیزائن تخلیق کرتے تھے۔ عکاسی کے دوسرے متشابہات بنانے کے لیے پولرائزڈ لائٹ کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔
بادشاہ گر نے ایسے ہی ایک دن لغت کھولی تو کچھ ایسے الفاظ پر نظر پڑی جن سے کام لینا اس کے لیے بہت آسان بھی تھا اور دلچسپ بھی۔ اس نے سوچا کہ یہ سب اندھیرے اجالے کا کھیل ہے۔ زندگی بھی تو اچھائی، برائی، خوشی اور غم کے چکر میں رہتی ہے۔ وقت بھی دن اور رات کے دائرہ میں قید ہے۔ سو اس نے پرزم گھما کر اپنے من پسند مناظر تخلیق کرنا شروع کیے۔
جدید تجربات نے اس کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ وہ جس طرف پرزم گھماتا اس طرف اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق روشنی گھماتا اور سب کو دکھا کر داد وصول کرتا۔ کالے لوگوں کو گورا دکھانے کا وہ ماہر ہو چکا تھا۔ جسے چاہتا اسے ننگا دکھاتا اور جب چاہتا ننگے بادشاہ کو کپڑے پہنا دیتا اور لوگوں کو اسی منظر پر یقین کرنا پڑتا۔ رفتہ رفتہ سماج سدھار تحریکوں نے دم توڑ دیا تھا۔ کتنے ہی دانش ور اس پرزم کی زد میں آ کر جان سے گئے۔
جب سے اسے علم ہوا کہ پرزم ریاستہائے متحدہ امریکا کا ایک خفیہ برقی سرکاری پروگرام ہے جس میں پر دنیا بھر کے افراد کے ڈیٹا کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ میں موجود پرزم کو خاص تکنیک سے استعمال کرنے کی ٹھانی اور اس ڈیزائن کی بے شمار نقول مختلف گروہوں میں پھیلا دیں۔ جس کا جی چاہتا ایسی اطراف کو عیاں کرتا جو بے معنی اور وقت کا زیاں تھا۔ لیکن لوگوں کے ہاتھ ایسا مشغلہ لگ گیا جس میں وہ ہی منصف تھے اور وہ ہی عادل۔ شر پسند عناصر کسی بھی عمل پر پرزم کا رخ ایسے کرتے کہ خلقت اس شخص پر ٹوٹ پڑتی۔ اور پھر نئے منظر کی تلاش میں ہلکان رہتی۔
بادشاہ گر کو اس تباہی سے چنداں سروکار نہ تھا۔ وہ پرزم گھماتا اور اپنے گروہ کو محنت پسند خردمند کا لقب دلواتا۔ دن رات ہر چینل پر اس کی تشہیر ہوتی اور سادہ لوح عوام وہی دیکھتی جو دکھایا جاتا۔ یہ ملبہ خوب بک رہا تھا۔ پرزم کے عکاسی سے چور ڈاکو کی تکرار یوں کی جاتی کہ ایسے لوگ بھی یہ نعرہ لگانے لگتے جنھیں گھٹیا افیون لینے کے لیے بھی مانگ تانگ کر گزارا کرنا پڑتا۔ اور اسلامی نعرہ لگانے میں کتنے ہی دلال بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر آواز لگاتے۔
واقعات کے ظہور و نمود کے منصوبہ ساز نے پرزم کی مدد سے دشمنوں کے ساتھ دوستوں کا زہر بھی سجا رکھا ہے۔۔ دیدہ و دل فرش راہ کیے کرامات کے سکریچ نے ہماری زندگی کے گرد وہ ڈور باندھ دی ہے جس پر آئندہ اٹھنے بیٹھنے سے لے کر سوچ کا مدار ہے۔ شبھ گھڑی، نظر بد، حاسدین، حسد، دشمنوں کی پیدا کردہ رکاوٹیں اور ان سے منسلک پروپیگنڈہ ہمیں مفلوج کرنے میں میٹھے زہر کا کردار ادا کر رہا ہے۔
فلاں بزرگ، فلاں بابا جی، فلاں لیڈر کے گرد شہد کا چھتا یعنی ان کے کردار و کرامات کی شہرت نہ صرف ہمیں کشاں کشاں وہاں تک لے جاتی ہے بلکہ ہم اردگرد کے لوگوں کو فیض پہنچانے یا اس فیض سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا بابا یا پیر ایسی گیدڑ سنگھی تھامے ہمیں "جا تیرا کام ہو گیا" کے نسخے درکار ہیں۔ ہم تو بھکاری اور نشےکے دھوئیں سے لپٹے لاچار لوگوں کی دعا کو بھی یوں سینے سے لگاتے ہیں جیسے ہماری پاس وہ شہ رگ نہیں جس سے بھی قریب تمام کائنات کو ازل سے ابد تک نوازنے والا ہماری پکار کو ہر لمحہ سنتا ہے۔
وہ غیرت جو درویش کو تاج سر دار پہناتی ہے اور جہان تگ و دو میں بڑی چیز ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ صرف مکر زدہ درویش کے ہاتھ ہے یا تخت پر بیٹھے بت بے رحم کے پاس۔ اور ہم صرف اس کے دفاع کے لیے رکھے گئے ہتھیار ہیں جسے پرزم کے بٹن سے آن کیا جاتا ہے۔
آخر ایک دن کھیلتے کھیلتے اصلی پرزم ٹوٹ گیا۔ بادشاہ گر کے سامنے اندھیرے بڑھنے لگے۔ اس کی آنکھیں چکاچوند کی عادی تھیں اب گھٹا ٹوپ اندھیرے سے گھبرا گئیں۔ اس نے لاکھ کوشش کی کہ پرزم دوبارہ جڑ جائے لیکن بات نہ بنی۔ مجمع بادشاہ گر سے خائف ہونے لگا تھا۔ منچلی عوام اپنے بادشاہ گر کے کرتب دیکھنے کے عادی تھی۔ ان سے تماشے کی لت چھڑوائی جا رہی تھی۔ سلطنت اجڑنے کو تھی۔ عوام کا ٹھٹھ پیاسا تھا۔ لوگوں کے جسم ٹوٹ رہے تھے۔ تماشا گاہ ویران تھی جہاں بادشاہ گر ننگا نظر آ رہا تھا۔
اب عام لوگوں کے ہاتھ پرزم لگ چکا تھا اور سلطنت اسی کے زور سے چل رہی تھی۔ طاقتور ڈگڈگی بجاتا ہے اور کمزور خود اپنے گلے میں رسہ ڈال کر پھانسی پہ لٹک جاتا ہے۔ اس پرزم کی خوبی یہ ہے کہ نظر بھی نہیں آتا اور کام بھی دکھاتا ہے۔ دیکھنے والوں کا گمان ہے کہ عنقریب یہ پرزم بچے جنے گا اور سلطنت میں بادشاہ گر ہی بادشاہ ہوں گے۔