Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rizwan Akram/
  4. Kale Bazar Ke Chaudhary

Kale Bazar Ke Chaudhary

کالے بازار کے چودھری

پچھلے کالم میں وضاحت کی تھی بینک کس طرح سود پہ منافع کما رہے ہیں؟ اس کے سب سے بڑے ہتھیار فریکشنل ریزرو بینکنگ کی بھی تھوڑی وضاحت کی تھی آج بات کریں گے کہ ان بینکوں سے اتنا قرضہ کون لیتا ہے اور پھر اتنا سود کون ادا کرتا ہے؟ بینکوں کی یہ باتیں پاکستانی نصاب میں پڑھائی نہیں جاتیں اس لیے ہمارے اچھے اچھے پڑے لکھے لوگوں کو ان کی چالوں کا پتہ نہیں ہے۔

لیکن انٹرنیٹ پہ جائیں تو اس حوالے سے بے شمار مواد مل جائے گا۔ ڈاکٹر اسد زمان پاکستان کے ایک بڑے ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ہیں۔ انہوں نے بھی ایک مقالہ لکھا ہے اسی موضوع پہ اگر کسی کو چاہیئے تو وہ بھی انٹرنیٹ پہ موجود ہے۔ پاکستانیوں میری بات یاد کر لو پاکستان میں نہ ہی کوئی غربت ہے اور نہ کوئی قحط بلکہ ناانصافی ہے، ظلم ہے بہت سارے مافیا کا قبضہ ہے۔ اگر غربت ہوتی تو سب لوگ غریب ہوتے۔

یہ کیا ہے کہ ایک ہی شہر میں اربوں پتی بھی ہیں اور ان کی دولت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور دوسری طرف اسی شہر میں غریبوں کا بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو بیچارے دو وقت کی روٹی تک کے محتاج ہو چکے ہیں۔ ظلم کے خلاف ہمشہ بغاوت کرنی ہوتی ہے غلامی کو کبھی قبول مت کرو وقتی طور پہ برداشت کرو مگر قبول نہیں۔ اس سے جان چھڑانے کی جدوجہد جاری رکھو کیونکہ اگر تم نے اسے قبول کر لیا تو تمہاری نسلیں اس سے بھی شدید ظلم، ناانصافی اور غلامی کا دور دیکھیں گے۔

اس کالم کا تعلق میرے پچھلے کالم "کالابازار" سے ہے وہ اگر نہیں پڑھا تو اسے پہلے ضرور پڑھ لیں۔ ایک عام آدمی اگر بینک سے قرضہ لینے چلا جائے تو اس سے یہ ظالم قرض دینے سے ڈبل تو اس سے ضمانت لے لیتے ہیں۔ یہ گھر جائیداد تک گروی رکھ لیتے ہیں، یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ان کے پاس قرض لینے والوں کی بڑی ڈیمانڈ ہے جس کی وجہ سےعام آدمی کو یہ اتنی لفٹ نہیں کرواتے ہیں۔ وہ لوگ کون ہیں؟

جی ہاں وہ دو طرح کے ہیں ایک بہت بڑا سرمایہ دار جس کا اربوں کا لین دین بینک سے چل رہا ہو تو بینک اسے فوراََ قرض سود پہ دے دیتا ہے۔ یہ جو سرمایہ دار ہے نہ، غریب کا استحصال کرنے والا دوسرا بڑا ظالم ہے انہوں نے اگر کوئی فیکٹری لگانی ہو تو یہ اپنی جیب سے ایک روپیہ نہیں لگاتے بلکہ بینک سے سود پہ پیسہ لیتے ہیں، ایک فیکڑی لگاتے ہیں پھر اس فیکٹری کے سامان کی انشورنس کرواتے ہیں۔

پھر جب وہاں کوئی پراڈکٹ بنتی ہے مثلاََ اگر صابن کی فیکٹری ہے تو صابن کی قیمت میں یہ اپنے قرض کی رقم، اسکا سود، پھر انشورنس کی رقم، پھر اپنا منافع ڈال کے عام آدمی کی جیب سے سود بھی بھرواتے ہیں اور انشورنس بھی اور خود منافع لے کہ دفع ہو جاتے ہیں۔ جس سے پیسہ ایک غریب آدمی سے نکل کے امیر آدمی کی طرف جانا شروع ہو جاتا ہے جس سے امیر، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہو جاتا ہے۔

اگر سود اور انشورنس نہ ہوتی اور بنانے والا اپنا جائز منافع لیتا صابن کی قیمت کتنی کم ہوتی آپ خود سوچیں۔ اور پھر کیونکہ قرض کا رسک بھی ہوتا ہے اس لیے اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کے لیے فلاپ ہونے سے بچانے کے لیے فحاشی پہ مبنی مارکیٹنگ کروائی جاتی ہے فاحشہ عورتوں کے اشتہارات ٹی وی اور سڑکوں پہ لگے بینرز پہ چلوائے جاتے ہیں اور پھر اس کا سارا خرچ بھی پراڈکٹ کی قیمت میں ڈال کے عوام ادا کرتی ہے۔

دیکھ لو اس سرمایہ دار نے بینکوں میں پڑے عوام کے پیسے سے عوام کو ہی لوٹا اور بینک نے سود کمایا اور انشورنس والوں نے بھی صرف عوام کے پیسے سے۔ اب دوسرا بینکوں سے قرضہ لینے والا کون ہے؟ یہ پاکستان کی گورنمنٹ ہے جو اپنے ہی ملک کے بینکوں سے سب سے زیادہ قرضہ لیتی ہے۔ اگر اس وقت پاکستان کا مجموعی قرضہ دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان نے تقریباََ ساٹھ فیصد تو اپنے ہی بینکوں کا قرضہ دینا ہے۔

جی ہاں ہم آئی ایم ایف کو روتے ہیں سب سے بڑے سود کے سوداگر تو ہمارے گھر کے اندر ہیں۔ کتنی عجیب اور خوفناک بات ہے نہ، ہم اپنا پیسہ بینکوں کو دیں اور بینک ہمارا پیسہ پھر ہماری ہی گورنمنٹ کو قرضہ دیں سود پہ اور اس سے بڑی بات ہماری حکومت میں جو سرکاری افسر ہیں جس کا جہاں جتنا بس چلتا ہے کرپشن کر جاتا ہے سیاسی جماعتیں علیحدہ سے مال کھا جاتی ہیں اسی قرضے سے عیش کرتے ہیں پروٹوکول لیتے ہیں۔

عوام پہ لگاتے نہیں ہیں اگر لگاتے بھی ہیں تو بہت کم اور جب قرضہ واپس کرنا ہوتا ہے تو اسی غریب عوام پہ ظالمانہ ٹیکس لگاتے ہیں اور بینکوں کا پیٹ بھرتے ہیں اور پیٹ اتنا بڑا ہے کہ نہیں بھر پا رہے فارمولا وہی یاد رکھیں فریکشنل ریزرو والا۔ ملک پہ قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے گھر کے محافظ ہی ہمیں لٹوا رہے ہیں۔

اب بات سمجھ آ گئی ہو گی کہ جب شرعی عدالت نے سود کو حرام قرار دیا تو بینک اور حکومت دونوں مل کر کیوں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف گئے؟ اس لیے صرف چار بینک کا بائیکاٹ نہ کریں بلکہ سارے بینکوں کا بائیکاٹ کریں چاہے اسلامی ہو یا دوسرے (کوئی اسلامی بینک نہیں سب فراڈ ہے ان کے راز پھر کبھی کھولوں گا) اور حکومت کا بھی۔

اب عام آدمی بینکوں کا بائیکاٹ کیسے کریں تو جان لو کہ بینکوں کی شہ رگ تو عام عوام کے ہاتھ ہے کیونکہ لوگ بینکوں میں پیسہ رکھیں گے تو ان کی سود کی دکان چلے گی نہ۔ میں آسان ترین حل دے رہا ہوں بینکوں کو لین دین کے لیے استعمال کرو پیسے بھیجو منگواؤ سارا کچھ کرو لیکن اپنے پیسے چاہے سیونگ اکاؤنٹ ہو یا کرنٹ۔ بینک میں پیسہ رہنے مت دو تمارا سو روپیہ بھی پڑا ہو گا بینک اس کے بھی نوے روپے سود پہ دے دے گا اور تم انجانے میں ان کے سود کمانے میں مددگار بن جاؤ گے۔

چھوڑو ان مولویوں کے فتوؤں کو یہ جدید دجالی نظام کو سمجھ ہی نہیں پائے ان کا زور بس پائنچے اوپر کروانے، صفیں ٹھیک کروانے، داڑھیاں رکھوانے اور سروں پہ ٹوپیاں رکھوانے پہ ہی چلتا ہے۔ اسلام جو نظام زندگی تھا اس سے بے خبر ہی رہے۔ مگر چند حق پرست اور شیطان کے ہتھکنڈوں پہ نظر رکھنے والے علماء اب بھی ہیں جن سے باطل کو اب بھی خطرہ ہے مگر زیادہ علماء دنیا کے کتے بن چکے ہیں جنہوں نے اسلام کو مسجد میں بند کر کے رکھ دیا ہے۔

سود کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی جنگ جاری ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس کے لشکر میں ہیں؟ ہمیں ہر طرح سے لڑنا ہے دل سے، زبان سے، اپنے عمل سے، اس باطل نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے چاہے جان بھی دینی پڑے۔ یہ ظلم کا نظام ہے غریب لٹ بھی رہا ہے پر کیونکہ یہ ذہنی غلام ہے اس لیے بزدل بھی ہے اس نظام کے خلاف بغاوت نہیں کر رہا۔

اب آپ خود سوچیں کیا عمران خان اس نظام کو ختم کر سکتا ہے؟ جبکہ وہ اسی نظام کے اندر رہ کہ اسے بدلنا چاہ رہا ہو بالکل نہیں۔ اگر ایک جہاز کو آپ مکہ مدینہ لے کے جانا چاہتے ہوں جبکہ اس کا ڈرائیور اور سارا عملہ یہودی ہو اس کے سارے محافظ یہودی ہوں تو کیا کبھی وہ جہاز مدینہ جا پائے گا؟ بالکل نہیں۔ اس کا صرف ایک حل ہے وہ ہے کہ سارے مسافر ان سے لڑیں اور جہاز کا کنٹرول خود سنبھالیں۔

کیا ہو گا کیا زیادہ سے زیادہ اس لڑائی میں وہ ہار جائیں گے نہ، مر جائیں گے نہ، تو مر جائیں لیکن جان لیں حق کبھی نہیں مرتا وہ اللہ کی بارگاہ میں کامیاب ہوں گے چاہے جیتیں یا ہاریں اور اس جنگ میں لڑنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار قرآن ہے۔ میں کئی بار بتا چکا ہوں کہ قرآن کوئی دو جلدوں کے لکھی کتاب نہیں ہے یہ وحی ہے یہ آپ کو ہر دور کے شیطانی ہتھکنڈوں اور چالوں سے روشناس کرواتی ہے اور اس سے نکلنے کی راہ بھی بتاتی ہے۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad