Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Akram
  4. Musalman Dunya Ke Imam Nahi Ban Sakte

Musalman Dunya Ke Imam Nahi Ban Sakte

مسلمان دنیا کے امام نہیں بن سکتے

پچھلے کالم میں ہم نے ہیگل کے فلسفہ تاریخ کے نقائص واضح کیے تھے آج کارل مارکس کے نظریے کو مختصر سمجھیں گے اور مسلمانوں کو متنبہ کریں گے کہ جس مغرب کی اندھی تقلید تم کر رہے ہو اسکا نظام فکر کس قدر کمزور بنیادوں پہ کھڑا ہے۔

کارل مارکس نے جس دور میں، جرمنی میں جس کا اسوقت نام پروشیا تھا، آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ انڈسٹریلائز ہورہا تھا سرمایہ دارانہ نظام اپنےپنجے گاڑ رہا تھا۔ مزدوروں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ سرمایہ دار کے مزدور پہ اس ظلم کو دیکھ کر مارکس انقلابی بن گیا اسنے مزدوروں کو سرمایہ دار کے چنگل سے چھڑانے کی ٹھان لی بالاشبہ اس نے اپنی زندگی میں اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ واقعی عام عوام کے حقوق میں مخلص تھا۔ وہ باتوں کا سکندر نہیں بلکہ عمل کا سکندر تھا۔ مگر یہ بات یاد رکھیں کہ محنت کی بنیاد جس عقیدے اور فکر پہ رکھی جائے گی نتیجہ اسی طرح کا نکلے گا۔

مارکس مذہب بیزار ایتھیسٹ تھا۔ اس لیے باوجود انسانیت کے لیے مخلص پن کے، جو کمیونزم کا نظریہ اسنے دنیا کودیا۔ اس نظام کا زمین پہ وجود میں آنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کارل مارکس کے نظریہ کے مطابق مادہ یعنی دولت ہی سب فساد کی جڑ ہے ہمیشہ ایک امیر طبقہ دوسرے غریب طبقے کے وسائل پہ قابض رہا ہے۔ جس کی وجہ سے جب امیر اور غریب میں فرق بہت بڑھ گیا تو غریب طبقے نے بغاوت کردی اور دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی پھر اسی پراسس کا اعادہ ہوا جیسے کہ پہلے بادشاہ اور غلامی کا دور تھا جہاں عام عوام غلامی کی زندگی گزارتی تھی۔ پھر جاگیرداری کا نظام آیا جس میں عام انسان غلام تو نہیں تھا بلکہ غلام سے تھوڑے زیادہ حقوق رکھتا تھا مگر مکمل آزاد نہیں تھا۔

اس طرح آج ہم جدید دنیا میں پہنچتے ہیں جہاں سرمایہ دار مزدور کا استحصال کررہا ہے۔ اب اس مزدور کے پہلے دور کے غلام اور کسان سے تھوڑے سے زیادہ حقوق ہیں مگر ظلم کی چکی میں پس وہ اب بھی رہا ہے۔ اس لیے اب بغاوت مزدور کرے گا اور مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوجائے گی جسے وہ سوشلزم کہتا ہے پھر وہ کہتا ہے کہ یہ مزدوروں کی حکومت ہر چیز کو حکومتی ملکیت میں لے لے گی جب سرمایہ دار ختم ہوجائیں گے تو مزدوروں کی یہ حکومت ان سارے وسائل کو سب میں بانٹ دے گی اور کوئی مرکزی حکومت نہیں رہے گی لوگ اپنی ضرورت کی مطابق کام کریں گے ہر کسی کو برابر موقع ملے گا اس طرح دولت پہ ہر کسی کی دسترس ہوگی تو کوئی کسی کا استحصال کرے گا ہی نہیں۔ کیونکہ چور چوری تب کرتا ہے جب اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔

لوگ کرپشن کرتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ کے لوگ بہت امیر ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کے سٹیٹس تک پہنچنے کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اس لیےجب کوئی مالک اور مملوک ہوگا ہی نہیں تو کوئی کسی کا حق کیسے کھائے گا جب وسائل ہر شخص کی دسترس میں ہوں گے تو کوئی کیوں لوٹ مار کرے گا۔ اس نظام کو مارکس کمیونزم کہتا ہے یعنی پہلے سوشلزم آئے گا اور پھر کمیونزم اس طرح مارکس نے انسانی زندگی کو صرف معیشت کی نظر سے ہی دیکھا یعنی دنیا میں انسان کے اخلاق اور مذہب کا تعین بھی معیشت کرتی ہے کوئی مالدار ہے تو اسی کی عزت ہے۔ مذہبی طبقہ بھی اسی کے آگے پیچھے پھرتا ہے۔

مارکس کی یہ بات تو کسی حد تک ٹھیک ہے کہ دنیا میں عیش اور عزت صرف دولت مند ہی کی ہوتی ہیں آج کے دور میں بھی اچھی تعلیم، اچھا رہن سہن، معاشرے میں عزت، پیسے والے کوہی ملتی ہے مذہب کے ٹھیکیدار بھی پیسے والوں کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں یعنی دنیا بھی پیسے والے کی اور دین بھی پیسے والے کا۔ مگر کیا ساری انسانی تاریخ میں پیسہ ہی سب کچھ رہا۔ اگر مارکس ایک یہودی ہونے کے ناطے اپنی اسلامی تاریخ کو پڑھ لیتا کہ کیا حضرت موسیؑ نے مال و دولت کے لیے اور عیش و عشرت کے لیے فرعون کو چیلنج کیا تھا۔

کیا اسکو انسانی تاریخ میں کوئی ایک شخص بھی نہیں ملا جو بے لوث انسانیت کا خدمتگار ہوا ہو۔ جبکہ تاریخ انسانی میں لاکھوں انسان، انسانیت کی بھلائی اور خیر کے لیے جانیں دیے چکے ہیں۔

دوسرا مارکس کو یہ پتہ نہیں چلا کہ کمیونزم کے دور میں انسانوں پہ جب کوئی حکومت نہیں ہوگی تو اگر معاشرے میں کوئی برا فرد پیدا ہوگیا اور اسنے کوئی فساد کھڑا کردیا تو آخر اسکو کون سزا دے گا۔

حقیقت یہ ہے جدید یورپ کے جتنے بھی سکالرز پیدا ہوئے ہیں ان کے پاس علم کے صرف دو ذرائع تھے ایک حواس خمسہ اور دوسری عقل۔

ان حواس کے ذریعے انہوں نے اپنے دور کی ناانصافیوں کا مشاہدہ کیا کیوں کہ وہ اپنی قوم کی ان ناانصافیوں سے چھٹکارا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائے۔

عقل کے گھوڑے سائنس کے میدان میں تو کمال دوڑے کیوں کہ سائنس کی تحقیق زمین وآسمان کی موجود چیزوں کے بارے میں تھی حواس خمسہ کی دسترس میں تھی اس لیے جب حواس کے ساتھ عقل کا استعمال کیا تو سائنس کو چار چاند لگ گئے۔

لیکن ان سکالرز نے قوموں کے سیاسی اور معاشرتی نظام کے لیے علم کے ان دو ذرائع کا صحیح استعمال ہی نہیں کیا انہوں نے علم کے ایک تیسرےذریعے علم وحی کی طرف دیکھا تک نہیں۔ اگر واقعی وہ اپنی عقل کے استعمال میں انصاف پسند ہوتے تو ضرور وحی کے علم کو جاننے کی تگ و دو تو کرتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو اپنے افکار کی بنیاد ہی مذہب کی ضد پہ رکھی تھی۔ جس کی وجہ سے انکی عقل نے خواہش نفس کے پردے میں رہتے ہوئے جتنا سوچا جو ہاتھ آیا اسی طرح کے نظام کو وضع کردیا۔

تھامس ہابز، جان لاک، روسو، ہیگل، جان سٹورٹ مل، والٹئیر، میکاولی یہ سب اسی دور کے فلاسفر تھے۔ یہ قوموں کو مذہبی غلامی اور گمراہیوں کی ایک بہت بڑی دلدل سے کھینچ کر باہر تو لے آئے مگر انکو جب زندگی کی راہ پہ چلانے کی باری آئی تو پہلے سے بھی بڑی دلدل میں پھینک بیٹھے۔ جب یورپ نے مادی ترقی حاصل کی تو انکے سامنے اس طرح کی فکر تھی۔ پھر انہوں نے انہی سکالرز کو اپنے اپنے میدان کا باپ بنا دیا

Father of Capitalism, Father of Socialism, Father of Chemistry, Father of Physics etc.

انکے مطابق سیاسی، معاشرتی اور سائنسی ترقی کا آغاز صرف یورپ سے ہی ہوا ہے اور یورپ ہی دنیا کے ہر میدان کا باپ ہے اس سے پہلے دنیا تاریکیوں میں گھوم رہی تھی۔ یہ ہے وہ طاقتور قوموں کی علمی بددیانتی۔ حقیقت میں یورپ سے پہلے چائینہ، انڈیا، عربوں اور ایرانیوں کی تہذیبیں اپنےعروج کا کمال دیکھ چکی تھیں۔ اور دنیا کو بہت ساری سائنسی ایجادات اور تہذیبی افکار کی وراثت منتقل کرچکی تھیں۔

لیکن افسوس مجھے امت مسلمہ پہ ہے دنیاوی علوم میں تو ضرور یورپ کے علم سے استفادہ کرنا چاہیئے تھا ان کے نظاموں کو بھی سمجنا چاہیئے تھا جو خیر کی بات ہوتی وہ لے بھی لینی چاہیئے تھی۔ لیکن مسلمانوں نے دنیاوی علوم تو چاہے پورے نہ حاصل کیے ہوں مگر تہذیب و تمدن میں یورپ کی مکمل غلامی اختیار کرلی ہے۔

ان کا نظام جوں کا توں اپنے اوپر لاگو کرلیا ہے اس تہذیب کے ایسے اثیر ہوئے ہیں کہ اپنا دین ہی دقیانوسی لگنے لگا ہے۔

میں مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یورپ کا نظام اب بھی جاہلیت کے ایک نئے گڑھے میں کھڑا ہے جبکہ دین اسلام آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے مگر اس سے روشنی لینے والے بہت کم ہیں۔

آج بھی ہمارے مسلمان دانشور دین کو عقل کے دائرے میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سمجھیں تو کوئی ایسی بات نہیں کہ وہ اس کے نور سے فیض یاب نہ ہوں۔

ہماری نوجوان نسل اس وقت انسانی تاریخ سے بالکل ناواقف ہے کوئی بھی شخص ان کو اسلام کا انجکشن لگا کر اور یورپ کی ترقی جیسے خواب دکھا کر بے وقوف بنا سکتا ہے۔

یاد رکھیں اگر ہم نے دنیا کا امام بننا ہے تو ہمیں یورپ سے اعلی فکر اور تہذیب دنیا کو دینی ہوگی یورپ سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی دنیا کو دکھانی ہوگی۔ امریکہ یورپ سے ہتھیار اور بم خرید کر دنیا کی ورلڈ پاور بننے کے خواب چھوڑ دیں۔ جو ملک اسلحہ تم کو بیچتے ہیں وہ خود کتنے طاقتور ہوں گے سوچو تو سہی۔ کب تک برباد ہوتے رہو گے تم کو یورپ نے جو تعلیمی نظام دیا ہے۔ وہ تو تمہیں دنیا کا امام نہیں بلکہ یورپ کا غلام بنانا والا ہے۔

میں دیکھ رہا ہوں ہماری نوجوان نسل بھی یورپ کی طرح بننا چاہتی ہے لیکن میں بتا دوں ہوسکتا ہے تمہاری دنیا تو کچھ بن جائے مگر استاد پھر بھی گورے رہیں گے مسلمان دنیا کے امام نہیں بن سکتے۔

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem