Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Insafi, Patwari Aur Ravi

Insafi, Patwari Aur Ravi

انصافی، پٹواری اور راوی

سیاسی پارٹیاں تو ایک طرف، گروہ در گروہ تعصب بھری تقسیم کی لکیر مذہب سے ہوتی ہوئی شعور و آگہی کو کاٹتی چلی جا رہی ہے۔ بند آنکھوں سےانصاف اور انصافی نعرہ احتساب لگا کر نہ صرف اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں بلکہ چیخ چیخ کر "تصور عشق" کی مضبوطی میں اضافہ کا درس دیتے ہیں۔ دوسری طرف پٹواری نادیدہ زمینوں کا انتقال کروا کے"تصور غم" کو فروغ دیتے ہیں۔ جب کہ راوی اپنے کاندھوں پر روایات کا بوجھ ڈھوتا نسلوں کی سیرابی میں تقسیم کار ہے۔ تہذیب کو سمیٹے بہاؤ کی حدود طے کرتے ہوئے خیر و شعور کے پھیلاؤ میں منہمک ہے۔

میرا اشارہ پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی ستارہ امتیاز کی طرف ہے۔ جو ٹرینڈ setter وائس چانسلر ہیں۔ ٹرینڈ سیٹر کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ڈاکٹر اصغر زیدی نے تعلیم کا تصور کمیونٹی کے ساتھ جوڑا ہے اور بند کمروں میں بیٹھے وائس چانسلرز کے برعکس طلبہ و اساتذہ کو اعتماد دینے کی نہ صرف روایت ڈالی ہے، بلکہ رہنمائی کےذریعے انٹرایکٹو inter active دنیا میں مشاہداتی شعور اور تشخیص کی نئی شکلوں کے ذریعے مثبت انقلاب کے راستے بنا رہے ہیں۔ پہلی بار ڈاکٹر صاحب تب خبروں کی زد میں آئے جب کسی کی نادانی اور بے وقوفی نے سیاسی چپقلش کے لیے تعلیمی ادارہ کو استعمال کیا۔

تاہم ڈاکٹر اصغر زیدی نے واضح طور پر یہ فیصلہ لیا کہ یونیورسٹی کا اصل فرض اور ذمہ داری تعلیم محض سے بالاتر ہے۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ کسی حد تک یونیورسٹی کا تعلق اقتدار و انصاف سے بھی ہے۔ یونیورسٹی آف بولون کو قانونی شعور کی وجہ سے یونیورسٹیوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کا اصل کام طلبہ میں مکالمے کا شعور بیدار کرنا ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ تنازعات حل ہو سکیں جو مختلف اذہان اور مضامین کے مابین پیدا ہو سکتے ہیں۔ ٹرینڈ setter اور پروپیگنڈہ ماسٹر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے غلام ذہنی کو رد کرتے ہوئے مشوروں سے استفادہ بھی کیا اور اعتراف کارکردگی بھی۔ قوت فیصلہ کا یہ ہنر ہر ایک کے پاس نہیں۔

یونیورسٹی میں نئے شعبہ جات کا قیام جسے ہوائی تخلیق کہہ کر طنز کیا جاتا تھا آج زمین پر قدم جمائے کہہ رہے ہیں کہ "یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی"۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ داخلہ ٹیسٹ دو بار لیا گیا تاکہ طلبہ کی طرف سے کسی بھی طور لاعلمی اور محرومی کا ازالہ کیا جا سکے۔ ہم نصابی سرگرمیوں کا تسلسل اور سو سے زائد علمی و ادبی مجالس کا قیام اور حوصلہ افزا سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کمیٹیوں کی میراث محض سرخ فیتوں سے بندھی فائلیں نہیں ہوا کرتیں۔

ڈاکٹر اصغر زیدی کو پڑھے لکھوں کے ہجوم میں اضافے کے لیے نصاب کے ڈبے میں بند دولے شاہ کے چوہے درکار نہیں۔ بلکہ وہ نصاب کی بند گلی کے دروازے کھول کر ایسی ہوا چاہتے ہیں جو گلشن عالم کو مہکا دے۔ آج جب کہ تشہیر سازی کا عمل بھی سوشل میڈیا کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ تشہیر سے بے نیاز متحرک شخصیت صرف یونیورسٹی کو جدت سے روشناس کروانے میں ہمہ وقت محو ہیں اور بجا طور پر داد کے مستحق ہیں۔

بعض اوقات تو میں حد سے گزر جاتا ہوں

میرے بارے میں تجھے لوگ بتاتے کم ہیں

(عاصم واسطی)

جی سی یونیورسٹی کے ٹھہرے پانی میں کنکر مارنے کا سہرا ڈاکٹر اصغر زیدی کے سر ہے۔ جنھوں نے آزاد ذہنی کی روایت کو ازسرنو زندہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے سر جھکائے مجبور سازشی پروفیسروں کی منڈی لگانے کے بجائے تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی طرح ڈالی۔ توازن کے لیے عدم تشدد اور رواداری کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لیے یونیورسٹیز سے بہتر کوئی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ نمبرز کے سکور اور ڈری سہمی خود میں سمٹی نوجوان نسل سے زیادہ ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو پر اعتماد اور مثبت سوچ کے مالک ہوں۔

یہ ڈاکٹر اصغر زیدی کی قوت فیصلہ کی ہی کرشمہ سازیاں ہیں کہ شعبہ اردو کے چمکتے ستارے ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر الماس خانم، ڈاکٹر سفیر حیدر، ڈاکٹر ماریہ امین اور حماد نیازی دھڑا دھڑ بین الاقوامی کانفرنسیں اور سیمینارز برپا کرتے جارہے ہیں جس کا حالیہ ثبوت مجلس ترقی ادب کے چیئرمین عباس تابش کے عشق آباد اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو کی مشترکہ محنت کا ثمر جشن شوکت واسطی کا انعقاد ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے زینے کی پہلی اینٹ نہیں رکھی بلکہ لاہور سے کالا شاہ کاکو تک سائنسی و علمی زینہ روشن کر دیا ہے جس سے گزر کر کم علمی و تعصب کی یہ دلدل پار کی جا سکتی ہے۔

کچھ لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کو مرکز بنا کر انجمنیں گلوں کی آبیاری کرنے لگتی ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بے شمار منظم تخلیقی وفود اسی صداقت کا ثبوت ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تشکیک کے ذریعے پتھر سازی کی صنعت کو فروغ دینے کا رواج ہے لیکن کام میں مگن دیوانوں کو یہ ہوش کہاں رہتا ہے۔ یونیورسٹیز کے معیار کو معتبر اور مثال بنانے کے لیے گورنمت کالج یونیورسٹی کو ماڈل یونیورسٹی کا درجہ دے کر ہم ایسی شخصیات کو توقیر دے سکتے ہیں۔ تا کہ تعلیمی تسلسل رواں دواں رہے۔

Check Also

Ghulami Ki Dastan Taweel Hai

By Muhammad Yousaf