Shahadat e Hussain Aur Engineer Muhammad Ali Mirza
شہادت حسینؑ اور انجینیئر محمد علی مرزا
انبیاء میں اور باقی انسانوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ کی ہدایت یعنی وحی کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انبیاء کے علاوہ انبیاء کے اہلبیت ہوں یا اصحاب یا عام مسلمان سب اپنی نبی کی ہدایت کے مطابق راہ حق پہ چلتے اور فتنوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دین کے لیے جس کی قربانی جتنی بڑی ہوگی اسکا اللہ کے ہاں مقام اتنا ہی بلند ہوگا۔ مگر انبیاء کی شان اور مقام تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا چاہے وہ جتنا مرضی متقی ہو اور دین کے لیے قربانیاں دے لے۔ کیونکہ انبیاء کو نبوت محنت سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے ملتی ہے۔ مگر انبیاء کو بھی اللہ کا حکم ہوتا ہے کہ اپنی امت کے اجتماعی معاملات میں اپنے اصحاب سے مشاورت کریں جیسے فرمان تعالی ہے (العمران، 159) مگر جہاں انبیاء یہ فرما دیں کہ اللہ کا حکم ہے یعنی وحی ہے وہاں پھر کوئی مشاورت نہیں وہاں بس سر جھکا کہ اللہ کے نبی کے حکم کی تعمیل ہے۔
انبیاء کے بعد امت کے سب لوگ برابر ہوتے۔ کیونکہ کسی کا بھی مالک سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا وحی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے سب نے اپنے نبی کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے اس لیے اب معاملات برابری کی بنیاد اورمشورے سے طے ہونے ہوتے ہیں۔ اب معاملات طے کرنے میں کن لوگوں کو زیادہ اختیار دیا جائے وہ یا تو عام مسلمانوں کو اپنے فہم اور عقل سے ایسے لوگوں کا نتخاب کرنا پڑے گا جو مسلمانوں میں زیادہ باعمل ہوں یا پھر نبی خود بتا دے گا۔
نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں یہ واضح ہوچکا تھا کہ کون سے اصحاب اللہ کے برگزیدہ ہیں جیسے اصحاب بدر، عشرہ مبشرہ اور آپ کی اہل البیت جن کے بارے فرما دیا گیا تھا کہ یہ خاص لوگ جنتی ہیں۔ ان کے علاوہ اور صحابہ کی بھی شان بیان کردی گئی۔ جب حضورﷺ کی وفات ہوگئی تو مسلمانوں کا جتماعی نظام مشورے سے ہی طے ہونا تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکرؓ کی بیعت عجلت میں کرنی پڑی تھی۔ مولا علیؑ کی بات بالکل حق بجانب تھی حضور کی آل کے سب سے بڑے نمائندے کو شامل مشورہ کیوں نہ کیا گیا ورنہ آپ کو حضرت ابوبکرؓ کی خلافت پہ اعتراض نہیں تھا اس لیے بعد میں آپکی نارضگی کو دور بھی کیا گیا اور آپ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت بھی کی۔
حضرت عمرؓ نے بھی اپنے آخری حج کے بعد کے خطبے میں واضح کیا تھا کہ اگر ہم وہاں سے حضرت ابوبکرؓ بیعت منعقد کیے بغیر لوٹ آتے تو امت کسی فتنے کا شکار ہوجاتی جسے ہمیں پھر چارو ناچار قبول کرنا پڑتا۔ اب ہمارے اہل تشیع بھائی فرماتے ہیں کہ مولا علیؑ حضورﷺ کے وصی تھے۔ یہ بات انتہائی بے سروتاپاہ ہے۔ یعنی اتنی بڑی بات تھی امت کے اجتماعی نظام کی کہ حضور کی صحبت میں رہنے والے اصحاب کو پتا ہی نہ چل سکی۔ کہ چلو ابوبکرؓ، عمرؓ عثمانؓ کو تو معاذاللہ آپ غاصب کہتے ہیں مگر کیا سعد بن عبادہؓ کو بھی معلوم نہیں تھا جو خلافت کے امیدوار تھے۔ کیا مدینہ کے باقی کبائر صحابہؓ کو بھی یہ بات معلوم نہ تھی جنہوں نے خاموشی سے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔ یعنی ہم معاذاللہ یہ سمجھیں کہ وہ لوگ جن کی شان اللہ قرآن میں بیان فرماتا رہا وہ حضور کی وفات کے ساتھ ہی آپ کے اتنے بڑے حکم سے روو گرداں ہوگئے۔
کہا جاتا ہے خلافت اہلبیت یعنی مولا علیؑ کے گھرانے کا حق تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ انبیاء اقتدار کی سیاست نہیں کرنے آتے کہ مسلمانوں کا اجتماعی نظام میری نسل کے ہی ہاتھوں میں رہے بلکہ یہ امانت ہوتی ہے اور مسلمانوں کی باہمی مشاورت سے ہی طے ہوتی ہے اگر ایک ہی خاندان کے ہاتھ خلافت کا نظام پکڑا دیا جاتا تو یہ وہی بادشاہی نظام آجاتا جس کے خلاف اہلبیت کٹ گئے۔ دوسرا وہ لوگ جو مولا امام حسینؑ اور یزید کی آپسی لڑائی کو دو شہزادوں کی اقتدار کی جنگ کہتے ہیں انکی بات ماننی پڑے گی کہ معاذاللہ حضرت حسینؑ نے اقتدار کے لیے ساری تگ و دوکی لیکن اہل بیت اللہ کے فضل سے اقتدار کے کبھی خواہش مند نہیں رہے۔ اہلبیت اپنی عملی زندگی سے یہ ثابت کرچکے ہیں۔
اگر واقعی خلافت اہل بیت کا حق تھا۔ تو مولا علیؑ کی تلوار تب تک نیام میں نہ آتی جب تک حضور کا حکم نافذ نہ ہوجاتا یا وہ خود ہی شہید ہوجاتے۔ کیونکہ یہ حق ذاتی حق کی طرح نہیں تھا یہ مسلمانوں کے نظام کی پہرہ داری تھی جس نے قیامت تک چلنا تھا۔ تو ان باتوں کا جواب دیا جاتا ہے کہ مولا علیؑ نے فتنہ پھیلنے اور مسلمانوں میں خون خرابہ کے ڈر سے خاموشی اختیار کرلی۔ یعنی اہل بیت کے سامنے امت کا خون خرابہ حضور کے حکم سے افضل تھا۔ یعنی آج اگر مسلمان بے حیانی پھیلائیں، سود کھائیں اور اللہ کی حدوں کو توڑیں تو ہم اس ڈر سے کہ کہیں خون خرابہ نہ ہوجائے اللہ کی حدوں کے نفاذ سے ہی منہ موڑ لیں کیا عقل مانتی ہے اس بات کو۔ دوسری ایسی باتیں کرنے والے مولا علیؑ اور آپکی آل کے جلال سے واقف ہی نہیں۔ امت میں مولا علیؑ کا ہی تو گھرانہ ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی نظام (امرھم شوری بینہم) کی بقا کے لیے سینہ تان کر کھڑا رہا۔
مولا علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی بیت کی۔ خلفاء راشدین کو اچھے مشورے دیتے رہے اور جہاں آپکو کوئی خامی نظر آتی آپ وہاں بھی اپنی رائے دیتے۔ خلیفہ برحق حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی آپ نے جب باغیوں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے معاملات بہت خراب ہوگئے تو بات چیت کے ساتھ مسائل حل کرنے کی بہت کوشش کی۔ خلیفہ کی جان کی حفاظت جہاں تک ممکن تھی آپ نے اپنی حد تک پوری کوشش کی۔ مگر تاریخ کا انتہائی افسوسناک حادثہ ہوگیا اور امیر المومنین حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوگئی۔
کیا کوئی مسلمان بھائی اہلسنت ہو یا اہل تشیع کہہ سکتا ہے کہ کبھی ان تینوں خلفاء کے دور میں یا بعد میں اہل بیت نے اقتدار حاصل کرنے کی کوئی کوشش یا سازش کی ہو۔ اہل بیت کا دامن بالکل پاک ہے۔ حضرت علیؓ بھی اسلام کے اسی امرھم شوری بینہم کے قانون کے ساتھ مسلمانوں کے خلیفہ چنے گئے تھے۔ بادشاہت کا منصب یک طرفہ ہوتا ہے بادشاہ طاقت اور سازشوں کے بل پہ اقتدار میں آتا ہے اور قائم رہتا ہے۔ جبکہ خلافت کا منصب دور طرفہ ہوتا ہے۔ خلیفہ مسلمانوں کی آپسی رائے سے منتخب ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی طاقت بھی مسلمان عوام ہی ہوتے ہیں جو ہر مشکل میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس اُس وقت مسلمانوں کی اکثریت اپنے خلیفہ برحق کے ساتھ نہ کھڑی ہوسکی۔
جب حضرت علیؓ نے خلافت سنبھالی تو انتہائی انتشار خلافت کے نظام میں پھیل چکا تھا جبکہ اصحاب کی اکثریت یہ فیصلہ ہی نہ کرپائی اور تذبذب کا شکار ہوگئی۔ بہت سارے اصحاب جو تقوی میں بہت بلند مقام رکھتے تھے مسلمانوں کے اس انتشار سے علیحدہ ہو کر گوشہ نشین ہوگئے۔ مولا علیؑ نے خلافت کے نظام کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہ امت کی بدقسمتی تھی کہ آپ کی شہادت ہوگئی۔ آپ کے بعد حضرت امام حسنؑ خلیفہ برحق بنے۔ مگر آپ دیکھ چکے تھے کہ خلافت کے نظام کو بچانا اب ممکن نہیں۔ مزاحمت کا نتیجہ مسلمانوں کے خون کا بہاو ہی ہوگا اور کچھ نہیں اس لیے حضور کے فرمان کے مطابق مسلمانوں کے سردار ہونے کا حق ادا کیا اور اقتدار حضرت امیر معاویہؓ کے حوالے کردیا۔ اگر حضرت امیر معاویہؓ اپنی امارت اپنے تک رکھتے اور اپنے بعد مسلمانوں کو مشاورت کے ذریعے خلیفہ کے انتخاب کا حق دے دیتے تو امت پہ آپکا احسان ہوتا۔ مگر حضرت امیر معاویہؓ ایسا نہ کرسکے اور اپنے بیٹے یزید کو مسلمانوں کے اجتماعی نظام کا وارث بنا کر اسکی بیعت لینے کی بھر پور تگ و دو کی۔
اگر حضرت امیر معاویہؓ اپنی دوربین نگاہوں سے دیکھ لیتے کہ مسلمانوں کے سیاسی نظام کو وراثت بناکر منتقل کرنے کے کیا تباہ کن اثرات ہوسکتے ہیں۔ تو یقین ہے کہ وہ یہ جانشینی کبھی نہ کرتے۔ مگر ہماری بدقسمتی یزید خلیفہ بن گیا۔ جس کے خلاف حضرت امام حسینؓ کو جہاد کا علم بلند کرنا پڑا۔ اب کچھ لوگ یہاں حصرت امام حسینؓ کے جہاد کی وجہ یہ بتاتے پیں کہ یزید شرابی کبابی تھا، اور بھی اخلاقی حدود سے گزرا ہوا تھا اس لیے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پہ قبول نہیں تھا یعنی اگر یزید اچھا انسان ہوتا تو حضرت امام حسینؓ کو قبول ہوتا۔
دوسری طرف آج بھی یزید کے حامی کہتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ کی جنگ ایک شہزادے کی تخت کے لیے جنگ تھی اور یہ بنو ہاشم کی بنو امیہ سے پرانی دشمنی تھی۔ لیکن یاد رکھیں کوئی بھی نظام کسی ایک برے شخص کے آجانے سے ٹوٹ نہیں جاتا۔ حقیقت یہ تھی کہ نبی کے نواسے کو کسی سے ذاتی بغض نہیں تھا۔ بنوامیہ کی طرف سے تو ذاتی دشمنی ہوسکتی تھی۔ مگر اہلبیت کی ساری تگ و دو اسلام کی شہادت کے لیے تھی۔ یزید ہو یا کوئی اور وہ کسی سے ذاتی بغض نہیں رکھتےتھے انکی تربیت ہی ایسی نہیں تھی۔
مسلمان چاہئے اپنے سیاسی حق سے دستبرار ہورہے تھے مگر وہ شخص جو جنت کے نوجوانوں کا سردار ہو، جس کے نانا نبی کریمﷺ ہوں، ماں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت کی عورتوں کی سردار ہو اور بابا مولا علیؑ ہو۔ جس نے کائنات کی ان تین عظیم ترین ہستیوں کی گود میں پرورش پائی ہو اسکی دوربین نگاہیں آنے والے طوفان کی تباہی دیکھ رہی تھی۔ آپ دیکھ رہے تھے کہ اگر اب خاموشی اختیار کرلی تو لوگ اسی بادشاہی نظام میں جکڑے رہ جائیں گے وہ اسے ہی ٹھیک سمجھیں گے۔ جو آہستہ آہستہ اسلام کے اجتماعی نور کو کھا جائے گا اور آپ دیکھ لیں مسلمانوں میں بادشاہی نظام پھر ایسا آیا کہ دوبارہ کبھی اسلامی نظام اب تک نہیں آسکا۔
دنیا میں مسلمانوں کی حکومتیں بنیں ترقی بھی ہوئی۔ مگر اسلام کا سیاسی نظام پھر نہ آسکا۔ یہ اسلام کی تاریخ میں آپکے جہاد کی برکت کا نور ہے جو آج بھی ہمیں ہر طاغوت کا مقابلہ کرنے کے لیے رہنمائی دیتا ہے اور بادشاہی نظام کو تسلیم نہیں کرتا۔ اہل بیت میں جہاد صرف امام حسینؓ نے نہیں کی بلکہ آپکی اولاد میں سے بھی بغاوت کے علم بلند ہوتے رہے۔ علماء برحق نے بھی اس بادشاہی نظام کو باامر مجبوری صرف اس لیے قبول کیا کہ اب ظاہر ہے زمین پہ کوئی نظام تو ہونا چاہیئے ورنہ تو انارکی پھیل جائے گی۔ لیکن ہر اس تحریک کا ساتھ دیا جو واقعی اخلاص کے ساتھ اسلام کا اصل نظام بحال کرنا چاہتی تھی۔ جیسے حضرت امام حسین کے پوتے حضرت زید بن علیؓ نے جب بنوامیہ کے خلاف بغاوت میں حضرت امام ابوحنیفہ کی حمایت۔
اسی طرح جب حضرت امام حسنؑ کے پڑپوتے حضرت محمد نفس ذکیہؓ نے عباسی خلیفہ المنصور کے خلاف بغاوت کی تب بھی حضرت امام ابوحنیفہ نے کھلم کھلا نفس ذکیہؓ کا پورا ساتھ دیا۔ آج انجینیئر مرزا صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ میں حسینؑ والا ہوں کہ میں نے آکر سنی مسلمانوں کو اہلبیت کا تعارف کروایا ورنہ وہ تو ناصبی بنے ہوئے تھے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس بھائی نے سوائے انتشار پھیلانے کہ کچھ بھی نہیں کیا۔ کجا کہ کوئی امت کی بھلائی کا کام کیا ہو بہت سارے معاملات میں قرآن و سنت سے وہ نتائج اخذ کرکے اپنے اپنے فیصلے دیے ہیں جو مجموعی طور پہ امت کا نقصان نہیں کرتے تو بھلا بھی کوئی نہیں کرتے۔ حالانکہ اہلبیت کا، شہید کربلا کا واقعہ تو اول روز سے مسلمانوں میں دکھ کی دراڑ ڈالے ہوئے ہے۔ آپکا اخلاص اپنی جگہ مگر، جہاں سے آپ یہ احادیث اٹھا اٹھا کر بیان کرتے ہو۔ وہ کون لوگ تھے؟ وہ اہلسنت کے امام تھے۔
اہلسنت کے نزدیک اہلبیت ہر معاملے میں حق پہ تھے۔ مولا علیؓ کو چوتھا خلیفہ برحق تسلیم کیا اور آج تک مولا علیؑ و امام حسنؑ، حسینؑ کی شان ہمارے دلوں میں بڑھتی ہی جارہی ہے کیوں! کیونکہ اہلبیت کی دین کے لیے قربانی سب سے بڑی ہے۔ لیکن اہلسنت کے اکابر کسی پہ شب و ستم کے حامی نہیں ہیں یہی اہلبیت کا شیوہ تھا کہ کسی کو برا بھلا یا لعنت ملامت نہیں کرنی۔ انجینیئر صاحب آپ سے پہلے بہت سے اہلسنت کے اکابرین بنو امیہ کی غلطیوں کی نشادہی کرچکے ہیں اور اہلبیت کے حق ہونے پہ مہر لگا چکے ہیں بلکہ اسی صدی میں مولانا مودودی نے خلافت و ملوکیت کتاب لکھ کر اہلبیت کا شان واضح کی ہے مگر امیر معاویہ بارے عزت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، یزید کو لعنت ملامت کرکے دل کو تسکین نہیں دلوائی۔
بات یہ ہے کہ خلافت کے خاتمے کے بعد دین کا کون سا شعبہ محفوظ رہا۔ بلکہ پھر تو دین فروش ملا بھی پیدا ہوگئے جنہوں نے بادشاہوں کے درباروں کا رخ کیا اور دین کو بیچا مگر علماء حق اعتدال کے ساتھ امت کو دینی ورثہ منتقل کرتے رہے۔ جہاں کوئی موقع ملا دین کے نفاذ کے لیے بھی کوششیں کرتے رہے۔ آپ بھی اگر حسینی ہوتے تو اہلبیت کی قربانیوں کا ذکر مسلمانوں سے کرتے اور انکو تیار کرتے کہ کیسے ہم نے آج کے باطل نظام کو چیلنج کرنا ہے جبکہ آپکے نزدیک باطل صرف پیروں اور مزاروں پہ ختم ہوجاتا ہے حقیقت میں اسلام کا سارا نظام اس وقت نشانے پر ہے۔
آپ نے وہی روایتی ملاوں کی طرح پٹاری کھولی اور بحثوں کا آغاز کردیا اور شہرت مل گئی۔ آپ نے اہلسنت کے انہی روایتی ملاؤں کو للکارا کہ فلانا ناصبی ہے تو فلانا رافضی۔ تو انہوں نے پھر آپکو للکارا کہ آو ہم سے مناظرہ کرو۔ مناظرہ کرنے کی آپ میں ہمت نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے آپ کسی ملا سے مناظرہ کر لو وہ آپکو دھول چٹا دے گا۔ کیونکہ مناظرہ حق و باطل کی طرح نہیں بلکہ ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کا نام ہے جس میں ہمارے روایتی ملا کمال بے مثال رکھتے ہیں۔ میں خود بھی ایسی منظرانہ بحثوں کو دین کے لیے کینسر سمجھتا ہوں۔ تیرہ سو سال سے امت انہی بحثوں میں ضائع ہوگئی جبکہ یورپ دنیاوی علوم میں ترقی کر گیا۔
اسلام کا سارا نظام اپنی روح سے اکھڑ گیا جس دین کے اجتماعی نظام کی بقا کی خاطر اہلبیت کٹتے رہے امت کی اکثریت اسی سے ہی غافل رہی۔ لیکن بات یہ ہے آگر آپ نے تبلیغ کرنی ہے تو سورہ النحل کی آیت 125 کی مطابق انتہائی حکمت اور احسن انداز سے کریں۔ اگر نام لے لے کر مولویوں کو اکسانا ہے تو پھر مرد بنو انکا سامنا بھی کرو دو چار یوٹیوبرز کو سامنے بٹھا کر اپنی انجینیئرنگ کرکے پھنے خاں بن جانا بڑی بات نہیں ہے۔ ایک کمرے میں بند ہوکر سکیورٹی کے حصار میں عالم فاضل بن کرکے تو کوئی بھی کسی کو بھی للکار سکتا ہے۔ آپ اپنے تئیں یوٹیوب پہ بیٹھ کر قلعوں پہ قلعے فتح کرتے جا رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں باطل نظام ہمارے دین کے پرخچے اڑاتا جارہا ہے۔ اس لیے حسینی بنو اور میدان میں نکل کر طاغوت کا مقابلہ کرو۔