Kaam Mardon Ke Jo Hain So Wohi Kar Jaate Hain
کام مردوں کے جو ہیں سو وہی کر جاتے ہیں
راستہ کی اینٹ اٹھانے سے لے کر بڑے مقاصد کی تکمیل تک قدرت نے وسیلے مقرر کر رکھے ہیں۔ گویا ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹوٹے ستارے بھی ٹوٹی ہڈیوں کی طرح ویڈیوز اپلوڈ کروا کے دم دار ستارے ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلاب کی تلاش میں جامن کے بیج نہیں بوئے جا سکتے۔ ہمارے معاشرہ میں بدنظمی، بد انتظامی اور ہڑبونگ کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ فائلز کا سفر زینہ بہ زینہ جاری رہتا ہے۔
لگتا کچھ ایسا ہے کہ مقامات آہ و فغاں کے نتیجہ میں منزل مل ہی جائے گی۔ لیکن کچھ فائلز کو چھت سے دھکا دے کر خودکشی کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے اور "کیلشیم" کی کمی سے کچھ فائلز کی ہڈیاں بھربھری ہو جاتی ہیں۔ اس ماحول زمانا ساز میں اگر کوئی ذمہ داری سے بڑھ کر آسانیاں فراہم کرتا ہے تو اسے ہم حقیقی انسانیت کا سر چشمہ کہیں گے۔ ان آہنی اعصاب اور انسانیت کے سمندر کا نام "علی عنان قمر ہے" جو ڈی جی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی لاہور ہیں اور اس سے پہلے اٹک، نارووال اور مظفر گڑھ میں ڈی سی کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھا چکے ہیں۔
کسی بھی شہر میں صفائی کی نگرانی امن و امان کی ترویج سے کم نازک صورت حال نہیں۔ لاہور جیسا صنعتی اور بسیار خور شہر، جو تیرہ دروازے کھولے آباد کاروں کا استقبال کرتے چلا جا رہا ہے۔ صفائی کی صورت حال کا ادراک خاص انتظامی صلاحیتوں کا متقاضی ہے۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے اٹھانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ سالانہ بنیادوں پر ڈینگی کے ساتھ موسمی اور "ملکی و غیر ملکی" بیماریوں کے تدارک کے لیے بار بار اصطلاحات کا نافذ کیا جانا اشد ضروری ہے۔
ایسی صورت میں یہ بندگی استغفراللہ درد سر سے بڑھ کر درد جگر بن جاتی ہے۔ اس کے لیے باصلاحیت ہونا بھی کم پڑ سکتا ہے۔ لیکن شہر کے صاف سفری راستے، سڑکوں پر کھلے باغات کو دیکھ کر کوئی شک نہیں رہتا کہ علی عنان قمر سیاسی تفرقات سے بالاتر کام کام اور صرف کام پر یقین رکھتے ہیں۔ اس تمہید کی ضرورت یوں پڑی کہ کتنے ہی برسوں سے گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین گلبرگ لاہور کی انتظامیہ اور انفرادی طور پر بہت سے اساتذہ نے کالج کی دیوار کے ساتھ اور گیٹ کے سامنے پھینکے جانے والے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے خلاف نہ صرف شکایات درج کروائیں بلکہ احتجاج بھی ریکارڈ پر ہے۔
چار سالوں سے شہر بھر میں پھیلے ان گندگی کے ازدحام پر کتنی ہی تشویش بھری آوازیں اٹھیں اور حکومتوں کا موازنہ ہوتا رہا لیکن ہماری ہر آواز گنبد سے ٹکرا کر گونجتی رہ گئی۔ نہ ہوا پر نہ ہوا میر و غالب کا انداز نصیب کہ بن آتی۔ یہی لگتا تھا کہ ہماری صدائیں بھی میر کے ان ریختوں کا حصہ بن چکی ہیں جنھیں لوگ گلیوں میں گاتے پھریں گے۔ یہ پکار غیرت ناہید کی ہر تان ہی ہے دیپک بن کر بجھتی رہی۔
کم ملازمین اور ناکافی وسائل کے ساتھ پرنسپل ڈاکٹر نگہت ظفر جس تندہی سے کالج کے اندر صفائی پر خصوصی نظر رکھتی ہیں وہ انتظامی فرائض کے ساتھ یقیناََ ایک اضافی ذمہ داری ہے جس پر وہ کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ پرنسپل ڈاکٹر نگہت ظفر نے یہ بھی کہا کہ نا مساعد صورت حال میں ہمارے اساتذہ گراونڈ میں بھی کلاسز لینے کو تیار ہیں۔ گلبرگ کالج کی خواتین اساتذہ خوش قسمت ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ ان پر اعتماد رکھتی ہیں۔
اور پھر گلبرگ کالج کی پیاری اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال پرنسپل صاحبہ کی آواز "کُند ہم جنس باہم جنس پرواز" کے اصول پر ڈی جی ویسٹ مینجمنٹ علی عنان قمر تک پہنچی۔ جنھوں نے دوسری بار کہنے کا وقفہ بھی حذف کرواتے ہوئے فوری طور پر اس مسئلے کا نوٹس لیا اور گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین گلبرگ لاہور کے گرد و نواح میں صفائی کا خصوصی اہتمام کروانے کے احکامات صادر کیے۔ یقینی طور پر ممکنہ اقدامات کے لیے انھیں اپنے وقت کی قربانی دینا پڑی ہوگی۔
خصوصی وزٹ کا اہتمام، روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس، تصاویر، فائلز کے انبار ان سب پر خصوصی توجہ کے نتیجہ میں ایک صاف و شفاف ماحول کی تصویر ممکن ہوئی ہے۔ ہم سب اساتذہ بشمول طالبات پرنسپل ڈاکٹر نگہت ظفر کی وساطت سے خصوصی طور پر ڈی جی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی علی عنان کے شکر گزار ہیں۔ ان کی بدولت ہم اپنی طالبات کو خوش گوار ماحول فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ بات واضع ہے کہ ایک اعلیٰ اور ذمہ دار افسر ہی اپنے اختیارات کے ذریعہ ماحولیاتی و ذہنی سہولیات میں معاون ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔
ہر شہر اور ہر شعبہ میں ایسے افسران کا تقرر خوش آئیند ہے کہ جو ایسا نظام مرتب کریں جس میں عوام الناس کو چیخ چیخ کر اپنے مسائل نہ بتانے پڑیں۔ تہذیب سے بات کہنے سننے کا رواج نہ صرف ایک مہذب و مطمنہ معاشرت کی بنیاد بنتا ہے بلکہ شور کی آلودگی بھی کم کرتا ہے۔ ڈپریشن، بے زاری اور بے توقیری جیسے عناصر کا بھی قلع قمع ہوتا ہے۔ اس کی مثال گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین گلبرگ لاہور ہے جس کے باہر صرف کوے پریشان ہیں۔ وہ روز کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کی تلاش میں آتے ہیں اور مایوس لوٹ جاتے ہیں۔