Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Hukmaran Ki Samri

Hukmaran Ki Samri

حکمراں کی سامری

بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک بزرگ نے اعلان کیا جس بادشاہ کا ملک سب سے خوب صورت ہوگا اسے بہترین حکمران کا خطاب اور انعام دیا جائے گا۔ مقابلے کے لیے ایک سال کا وقت طے ہوا۔ سال بعد بزرگ اور ہمراہی پہلے ملک میں پہنچے تمام لوگ استقبال کے لیے گھروں سے باہر اور رستوں پر کھڑے تھے۔ ہر طرف بلند و بالا عمارات تعمیر و ترقی کی بہار دکھا رہی تھیں۔ بزرگ بڑی خاموشی سے سب دیکھتے رہے۔

دوسرے ملک میں ہر طرف باغات اور پھولوں کی بہار تھی۔ البتہ پہلے ملک کی رعایا کی طرح یہاں کے لوگوں کے چہرے بھی سپاٹ اور ہر قسم کے جذبات سے عاری تھے۔ بزرگ نے یہ سب بھی خاموشی سے دیکھا اور تیسرے ملک کی طرف روانہ ہوئے۔ تیسرے ملک میں بھی لوگ ان کے استقبال کے لیے گھروں سے باہر کھڑے تھے۔ ان کے چہرے خوشی اور جوش سے تمتما رہے تھے۔ ان کے ہر انداز میں طمانیت تھی۔ دوسرے ممالک کی طرح کوئی نمایاں ترقی نہ ہونے کے باوجود اس ملک کے باشندے مطمئین اور اپنے ملک سے پیار کرنے والے تھے۔

واضح تھا کہ اس ملک کا بادشاہ عوام کی سرگوشیاں اور ان کی نہ بیان کی جانے والی تکالیف کا ادراک رکھتا تھا۔ بزرگ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور انھوں نے اس ملک کو انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترقی کا اصل اور حقیقی معیار وہاں کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن تیسری دنیا میں بالخصوص عوام کی اہمیت ایک سٹیمپ یا انگوٹھے کی سیاہی سے زیادہ نہیں۔ ہمیں گمان تک نہیں ہوتا کہ انگوٹھے سے لگائی گئی یہ سیاہی ہماری تقدیر کے ورق کو کالا کر سکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ہمیں یہ ادراک ہونے میں ہی پچھتر سال لگ چکے ہیں کہ ہمارے انگوٹھوں پر سیاہی کے نشان نظر کا دھوکا ہے۔ یہ سیاہی ہمارے خواب کالے کر چکی ہے۔ ہمارے چنوں کو جب سے یہ پتہ چلا ہے کہ سونا ریت میں چھپا ہوتا ہے اور نیاری صبح سے شام بلکہ کئی برسوں تک سونے کے ذرات جمع کرنے کے لیے ریت چھانتے رہتے ہیں، تو اسے نیاری پر بہت ہنسی آئی۔ اسے ریت چھاننے سے زیادہ ریت کے پہاڑ بنانے میں دلچسپی ہے۔ بھلے سے یہ پہاڑ تبدیلی کے عمل میں زمیں برد ہو جائیں۔

چنوں محاوروں کے نام پہ اس ریت کو پھانکنے کے لیے بیچ دیتا یا پھر لوگوں کی آنکھوں میں بھرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چنوں کو حکمرانی کے سارے گر ازبر ہیں۔ اس لیے شاعرانہ ذوق کے برعکس وہ فقیری کے گر تقسیم کرتا ہے اور بادشاہت کے مزے لوٹتا ہے۔ ہر دور میں وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ٹرکوں میں جو ریت بھی بھری جاتی ہے۔ وہ چھنی ہوئی ہو اور چھان الگ لفافے میں ڈالا جائے تاکہ اسے نذر سرکار کیا جا سکے۔

ریت سے بڑی بڑی چھاننیوں میں بھلا کیا نکلتا ہے؟ چند چھوٹے چھوٹے پتھر۔ سو ہر دور میں کتنے ہی ایسے لفافے جمع ہو جاتے ہیں جن میں پتھر اور چند تنکے ہوتے ہیں۔ اپنے حواریوں سے ہر دور کا چنوں یہ لفافے دیکھ کر سوال کرتا ہے کہ سونا کہاں ہے؟ حکمرانی کے سامری اب مافیا بن چکے ہیں۔ ان کی پٹاری سے تعلیم، اسپتال اور اشیائے خورد و نوش کے لیے مہنگائی اور قانون کے بے شمار سانپ اور پتھر ہی نکلتے ہیں۔ اور ان کی نظریں اب بیج پر ہیں کہ کب فصل نکلے اور اپنا حصہ وصولا جا سکے۔

ہر حکومت اور اس کے نمائنگان کی ترجیحات مزاحیہ اور مختلف ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں۔ ان سیاسی لڑائیوں نے کھیت کے کھیت اجاڑ دیے ہیں۔ تقاریر کے جوش میں گفتار کے غازی مارکیٹوں کے بند ہونے سے آبادی کے مسائل کی اینٹیں اور روڑے جمع کر کے ہرے بھرے پاکستان کی تشکیل میں مشغول ہیں۔ جسں طرف نظر اٹھائیے عوام کے پھیلے ہاتھ محض دو ہاتھوں کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ان محرومیوں کی طویل داستان ہے جو ہاتھ کی لکیروں پر سیاہی مل کر دل و دماغ کی حبس زدہ فضا تخلیق کر چکی ہے۔

کھانے کی تھیلیوں پر جھپٹتے عوام کی تصاویر جہاں یہ بتاتی ہیں کہ ان کا بنیادی مسئلہ بھوک ہے۔ وہیں ننگے پاؤں ان کے پرخار سفر کی داستان ہے اور دوسری طرف برانڈ پر لگی سیل پر ایک جم غفیر پکار پکار کر کہتا ہے کہ اس کا مسئلہ خود ساختہ سٹیٹس ہے۔ تاکہ وہ اپنا گروہ تبدیل کر سکے۔ یہ گروہی تعصب کسی مذہب یا نظریہ کا شاخسانہ نہیں۔ یہ تو divide and rule کی کھلی جنگ ہے۔

سو معاشرہ میں ہر طرف ادھورے منظر ہیں۔ جن میں کہیں تو ریسیور نہیں اور کہیں ٹرانسلیٹر کی کمی ہے۔ جہاں یہ دونوں چیزیں بھی میسر ہیں وہاں ڈائل کرنے والا نمبر نہیں۔ جہاں نمبر مل جائے وہاں دوسری طرف ریسیور تو موجود ہوتا ہے لیکن وہاں بزی کی ٹیون سنائی دیتی ہے۔ یہ سب محض اس وجہ سے ہے کہ ہم دوسروں کے مقام کا تعین کرنے میں مصروف اپنی جگہ خالی کیے بیٹھے ہیں۔

وہی کارواں وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں۔

علم و شعور کے وہ پودے جو پانی نہ ملنے سے سوکھ رہے ہیں ان پر تبدیلی کے بند بندھے ہیں جو تازہ ہوا اور پانی کی ترسیل کو روک رہے ہیں۔ تبدیلی کا وہ عمل جو زمین سے شروع ہونا تھا۔ اخلاقیات کی مسمار پر رک گیا ہے۔ نہ زمین نرم کی جا رہی ہے نہ بیج کی بوائی کا اہتمام ہے۔ وہ فصل کہاں ہے جسے اندیشہء زوال نہیں۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti