Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. GCU Aur Shoba e Urdu

GCU Aur Shoba e Urdu

جی سی یو اور شعبہ اردو

یونیورسٹی تحقیقی و تخلیقی وفود کا منبع ہوتی ہے۔ اور شعبہ جاتی کامیابیوں کے بل پر ہی کسی یونیورسٹی کا معیار طے کیا جاتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں یونیورسٹیز میں حسد، تعصب اور محکمانہ ترقیوں کے بیج بونے پر زیادہ زور ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ صدر شعبہ کے طور پر ڈاکٹر صائمہ ارم منتخب ہوئی۔ اس دورانیہ میں شعبہ اردو کے اہداف منفرد بھی تھے اور تخلیقیت کے عمدہ شہ پارے بھی۔ ڈاکٹر صائمہ ارم نے اپنی ٹیم کو اعتماد و حوصلہ افزائی کے تمغہ نہیں، تھیلے دیے۔ جن کے بل پر ڈاکٹر الماس خانم نے ملکی و عالمی سطح پر ایم او یوز کا ڈول ڈالا۔ آذر بائیجان میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے عالمی کانفرس منعقد کروانا ان کا ایسا اعزاز ہے جو ابھی تک کسی پاکستانی یونیورسٹی کے حصہ میں نہیں آیا۔

ماریہ امین (ڈاکٹر) اس ٹیم کا "بابا"ہے۔ جس کی جناتی صلاحیتوں میں ناممکن کا لفظ نہیں۔ حفظ ماتقدم کے طور پہ حماد نیازی کا گھمبیر مزاح کارتوس کی طرح چلتا ہے۔

ان کامیابیوں کے پیچھے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی(تمغہ امتیاز) اور صدر شعبہ ڈاکٹر صائمہ ارم کے انتہائی انٹلیکچوئیل اذہان اور انتظامی صلاحیتیں کار فرما ہیں۔ ایسے اساتذہ یقینا کسی ادارے کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ مان لیجیے صدور کا انتخاب زیرک نگاہی کا معاملہ ہے اور اس کا کریڈٹ وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی (تمغہ امتیاز) کو ہی جاتا ہے جن کے پاس پنجاب یونیورسٹی کا بھی اضافی چارچ ہے۔ اپنی معاملہ فہمی کی بدولت وہ ان دونوں محازوں پر سرخرو ہیں۔ صدر نشیں ہونا یا بننا صرف کرسی کی صنعت سازی نہیں۔

جہاں لاہور کی ایک یونیورسٹی کی صدر شعبہ سازشی عناصر کے قلمع قمع میں زیادہ وقت فون کالز ٹیپ کرنے اور جاسوسی نظام کے فروغ میں صرف کرتی ہیں۔ وہیں جی سی یونیورسٹی کی صدر شعبہ وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی کی روش پر گامزن حاسدین پر "مٹی پاؤ" کے اصول پر کام کام اور صرف کام کی روش پر گامزن ہیں۔ اسی سلسلہ کا اگلا زینہ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز وزارت اطلاعات و نشریات حکومت پاکستان کے اشتراک سے ماہ نو جون ایلیا نمبر کا اجرا اور بیاد جون ایلیا مشاعرہ کا انعقاد ہے۔

محترم افتخار عارف کی صدارت میں سیکریٹری وزارت اطلاعات شہیرہ شاہد، ڈائریکٹر جنرل عمرانہ وزیر و دیگر عہدہ داران سمیت سامعین کا مشاعرہ کے آخر تک انہماک اس پروگرام کی شاندار کامیابی کی دلیل ہے۔ محترم وحید احمد کی "خانہ بدوش" اور "ہم شاعر ہوتے ہیں" نے سامعین پر سحر طاری کر دیا۔ یہ کہنا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی نہ آتی تھی۔

ہم پیدا کرتے ہیں

ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں

تو شکلیں بنتی ہیں

ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں

جو مٹی تھے وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں

ہم شاعر ہوتے ہیں (وحید احمد)

مشاعرہ برپا کرنے سے زیادہ اہم مشاعرہ کو لے کر چلنا اور اسے نبھاہنا ہے۔ یہ فن نظامت ڈاکٹر الماس خانم، ماریہ امین اور ڈاکٹر صائمہ ارم کی دفاعی کمک سے چمکتا رہا۔ یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور وزارت اطلاعات کی ہم آہنگی اور بے مثال تعاون آئیندہ ہونے والے منفرد پروگرامز کی واضح تصویر ہے۔ ڈاکٹر الماس خانم اور ماریہ امین کی سلجھی ہوئی نظامت اور سلجھے ہوئے خوب صورت مشاعرہ میں حارث خلیق کی "رشیدہ ڈومنی والی" اور جعفر زٹلی جیسی انٹلیکچوئیل نظموں کی صورت تاریخی و تہذیبی مرثیوں کو بھی انتہائی شوق و ذوق سنا، سمجھا اور داد بھی دی گئی۔

حماد نیازی، احمد عطا اور فیصل ہاشمی کے انتہائی خوبصورت اور عمدہ اشعار بے ساختہ داد کا مرکز رہے۔

ہم اس خاطر تری تصویر کا حصہ نہیں ہیں

ترے منظر میں نہ آ جائے ویرانی ہماری (حماد نیازی)

پہلے ہم اشک تھے پھر دیدہِ نمناک ہوئے

اک جوئے آبِ رواں ہاتھ لگی پاک ہوئے (احمد عطا)

رواں دواں ہے تری سمت اس سبب سے کوئی

زمیں لپیٹ رہا ہے کہیں عقب سے کوئی (فیصل ہاشمی)

محترم عباس تابش کی میر باقر علی نے زمانے کے تغیر و تبدل کو زندہ کر دیا۔

یہ ہم جو تجھے جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں

ایسے تو چلی جائے گی بینائی ہماری (عباس تابش)

ہوا میں خون کی خوشبو نہ ہو پھلوں کی ہو

شجر اگائیں کسی زخم کو ہرا نہ کریں (قمر رضا شہزاد)

گو دل نشیں بہت تھا رہ یار کا سفر

ہم ایسے سادہ دل تھے دوبارہ نہ کر سکے (صائمہ ارم)

محترم افتخار عارف کی پر مزاح اور پر فکر گفتگو پروگرام کی جان رہی۔ برجستہ جملے ان کا خاصا ہیں۔ ان کا بے مثل شعر

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

کچھ شاعر پہلے اور بعد میں پڑھنے کی "حدت" میں بھی مبتلا نظر آئے لیکن اچھے شعر کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ پہلے پڑھا گیا یا بعد میں۔

ایسے ہی پس پردہ کرداروں کی عکاسی کامیاب پروگرام کی صورت منظر عام پر موجود رہتی ہے۔ وزارت اطلاعات کی طرف سے ٹیم ڈائریکٹر شبیہہ عباس، ڈپٹی ڈائریکٹر عشرت اختر اور ایڈیٹر ماہ نو ردا نصر کا تعاون پروگرام کے منصوبہ سے لے کر حتمی شکل اختیار کرنے تک اور عمدگی سے پروگرام کے اختتام تک موجود رہا۔

سفر بخیر، منزل بخیر تک

Check Also

Hum Kitna Peechay Hain

By Tehsin Ullah Khan