Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Boards Ki Danish Wariyan

Boards Ki Danish Wariyan

بورڈز کی دانش وریاں

دور حاضر میں دانش وہ وردی ہے جسے جادوئی کرشمہ سمجھا جاتا ہے۔ متاثرین کی تعداد متاثر کن ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے ہجوم کو تیاری کروائی جاتی ہے۔ اب یہ ہجوم سیل بےکراں ہے۔ جہاں اس ہجوم کے چند پارٹیکلز بھی جمع ہوتے ہیں، کسی بم کی طرح دھماکے سے پھٹتے ہیں اور لولے، لنگڑے، اپاہج دماغوں کی افزائش بڑھتی رہتی ہے۔

یہ عمل نرسری سے شروع ہوتا ہے اور سکولز سے کالج اور پھر یونیورسٹی کا سفر طے کر کے معاشرے میں رنگ بھری تصویریں بناتا ہے۔ کالجز کی حالت تجربہ گاہ کی سی ہے۔ جس میں بمقدور ہر شعبہ حصہ ڈالتا ہے۔ لاہور ٹیکسٹ بک بورڈ کی اغلاط سے پر کتابوں پہ میں نے اس سے پہلے بھی لکھا ہے لیکن لاہور بورڈ نے اس آگ پر پانی ڈالنے کا اہتمام بھی کر رکھا ہے۔ لاہور بورڈ کے احکامات میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ طلبہ کی لکھائی میں املاء کی اغلاط کو نظر انداز کیا جائے۔

اس کی بجائے بورڈ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ رومن رسم الخط کو بھی اردو ہی سمجھا جائے۔ آخر تخلیقی معیار کو بہتر بنانے کے لیے بھی تو بورڈ نے کونوں کھدروں میں دھندلے پڑے الفاظ اور اغلاط سمیت عبارات کو ہی علم و دانش کا منبع قرار دے رکھا ہے۔ رہی سہی کسر ڈائریکٹر کالجز کی طرف سے ڈینگی تصاویر، کمرہ جماعت کی سرگرمیوں کی تفصیل، طلبہ کی تعداد سے آگاہی اور نہ ہونے والے وسائل کی تفصیلات پہ کروائے جانے والے سیمینارز ہیں۔

ایک عرصہ تک پرائیویٹ سیکٹر کی امداد سے طلبہ کو صرف معروضی سوالات کا عادی بنایا گیا ہے۔ شاید دانشوروں کا خیال ہوگا کہ اس طریق سے جوابات کی نشان دہی کے ذریعہ ایک ایسی نسل تیار کی جائے گی جس کے پاس معاشرے میں برائیوں کی نشان دہی کا بھی ہنر ہوگا۔ پبلک سروس کمیشن تک میں معروضی سوالات کے ذریعہ اساتذہ کو بھی سیدھے راستے کا مسافر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔

حالانکہ تخلیقی صلاحیت سوچ کو جلا دینے کا ذہنی عمل ہے جو تخیل سے پیدا ہوتا ہے اور متعدد باہم ذہنی عملوں کو گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔ جس کے لیے مطالعہ بنیادی شرط ہے۔ تخلیقی عمل دائرے سے باہر کے امکانات ہیں جو وقت کے ساتھ ترقی پاتے ہیں اور خصوصیت، موافقت اور ٹھوس احساس اس کی خصوصیات ہیں۔ جب تک طلبہ کو املاء کی اغلاط سے پاک جملہ لکھنا نہیں آئے گا۔ معروضات سلامت رہیں گے اور غلط درست پر نشان لگتے رہیں گے۔

رٹا سسٹم کو فروغ ملتا رہے گا۔ طلبہ کی ذہانت، خیالات پر بند باندھنے کا عمل جاری رہے گا۔ شفاف بہتے پانی کو روک کر سنگ و خشت سے ایسے اذہان کی آبیاری کی جائے گی۔ کانٹوں بھرے سماج کو فلاحی ریاست کا نام دے کر میڈلز کی تقسیم ہوتی رہے گی۔ رٹا سسٹم محض تواریخ کی ترویج کا بنیادی ذریعہ ہے۔ جہاں ہمارے دانشور ماضی کی بیرکوں میں مورچہ بند ہیں اور انہیں بہترین زندگی گزارنے کے اصول تقسیم کر رہے ہیں۔

غور کیا جائے تو ہمارے اپنے صحن میں خار بھری بارودی سرنگیں ہیں۔ اصول و قواعد میں لپٹے مجاہدین کے پاس اس بارود کو تلف کرنے کا کوئی فارمولا نہیں۔ رٹا سسٹم نے بند اذہان کی تشکیل کی ہے۔ رٹّا میں ناکام کو ناکام ثابت کرنے کے تصدیقی سرٹیفکیٹ ایشو کیے جاتے ہیں۔ طلبہ کو یہ بھی رٹا لگوایا جاتا ہے کہ آیا انھیں ماضی پر فخر کرنا ہے یا اسے ردی کے حوالے کرنا ہے۔ زمانہ حال کے مسائل کو حل کرنا تو ایک طرف، طلبہ کو مسائل کا ادراک تک نہیں۔

استاد کمرہ جماعت میں پرچہ کی تیاری کروانے پر مجبور ہے۔ ہفتہ کے چھ دن میں طلبہ کے لیے آزاد ذہنی سے مطالعہ، سیکھنے، سوچنے، تجزیہ کرنے، تجاویز دینے جیسے کسی عمل کا امکان تک نہیں۔ لاہور بورڈ نے یہ تو طے کر لیا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے گا لیکن اس کے اقدامات محدود ہیں۔ ہم وہاں بند باندھتے ہیں جہاں پانی کا گزرنا بہت ضروری ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریاں تو عیاں ہیں لیکن ایک سیل بے پناہ ہماری نسل کی صلاحیتوں پر روک لگائے کھڑا ہے کیونکہ پچھتر سال سے دائرے کے بیل اسی کنویں سے پانی کے منتظر ہیں۔ جس کی نکاسی کا راستہ خوابیدہ راہ گزاروں میں کھلتا ہے۔

استاد لاکھ چاہے لیکن تعلیمی نظام اور امتحانات کے سسٹم نے انھیں سادھو بنا دیا ہے جو دیے گئے چلہ سے نکل نہیں سکتا۔ ٹیکسٹ بک بورڈ میں نصاب کی ترتیب وہ دائرہ ہے جس میں بار بار وہی اسباق شامل ہیں جو ایک زمانے میں پانچویں جماعت کا حصہ تھے اور آج ایف اے کا۔ ایک ہی سبق اردو اور پھر ترجمہ کے ذریعہ انگریزی میں بھی داخل ہے۔ انگریزی میں بھی اردو کے افسانہ نگار شامل کیے گئے ہیں۔

کیا یہ بہتر نہ تھا کہ وہ اردو میں ہی رکھے جاتے اور انگریزی ادب سے واقفیت کے لیے کوئی دوسری تخلیق شامل کی جاتی۔ تاکہ مختلف زبانوں کے ادب کے ذریعہ معاشرتی رویوں اور سوچ کا موازنہ کیا جا سکے۔ اساتذہ سے رائے کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی ہی کہے جانے کا نتیجہ اس بار بورڈ کا نتیجہ ہے۔ جس کا الزام طلبہ پر لگانے کی بجائے پالیسی سازوں کی بھی پکڑ کی جائے۔ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔

Check Also

Chal Ke Hum Ghair Ke Qadmon Se Kahi Ke Na Rahe

By Asif Masood