Hamara Aap Ka Jeena Nahi, Jeena Usi Ka Hai
ہمارا آپ کا جینا نہیں، جینا اسی کا ہے
استثنیٰ مانگنا اور حاصل کرنا مختلف اور اہم مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں یہ اس لیے قابل بحث ہے کہ حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور عوام کے سامنے نامقبولیت کا خوف انہیں استثنیٰ لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں قریب کی عینک لگا کے دیکھیں۔ امریکی حکومت کے مطابق صحافی جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو استثنیٰ حاصل ہے۔
امریکی صدر نکسن کے دور میں واٹر گیٹ سکینڈل ہوا اور صرف اس ایک سیکنڈل کی بنا پر صدر نکسن کو عہدۂ صدارت چھوڑنا پڑا۔ اُن کا جرم بھی کوئی بہت بڑا نہیں تھا۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے مخالفین کے فون ٹیپ کیے تھے۔ ایسے ہی صدر بل کلنٹن کو اس بنا پر عدالت میں پیش ہونا پڑا کہ اس نے اپنی سیکرٹری مونیکا کے ساتھ معاشقہ لڑایا۔ بعد ازاں عوام کے سامنے جھوٹ بولا۔
1648ء میں برطانوی بادشاہ کنگ جارج اوّل کو اس وجہ سے پھانسی دی گئی کہ اس نے ملک کی پارلیمنٹ کو بلا جواز معطل کردیا تھا۔ امریکی ریاست جارجیا میں صدر اوباما کو طلب کیا گیا۔ جس پر ایک شہری نے یہ دعویٰ دائر کیا تھا کہ وہ امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے۔ ان کی امریکی شہریت مشکوک ہے۔ اس بنا پر قانونی لحاظ سے وہ امریکہ کے صدر نہیں بن سکتے۔ اخبارات میں شائع ہوچکا ہے کہ امریکی صدر نے 25 جنوری 2012ءکو عدالت میں پیشی سے استثنیٰ کی درخواست کی لیکن امریکہ کی ایک ذیلی عدالت نے اُنہیں یہ اِسْتِثْنی عطا نہیں کیا۔
دوسری طرف ہمارے ہاں دہری شخصیت سے لے کر دہری شہریت تک کے نمایاں عوامل کو "پکے"کے ڈاکوؤں کی طرح تا دم مرگ استثنیٰ حاصل ہے۔ فون ٹیپ سے ویڈیو ٹیپ پر استثنیٰ کی لوٹ سیل لگی ہے۔ ادب میں محبوب کو خصوصی استثنی حاصل ہے۔ شاعر محبوب کے ظلم و ستم پر آہ تک نہیں کرتا اور اس کے خلاف شکایت قیامت تک موخر کر دیتا ہے۔ شکایت ہے تو بس اتنی کہ ہر زخم جگر داور محشر سے انصاف طلب کرنے والا ہے۔ یہ محبوب کو استثنی ہی ہے کہ محبوب کی بے وفائی، بے نیازی پر اور ہر وعدہ خلافی پر بھی دل اسی گلی میں خاک بنانے کو لیے جاتا ہے۔ دھوکا دہی پر ٹھگ خود کو ہی سند استثنیٰ جاری کیے جاتے ہیں۔
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
چنو کو استثنیٰ پر بڑی حیرت ہوتی۔ اسے لگتا کہ استثنیٰ بہت مزے کی چیز ہے۔ اس کے باوجود کہ اسے استثنیٰ کی کچھ بھی سمجھ نہ تھی، وہ جب بھی بازار سے کچھ کھاتا اس کے منہ میں استثنیٰ کا ذائقہ گھل جاتا۔ برانڈ کی دکانوں پر مرد و زن کا رش دیکھ کر چنو کو یقین ہو جاتا کہ ہو نہ ہو یہاں استثنیٰ کی لوٹ سیل جاری ہے اور جب ایک بار سیل میں گولی چلی تو اسے یقین ہوگیا کہ بات استثنیٰ کی ہی ہے۔
اسے لغت سے بس اتنا سمجھ آیا کہ استثنیٰ کے معانی کسی کلیے یا عام حکم سے کسی شخص یا شے کو علیحدہ قرار دینا یا الگ جاننا اور الگ رکھنا کے ہیں۔ لیکن اسے استثنیٰ کے حوالے سے کبھی یہ کلیہ یا فارمولا سمجھ نہیں آ سکا۔ چنو حساب میں ماہر تھا۔ جمع، تفریق، مساوی اور تقسیم کا ہر فارمولا اسے یاد رہتا بلکہ محلے میں وہ فیثا غورث کے لقب سے مشہور تھا۔ لیکن اسے یقین تھا کہ اگر اصلی فیثا غورث بھی اس زمانے میں ہوتا تو کسی صورت استثنیٰ کا یہ کلیہ حل نہیں کر سکتا تھا۔
چاند کی بڑھتی گھٹتی تاریخوں کی طرح ارباب اختیار کی شنوائی کو یہ کلیہ کبھی پہلی رات کا چاند بن جاتا اور کبھی چودھویں کا چاند بن کر پورا مہینہ چمکتا نظر آتا۔ چنو کو البتہ یہ سمجھ ابھی تک نہ آ سکی کہ عوام کے لیے اماوس کی رات میں چاند تو کیا ستارا بھی چمکنے سے کیوں انکاری ہے۔ ہزار جرائم سے چھوٹ کیسے اور روٹی چرانے پر عمر قید کیونکر۔ بیس بیس سال کے بعد بس ایک حرف معذرت۔۔ کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی کیونکر۔۔ نفی نفی جمع کیسے ہو جاتا ہے۔
چنو زندگی بھر اس سوچ سے غلطاں رہا۔ کبھی لنگر کے لیے دامن پھیلائے مریدوں کی قطار اور کبھی پناہ گاہ کے لیے پھیلے ہجوم کو دیکھ کر اسے استثنیٰ کی خوش بو ستانے لگتی۔ لیکن استحصالی عناصر کی طرف سے استثنیٰ نہیں نوٹیفکیشن جاری کیے جاتے ہیں۔ پنشن معطلی کا نوٹیفکیشن، لیو انکیشمنٹ کے خاتمے کا نوٹیفکیشن۔ چنو کو لگا تھاکہ استاد بن کر اسے استثنیٰ پر خوب تحقیق کا موقع ملے گا لیکن یہاں بھی قبضہ مافیا کو ہی استثنیٰ حاصل ہے۔
اب وہ کبھی مزدور بن کر اپنا بھوکا پیٹ دکھاتا ہے۔ اور کبھی استاد بن کر استحصالی طعنے سنتا ہے اور سر دھنتا ہے۔ ارباب اختیار کے دل میں بات اتر نہیں سکتی۔ چنو کا نعرہ اب بس یہ ہی ہے کہ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔