Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Chunnu Munnu

Chunnu Munnu

چنوں منوں

چنوں منوں نے سوچ رکھا ہے کہ صرف اپنی کہنا ہے۔ بھلے سے شور کانوں کو بھر دے لیکن کان سے روئی نہیں نکلے گی۔ بھلے سے دنیا ڈوب جائے لیکن آنکھ بند رہنے میں عافیت ہے۔ چنوں منوں دو کردار نہیں رویے ہیں۔ وہ رویے جو کسی بھی معاشرہ کی تصویر بناتے ہیں۔ یہ تصویر با معنی ہو تو عالم روشن دکھائی دیتا ہے اور اقدار پر اعتماد بڑھتا ہے اور بے معنی ہو تو ضمیر جعفری کی ایبسٹریکٹ آرٹ کی عکاسی بن جاتی ہے۔

جس میں بچے کبھی تو ڈر کر ماؤں کے کلیجے سے چمٹ جاتے ہیں اور کبھی یہ وضاحت دینے پر مجبور ہوتے ہیں کہ معاشرہ کی اس بد ہیئتی میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ بلی کو شیر اور کتے کو زرافہ ثابت کرنا قطعی مشکل نہیں۔ سو ایسا ہی ہو رہا تھا۔ چنوں منہ کھولتا تو منوں آنکھ بند کر لیتا اور منوں منہ کھولتا تو چنوں کانوں میں روئی ٹھونس لیتا۔ خلقت ساری تماش بین تھی۔ تماش بین بھی ایسی جو اپنا حصہ ڈالے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی اور چنوں کا منہ کھلنے کی کیا کہیں بقول شاعر

بے زبانی باتیں سنوانے لگی گالیوں پر منہ تمھارا کھل گیا۔

منہ زبانی ایسی ترقی، ایسی خوش حالی، ایسی فضا جو چنوں کے منہ بند ہونے پر بھی تاثر جمائے رکھتی اور اچھل اچھل کر داد "بے داد" عطا کرتی۔ ویسے تو چنوں کبھی سانس متوازن کرنے کے لیے بھی منہ بند نہیں کرتا اور الا بلا پھیلتی رہتی ہیں۔ بلی کی طرح چنوں کے جھوٹ موٹ سات گھر تک محدود نہیں رہے۔ پھیلے اور ایسے پھلے کہ گھر گھر بیج بوئے جانے لگے۔ اب جھوٹ کی فصلیں پودینے کی طرح ہر کیاری میں موجود ہیں۔

تختیاں موجود ہیں عمارتیں غائب، کاغذ کے دستے اور قلم سیاہی سے پر مگر کہانی خاموش ہے۔ ایک دن چنوں منوں نے میٹنگ بلائی اور سب کو جمع کر کے ملکی صورت حال بارے تشویش ظاہر کی۔ چنوں نے کہا کہ بورڈ نے ہر بار کی طرح اس بار بھی بہت زیادتی کی ہے۔ صرف پیپر سیٹر ہی نہیں استاد اور شاگرد بھی سٹیک ہولڈر ہیں اور کوئی بھی پالیسی انھیں لا علم رکھ کر نہیں بنائی جا سکتی۔ یہ کیا کہ تین سال سے شارٹ سلیبس اور آن لائین کلاسز لینے والوں طلبہ کے لیے سکیم ہی تبدیل کر دی جائی۔

کافی عرصہ خالی رہنے کے بعد جب بھی چئیرمین و کنٹرولر کی تقرری ہوتی ہے۔ وہ فوری طور پر افلاطونی عینک لگا لیتے ہیں۔ خدا جانے یہ عینک بورڈ کے سامان میں ہی سالہا سال سے موجود ہے یا انفرادی طور پر حاصل کی جاتی ہے۔ تین سال کرونا کی بندش کے بعد بچوں کو تعلیمی سفر میں سست روی کا عادی بنا کر بورڈ نے فیصلہ کیا کہ اس بار بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان بورڈ کے پیپرز کے ذریعہ ہی بنا دیا جائے۔ اور تخلیقی سطح پر ان کی صلاحیتوں کو ٹھنڈا یخ پانی ڈال کر نکھارا جائے۔

خواب اچھا تھا لیکن جناب کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ اس کے لیے وقت پر کچھ اصول وضع کیے جاتے ہیں۔ پیپر بنانے والوں کی خفیہ میٹنگ کے بعد اس کے منٹس اور وضع نظام ہزاروں سٹیک ہولڈرز کو بھجوایا جانا بھی ضروری تھا جس پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ اس تقریر پر منوں کانوں میں روئی ٹھونس کر بیٹھا رہا اور مسلسل تالیاں بجاتا رہا۔ چنوں نے بتایا کہ پبلک یونیورسٹیز سے بیس سال بعد گورنمت کی سیٹیں demolish کر دی گئیں اور وزیر تعلیم اپنی رٹ پر قائم رہے۔

حکام نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اس عرصہ میں یونیورسٹیز کا جو مذہب بھرشٹ ہوا۔ ڈینگی سپرے کے ساتھ یہ سپرے بھی جاری رکھے جائیں۔ اطلاع یہی ہے کہ تاحال یہ کن من جاری ہے۔ تعلیم کا کاروبار بننا اور آہستہ آہستہ سرکاری کالجز و دیگر وسائل کا ختم ہونا یا کیا جانا زیادہ دور کی بات نہیں۔ اس میں کتنے ہی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ اس بارے دبی دبی سرگوشیوں کا پھیلنے سے پہلے ہی گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اس گلا گھونٹنے میں مدرسہ و خانقاہ سے زیادہ پس پردہ ایک سے زیادہ "ہاتھ" حصہ دار ہیں۔

جن پر چنوں منوں قابض ہیں۔ جب منوں نے سیلاب زدہ علاقوں کی ایڈٹ شدہ تصاویر جاری کیں اور رلانے والے ساز بجائے تو چنوں کی دونوں آنکھیں بند تھیں۔ ہر شخص اپنی ایمان داری کے حلفی بیان بمعہ اکاؤنٹ نمبر شئیر کر کے عابد و زاہد قرار پا رہا ہے اور خلقت اچھل اچھل کر کاپی پیسٹ کرنے میں مگن ہے۔ جس کے شئیر زیادہ ہوں گے وہی فاتح عالم اور باقی سقراط سمجھے جائیں گے۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat