Pakistan Ka Naheef O Nazar Bargad
پاکستان کا نحیف و نزار برگد
میرے سامنے برگد کے ایک درخت کی تصویر ہے جس کی مماثلت ایک نحیف و نزار بوڑھے سے ہے۔ اسے ہرا بھرا اور شادابیوں سے بھرپور ہونا چاہئے تھا کیونکہ نہ تو وسائل کی کمی ہے نہ ہی خلوص و دیانت کی لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے چہرے پر صدہا سلوٹیں ہیں جن سے بے بسی اور بے چارگی جھلکتی ہے۔ اس کی بجھی آنکھوں میں امید و یاس کے چراغ بیک وقت جھلملا رہے ہیں یہ آنکھیں بینائی سے محروم نہیں بس خوابوں کیبے حرمتی پر غم و اندوہ نے لو مدھم کر دی ہے۔
غور سے دیکھیں تو اس کے ایک گال پر چاند اور دوسرے پرستارا بھی نظر آتا ہے۔ ستارے کی چمک مدھم اور چاند کی روشنی بھی دھندلی ہے۔ لیکن پس منظر میں سبز اور سفید رنگ پوری آب و تاب سے جگمگا رہا ہے اس کا لباس خون کے دھبوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان دھبوں کو مٹانے کی جدوجہد کے آثار لباس کی حالت سے عیاں ہیں۔ لیکن سوکھے ہوئے خون کے نشان ابھی بے ضمیر نہیں ہوئے۔ شہیدوں کا یہ لہو کبھی بے رنگ نہیں ہو سکتا۔ لازوال قربانیاں اس کی بنیادوں کی مضبوطی میں رخنہ نہیں آنے دیتیں۔ اس کے پاؤں میں چھالے سہی۔ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ سہی مگر شجر سایہ دار تن کر کھڑا ہے۔ اس کے ایک پاؤں میں گرد آلود جوتا ہے اور دوسرا پاؤں؟
اوہ اس کا دوسرا پاؤں تو شاید بے نشان سازشوں نے کاٹ ڈالا ہے۔ شاید اس کی لڑکھڑاہٹ کی وجہ بھی یہی ہو۔ برگد کا یہ بوڑھا درخت شاید پاکستان ہے۔ اس کی تصویر گلی محلوں اور ہر شاہراہ پر چسپاں ہے۔ میں نے غور سے نظر ڈالی تو تصویر کے نیچے کچھ لکھا تھا۔ اسے پڑھنے کے لئے رکنا پڑتا تھا۔ جبکہ ایک ہجوم اس پر نظریں ڈالے بغیر ہی رواں دواں تھا میں نے قریب جا کر پڑھا تو لکھا نظر آیا کہ یہ بوڑھا درحقیقت اتنا عمر رسیدہ نہیں جتنا اس پر گزرے ماہ و سال نے اثر ڈالا ہے۔ اس کے ساتھی درخت اس سے عمر میں چھوٹے لیکن بھرپور مضبوط اور شاداب ہیں۔ غور کیا تو یہ بات درست نظر آئی۔ اسے خون کی نہیں صرف دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ اپنا خون پسینہ دے کر اسے محفوظ رکھنے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔
تبھی تو تصویر پر دکھائی دینے والے چہرے کے نیچے تنومند تنا ہے۔ اس کی شاخیں دائیں بائیں اوپر نیچے ہر طرف سے سایہ دے رہی ہیں لیکن ہم یہ دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ یہ چھاؤں اور ثمر کا سلسلہ کہاں سے جاری ہے جو کسی بھی موسم کی سختیوں سے گھبرا کر رکتا ہے اور نہ ہی ختم ہوا ہے۔ اس کی کچھ شاخیں اور پتے مرجھائے ہوئے ہیں اور کچھ ثمر آور ہیں۔
اسے جہاں جہاں خلوص، دیانت داری اور محنت کا پانی ملتا ہے اس کے آثار نظر آ رہے ہیں اور جن مقامات سے اس کی جڑیں اور شاخیں کاٹنے اور کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ بظاہر نادیدہ ہاتھ بھی اپنا نقش چھوڑ گئے ہیں۔ یہ نقش ان کے الفاظ کی بے ضمیری میں جھلکتے ہیں۔ یہ امن میلے اس بے ضمیری اور دوغلے پن کا داغ نہیں دھو سکتے۔ ان نقوش کو اجاگر کرنے والوں کی قربانیاں بھی تو کم نہیں۔ کئی تو ان نقوش کی تہوں کو کنگھالنے اترے تو جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔
انسانی رویوں کے تضاد اور چشم پوشی پر ہر صاحب احساس کے سینے میں چنگاری جلتی ہے۔ دل میں درد بھی ہوتا ہے۔ اگر ہم سب اس کی چھاؤں میں بیٹھے ہیں تو پانی دینے والے چند ہی ہاتھ کیوں ہیں؟ کتنے ہی گروہ اس کی ناتواں حالت کو نظر انداز کئے اس کے مادی و جذباتی وسائل سے فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ کتنے ہی موسمی پرندے اس پر گھونسلا بناتے ہیں اور پھر نظر نہیں آتے۔ جسے بھی اس تصویر کا دکھ نظر آتا ہے۔ اس کا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔
خدا جانے اس کے پیچھے کون لوگ ہیں جو اس کی درد مندی کے رنگ تو گہرے کرتے ہیں مگر اس کے لئے کی گئی کوششوں اور امداد کو غائب کر دیتے ہیں یہ لوگ ہر سطح پر منحرک ہیں۔ اسی لئے نہ تو امداد نہ افرادی محنت اور نہ ہی عملی کوششیں بار آور ہوتی ہیں۔ اتنے برسوں میں کی گئی صد ہا مثبت کوششیں نہاں ہیں اور چند ایک منفی عمل اس کو دیمک لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں چوہوں اور موسمی پرندوں نے اس کے بدن پر جا بجا سوراخ کر دیئے ہیں
اس جھولی میں چھید کیے ہیں مل کر سارے چوہوں نے
اور اب مل کر چیخ رہے ہیں آگے بھی نقصان کھڑے ہیں
75 میل لمبے راستے میں بظاہر کوئی مسئلہ نہ تھا پھر بھی لگتا تھا دلدل اب پھوٹی کہ پھوٹی۔ آتش فشاں تھے کہ ابلتے رہتے۔ کبھی تو کوئی چنگاری ایسے بھڑکتی کہ درختوں کا پھل ہی نہیں ان کی شاخیں نوچ ڈالتی۔ بیجوں کی سرد مہری ان کی نمو کھا جاتی۔ کبھی ایسا تعفن پھیلتا گویا 75 سال کے سوئے گٹروں میں زلزلہ آ گیا ہو۔ کسی اڑتے پتنگے کی چمک یا کمزور پتے کی خوش بو ایسے گل پوشی کرتی کہ لوگ ناچنے لگتے۔
روشن آزاد پگڈنڈی کے دونوں اطراف دو رویہ سڑک کی طرح عجب بے ہنگم ٹریفک تھی۔ ایسا ہجوم جس نے درختوں کی چھاؤں ہی نہیں شاخوں، پتوں اور پھل کو بھی بدنما داغوں سے بھر دیا تھا۔ کچھ لوگ درختوں کو دیوار سمجھ رہے تھے اور ننھے پودوں کو تریاق۔
لیکن یہ جڑیں اتنی کمزور نہیں۔ اس کو پانی دینے والے ہاتھ ابھی تھکے نہیں ہیں۔ چند سال بعد یہی تصویر مختلف مندرجات کے ساتھ ایک بار پھر سب کی توجہ کھینچتی ہے۔ سب کی مدد چاہتی ہے۔ عام لوگ اسے پانی دیتے ہیں۔ اسے ہرا بھرا رکھنے کی جدوجہد میں دن رات مصروف ہیں مگر وہ جو اس کے گھنے سائے میں آرام سے بیٹھے اس کے پھل سے خصوصی فائدہ اٹھاتے ہیں اسے عام لوگوں کی ہمدردی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنی محنت کا خون پسینہ دے کر اس کی کمزوری رفع کرنے میں معاونت کریں۔
یہ پاکستان عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ان خواص کا بھی ہے جو اس کی معیشت، ساکھ اور ترقی کے لئے عام لوگوں کا تعاون چاہتے ہیں۔ اس کے لئے اپنا درد دکھا کر جھولیاں اور کشکول پھیلاتے ہیں لیکن نہ تو کشکول اور نہ ہی جھولیاں کبھی بھرتی ہیں کیو نکہ اسے توانا و مضبوط بنانے کے لئے محنت اور امداد سے زیادہ خلوص و دیانت کے معجزہ کی ضرورت ہے۔۔ اور"بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں" پھر یہ نقش ناتمام نہیں رہیں گے۔ ان کی رنگینی سب کے مردہ چہروں کو رنگین کر دے گی۔
آئیں مل کر اس کے رنگ بچاتے ہیں۔ کہ یہ ہمارا ماضی، حال اور مستقبل ہے اور ہم نے اسے دِلوں میں محفوظ کرنا ہے۔
سرزمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
یہ ہے جنت سماں یہ ہے خلد بریں