Har Ik Baat Pe Kehte Ho Ke Tu Kya Hai
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
اونٹ کہاں پہاڑ کے نیچے آ سکتا ہے۔ صاحب بہادر درست سمجھتے ہیں کہ ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی ابھی تک قائم ہے اور وہ اس کے بلا شرکت غیرے باضابطہ مالک ہیں۔ لیکن انھیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ ہم کسی ضابطے وابطے کو نہیں مانتے۔ ہم نئے قانون کو مرہم نہیں سمجھیں گے۔ ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اب سے "آپ" اور "جناب" ہی خریدیں گے۔ "صاحب " کا فیصلہ وقت کرے گا۔ ہم تو اپنے طلبہ کو یہ سکھانے میں مصروف ہیں کہ صاحب یا جناب میں سے ایک لقب ہی دیا جا سکتا ہے انگریزی کا معاملہ دوسرا ہے سر کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں۔
"درد سر" والی کہانی ہمارے ہاں بکتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر۔ غریب لوگ صرف نیکیاں بیچ سکتے ہیں۔ اچھے اور مستند پیر لڑکپن میں ہی دوسروں کی نیکیوں پر قبضہ کرنا جانتے ہیں۔ ہمیں ابھی خفیف سا احتمال ہے کہ ہم نے گملا اٹھانا ہے یا پھول۔ ابھی تک تو ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آ سکا کہ صاحب کو سابقے سے ہٹانا ہے یا لاحقے سے۔ اگر صاحب کو سابقے سے ہٹاتے ہیں تو تاریخی مغالطے کا احتمال ہے۔ یعنی صاحب بہادر سیدھے سادے "بہادر" سمجھے جائیں گے اور صاحب دیوان کی بجائے "دیوان" پر تحقیق سے نفسیاتی نقد و نظر کا کچومر نکل سکتا ہے۔
فہم لڑکھڑاتی نظر آئے گی اور خرد جاں بلب۔ آوے کا آوے ہی بگڑ سکتا ہے۔ لاحقے سے البتہ صاحب ہٹانے کا حوصلہ ہے نہ ہمت۔ کئی ناموں کے ساتھ تو صاحب ولدیت کے طور پر یوں لگایا جاتا ہے گویا پورا ملک ان کے باپ کی ملکیت ہو۔ سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونا تو محاورہ ہے۔ کئی لوگ تو صاحب کا لقب لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ نامور لوگ کس آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ اب انھیں کون بتائے کہ جہاں پرچی سے کام نہیں بنتا وہاں نام ہی کافی ہے۔ سیاسی میدان میں وفاداریاں بدلنے والے جانتے ہیں کہ نام کتنی بڑی حقیقت ہے۔ جہاں نام اعتماد کا ضامن ہو وہاں بڑے صاحب کی وردی کو بھی سلام کرنا پڑتا ہے۔
نئے والدین بننے والے ہوشیار باش رہیں۔ جدید ماؤں نے جنت کی کسی بھی شے کو نہیں چھوڑا جن سے ان کی بیٹیوں کے نام نہ ہوں۔ جنت میں کھلنے والی کھڑکی، جنت کا پھول، جنت کی ہوا، جنت کی کلی، جنت میں دودھ کی نہر پر بیٹھا پرندہ وغیرہ۔ غریب لوگ صاحبان کے حسد میں اپنے کاہل، سست اور نالائق بچوں کو طنزا صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ دانا لوگوں سے بنا سابقے لاحقے کے نام ہی صاحب رکھنے کا عندیہ بھی ملا ہے۔ اگرچہ
ہری چند اختر نے انھیں خبردار بھی کیا ہے کہ سوچ لو
اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا
ہماری تو نسلیں ان لوگوں پر محیط ہیں جنہیں ماں باپ شہزادہ یا وزیر کہتے نہیں تھکتے تھے۔ کسی کو چھیڑنا ہو تو مستقبل مستعار لے کر ڈاکٹر یا انجینئر کہنا شروع کر دو۔ کلیجہ تو اس وقت پیٹنے کو جی چاہتا ہے جب حج کیے بنا کسی کو حاجی صاحب پکارا جائے۔ چوہدری ہونا اور بن جانا بھی یہاں ناممکن نہیں۔ نسوانی کردار شہزادی، ملکہ یا رانی جیسے القابات پر منتج ہیں۔ گویا ہمارے ہاں نام اور چھیڑ خوباں سے چلنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ شبلی اپنے مکتوبات میں زہرا فیضی کو "زہرا صاحب" لکھتے ہیں اور ہمارے لیے "دل آرام" ہی صاحب ہے۔ لفاظی سے مائنڈ سیٹ کہاں تبدیل ہوا کرتے ہیں گویا "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی"۔ جن کے ناموں کے ساتھ صاحب نہیں بھی لگایا جاتا۔ وہ کسی کو صاحب کے خواب تک نہیں دیکھنے دیتے۔ میر بھی تو درد و غم کے دیوان جمع کرکے صاحب کو ہی بتاتے ہیں۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
صاحب کوئی خطاب یا لقب تو ہے نہیں کہ ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ صاحب ہے تو ہے۔ مالی سے لے کر دفتر کے پیون تک، بہت سے لوگوں پر ہمیں صاحب کی جھلک نظر آتی ہے۔ گویا جدھر دیکھتے ہیں ادھر تو ہی تو ہے۔ درد بھی تو ہے، درد کا درماں بھی تو! ہم سوشل میڈیا پر بادشاہ کا لباس داغ دار کریں یا تصاویر بگاڑیں۔ بادشاہ اپنے تخت و تاج کے بل پر بادشاہ ہے۔ رحم دل یا ظالم بادشاہ، ذہین یا غبی بادشاہ، آزاد یا غلام بادشاہ۔ لیکن آزاد بادشاہوں کا زمانا اب کہاں رہا؟
جس طرح معانی کی تفہیم لفظ سے اور بات کی شناخت لہجہ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح صاحب بھی ارباب اختیار کے ہر ہر عمل میں تیرتا رہے گا۔ کہیں لبادہ بن کر اور کہیں چوغہ پہن کر دندناتا رہے گا۔ ہماری عزت نفس مجروح کرنے کے لیے سلاخیں لیے، ٹیکس کے نام پر ہماری چمڑی ادھیڑتے ہوئے، یہ حاکمیت ہر ہر موڑ پر دکھائی دے گی۔ تیر مقرر ہے مگر کمک اور کمان کہیں اور سے ملتی رہے گی۔ ہم بس دیہاتی عورت کی طرح لسی بلوتے مکھن کو دیکھ کر کہیں گے، منے کے ابا تیر رہے ہیں۔
ایک ہم ہی نہیں تقدیر کے مارے صاحب
لوگ ہیں بخت زدہ سارے کے سارے صاحب
(ندیم سرسوی)