Ik Nazar Idhar Bhi
اک نظر ادھر بھی
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ملک جن حالات سے گزرا اس کا ذکر چہ معنی دارد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے مسائل بڑے دلچسپ ہیں یعنی دن کا آغاز بجلی، پٹرول اور مہنگائی کے خلاف شور سے ہوتا ہے۔ اس دوران ہم وہ سب رفاعی کام بھول جاتے ہیں جن پر قوموں کی بنیاد کھڑی ہے۔ ان سب میں نظام تعلیم سرفہرست ہے۔
تعلیم اور تعلم وہ رسی ہے جس کے سرے پر استاد اور شاگرد بندھے ہیں۔ یہ رسی سانپ بھی بن سکتی ہے، لاٹھی بھی اور اڑن کھٹولا بھی۔ اس کے تعین میں وہ تمام عناصر کسی نہ کسی طور شامل ہوتے ہیں جن پر تعلیم و تربیت کی لرزتی عمارت کھڑی ہے۔ جیسے تیسے طلبہ کو دھکیل کر سالانہ پرچے اور بورڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں ثانوی تعلیم کے تقریباً آٹھ بورڈز ہیں جن میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے طلباء کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان دونوں امتحانات کے نتائج پر طلبہ کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بھی نتائج پر تعصب ہیں۔ امتحان صرف طالب علم کا نہیں ہوتا، استاد اور پیپرز چیک کرنے والا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ لاہور بورڈ کی ذہانت سونے پر سہاگا ہے۔
زیر زمین کنویں کی طرح تبدیل کی جانے والی سکیم کی چند ارباب اختیار کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اچانک خوشی کی طرح اڑتے اڑتے پتہ چلتا ہے کہ اس بار اس طرح تیاری کروانا تھی اور پھر صبح شام کی شفٹ میں بھی سوتیلے بچوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ گویا پرچیاں نکال کر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ "کسی کے حصے میں پھول آئے، کسی کے ہاتھوں میں خار سارے"۔ عملی امتحان یعنی پریکٹیکل کا تصور عقلی طور پر ہنر کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں"اصل سے سود پیارا " کے مصداق تمام تر اہمیت پریکٹیکل کاپی اور پریکٹیکل لینے والے استاد کی ہوتی ہے۔ پندرہ بیس پریکٹیکل میں سے صرف وہ چار پریکٹیکل ہی پرچہ میں درج ہوتے ہیں۔ جن کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔ البتہ ایف ایس سی میں ڈھیروں مینڈک کاٹنے کے تجربے پر کوئی سوال نہیں۔ اساتذہ کی ایک کھیپ ایسی بھی ہے جو خود کو ایک دن کا بادشاہ سمجھ کر کھرے سکوں پر کھوٹے کی مہر لگا کر اپنے اختیار پر فخر کرتے ہیں۔ بارہ، پندرہ، سولہ نمبر سے استاد کی کک کسی بھی طالب علم کو پچھلی صف میں پھینکنے پر قادر ہے۔ روم کو جلتا دیکھنے کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی۔
دوسری طرف بورڈ کی جاری کردہ مزاحیہ ہدایات کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ یعنی اگر کسی طالب علم کے فرسٹ ایر میں چودہ نمبر ہیں اور سیکنڈ ایر میں گیارہ اور پریکٹیکل میں ستائیس۔ تو وہ طالب علم پاس تصور ہوگا۔ گویا پریکٹیکل خزانے کی وہ چابی ہے۔ جس سے سانپ یا ہدہد کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ دوسری طرف بورڈ نے سال اول کے حاصل کردہ نمبروں کی لسٹ بھی استاد کے ہاتھ تھما دی ہے کہ اس کارکردگی پر نمبرز کا تعین کیا جائے۔ ہدایات میں یہ بھی درج ہے کہ املاء کو نظر انداز کیا جائے۔ بورڈ نے یہ بھی طے کر لیا ہے کہ بیمار صحت یاب نہیں ہو سکتا۔ یعنی بچہ اگر ایک سال اچھے نمبر نہیں لے سکا تو اگلی بار بھی نہیں دیے جائیں گے۔ عجب پر مغز ذہانت ہے۔
پھر ری چیکنگ اور ری کاؤنٹنگ میں کوئی فرق دکھائی نہیں پڑتا۔ ممتحن کی نالائقی اور جلد بازی طالب علم کو کھا جاتی ہے۔ ممتحن دعا کو دغا پڑھ کر سوال کاٹ سکتا ہے۔ طالب علم چیکنگ کو چیلنج کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ سوال تو برقرار ہے کہ طالب علم نے جواب درست لکھا اور دیکھنے والے نے اسے غور سے پڑھا ہی نہیں اور آگے گزر گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
اس قسم کی غلطیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ہم نے ایسا سسٹم بنا رکھا ہے جہاں ہم دماغ کے بند ڈبے میں موجود کچرا ہی طلبہ پر لادنے پر مصر ہیں۔ طالب علم کی تخلیقی صلاحیتوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ جدت ہی پیدا کرنی ہے تو پرچہ میں ایسے سوالات بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔
1۔ آپ کا پسندیدہ سبق کون سا ہے اور کیوں۔ دلائل سے وضاحت کیجیے؟
2۔ سائنس میں کس تھیوری نے آپ کو متاثر کیا۔ اس تھیوری پر مزید کام کیسے ہو سکتا ہے؟
3۔ آپ کی کتاب میں آپ کا پسندیدہ شاعر یا نثر نگار کون سا ہے۔ آپ نے اس کی کون کون سی تحریر پڑھی ہے۔ تعارف و تجزیہ کیجیے۔
طلبہ کو رٹا سسٹم کی تیاری کے لیے روایتی فرسودہ نظام کا حصہ بنانے کے لیے شد و مد سے کوششیں جاری ہیں۔ جہاں دو جملوں میں جواب دیا جا سکتا وہاں کہانیاں سنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ آخر ہم حقیقت سے خوف زدہ کیوں ہیں۔ روایات گھڑنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں۔ عشق مجازی کے اشعار کی اسلامی تشریح سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ دنیا میں ہر طرح کے رویے ہیں ہم طلبہ کو روزمرہ زندگی ان کی آنکھوں اور دماغ سے دیکھنا اور ان کا سامنا کرنا سکھائیں گے تو بیٹی پیدا ہونے پر چھت سے چھلانگ نہیں لگانا پڑے گی۔