Kala Bazar
کالا بازار
بینکوں کا ہم نے صرف نام سنا ہے ورنہ جو گھناؤنا کام یہ کرتے ہیں اگر صحیح معنوں میں ہمیں پتا چل جائے تو روح کانپ جائے۔ ہمارے علاقے میں ایک کریانے کی دکان تھی اچھی چلتی تھی ہر وقت وہاں پہ رش رہتا تھا لیکن اتنا بھی نہیں ہوتا کہ ایسی دکانوں سے لوگ محل کھڑے کرنے شروع کر دیں اور دولت کی ریل پیل ہو جائے۔ وہ حقیقت تو تب پتہ چلی جب اس کی دکان پہ پولیس کا چھاپہ پڑا تو وہاں سے چرس اور ہیروئن کا بہت بڑا ذخیرہ برآمد ہوا، وہ شخص ہمارے علاقے اور آس پاس کے دیہات میں پتہ نہیں کتنی زندگیاں خراب کر چکا تھا۔
بینکوں کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ دیکھنے کو تو لین دین اور پیسے نکلوانے میں انہوں نے اپنی فیسیں رکھی ہوئیں ہیں یا جیسا عام لوگ جانتے ہیں کہ بینک سود پہ پیسے بھی دیتے ہیں۔ لوگوں یہ سب ظاہر ہے اس کا باطن بڑا بھیانک ہے، آپ ذرا پاکستان میں بینکوں کا لائف سٹائل تو دیکھیں ہم صرف پورے پاکستان میں لگی اے ٹی ایمز کو ہی دیکھ لیں، ہر اے ٹی ایم میں اے سی لگا ہوتا ہے اور پاکستان میں کم از کم پندرہ ہزار اے ٹی ایمز ہیں۔
آپ اندازہ تو کریں پندرہ ہزار اے سی چھ مہینے چوبیس گھنٹے چلیں تو کتنا بل آتا ہے؟ میرے اندازے کے مطابق تقریباََ ایک ارب کم از کم بنتا ہے، ابھی تو میں بینک کے اندر نہیں گیا صرف باہر لگی اے ٹی ایم کی بات کر رہا ہوں۔ سارے بینکوں کے دو اڑھائی لاکھ ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں ان کے پروٹوکول، ہر چھوٹے چھوٹے شہر میں عالیشان عمارتیں اور ان کے بل یہ تو صرف وہ ہے جو خرچ آتا ہے باقی جو منافع ہے وہ الگ، غرض یہ اربوں کھربوں اے ٹی ایم کی اور لین دین کی فیسوں سے تو پورا نہیں ہو سکتا۔
بینک بہت سے ایسے آپریشن کرتا ہے جو اسلام میں نہ صرف قطعاََ حرام ہیں بلکہ اسلام انہیں بزور طاقت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے گھناؤنے کاروبار کرنے والے ادارے کو دارالسلام میں ختم کر دینا چاہیئے۔ ایسا نہیں بینک بہت سے کام ایسے بھی کرتا ہے جو ہمارے لیے بڑے فائدہ مند ہیں اور ہماری زندگی بھی آسان ہو گئی ہے۔ اب پیسے کا دور دراز مقامات سے لین دین بہت آسان ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے ممالک سے چیزیں منگوانے یا بھیجنے میں بینک بہت سے کام سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اس دنیا کی رفتار کے ساتھ چلنا ہے تو بینک ہمارے لیے بہت ضروری ہیں بلکہ ان کو اور بہت سارے اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے زکٰوۃ کی وصولی اور ادائیگی بڑے مؤثر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے ہم اس ادارے سے بے تحاشہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اس کے ناجائز کام کو بھی جائز مان لیں۔ ایک بات جان لیں بینک کبھی رسک والا کام نہیں کرتے یہ ہمیشہ پیسہ وہاں انویسٹ کرتے ہیں جہاں منافع کے ساتھ اصل رقم بھی مل جائے یا اگر زیادہ سے زیادہ کوئی قدرتی حادثہ بھی ہو تو یہ اصل رقم پھر بھی لے لیتے ہیں۔ اب آتے ہیں منافع کی طرف بینک سب سے زیادہ منافع فریکشنل ریزرو بینکنگ سے کماتا ہے بینک کا یہ طریقہ سمجھنا بڑا آسان ہے۔
ہر سال ملک کا بڑا بینک ایک کیش ریزرو کا تناسب جاری کرتا ہے جس طرح ہمارا اسٹیٹ بینک ہے۔ جس کی پچھلے سال کا تناسب دس فیصد تھا۔ اب ہوتا کیا ہے پاکستان کے سارے بینک جتنا پیسہ لوگوں نے ان کے پاس جمع کروایا ہے چاہے کرنٹ ہو یا سیونگ اس کا دس فیصد اپنے پاس رکھیں گے باقی نوے فیصد سود پہ ادھار دے دیں گے۔ مطلب اگر بینک کے پاس ٹوٹل ایک کروڑ ہے تو نوے لاکھ سود پہ دے سکتے ہیں۔
یہ بینکوں کا سالہا سال سے تجربہ ہے اور ہر سال پیسے کے لین دین سے اندازہ کرتے ہیں کہ اگر ایک بینک میں ایک سو بندوں کا ایک ایک لاکھ ہے تو وہ ایک ہی دن میں سارے بندے اپنے سارے پیسے نکلوانے نہیں آتے بلکہ زیادہ سے زیادہ دس آ سکتے ہیں۔ اگر سارے آ جائیں تو بینک ڈیفالٹ کر جاتا ہے جو کئی بار ہو چکا ہے لیکن اب تھوڑا مشکل ہے کیونکہ ان چھوٹے بینکوں کے پیچھے بڑا اسٹیٹ بینک ہے جو فوراََ نوٹ چھاپ کے بحران کو وقتی طور پہ ٹال دے گا۔
اب دیکھیں بینک کے سود پہ نوے لاکھ کسی کو قرض دینے سے ہوا کیا؟ اگر میرا ایک کروڑ جمع تھا تو انہوں نے ایک شہری کو جب نوے لاکھ قرض دیا تو مارکیٹ میں ایک کروڑ نوے لاکھ آ گئے۔ جس بندے نے نوے لاکھ قرض لیا ہے ظاہر اب وہ اسے خرچ کرے گا اگر مکان بنا رہا ہے تو مزدوروں کو تنخواہیں دینا، مٹیریل خریدنا اور باقی بل ادا کرنا تو یہ نوے لاکھ میں زیادہ نہیں تو کم از کم پچاس لاکھ تو واپس بینکوں میں چلا جاتا ہے۔
اگر حبیب بینک سے قرضہ لیا تھا تو جب خرچ کیا تو کچھ میزان بینک میں کسی نے جمع کروا دیا تو کسی نے الفلاح میں، مثلاََ کسی مزدور نے اپنی تنخواہ جمع کروا دی۔ ایک اور بات پاکستان کے سارے بینک دن کے آخر میں اپنا کیش کا سارا حساب اکٹھا کرتے ہیں ان کے آپس میں بھی بڑے لین دین ہوتے ہیں ان کو پتا ہوتا ہے کہ آج کے دن سارے بینکوں سےٹوٹل کتنا پیسہ نکلا اور کتنا جمع ہوا؟
اگر ہم آئیڈیل کیس لیں کہ سارا نوے لاکھ مختلف بینکوں میں واپس چلا گیا تو اب یہ سارے بینک جن کے پاس نوے لاکھ میں سے جتنا جمع ہوا اسکا دس فیصد اپنے پاس رکھیں گے باقی سود پہ دے دیں گے۔ اگر الفلاح کے پاس نوے میں سے بیس لاکھ آیا تو وہ اسکا دس فیصد اپنے پاس رکھے گا اور باقی قرض دے گا باقی بینک بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
اسکا ایک فارمولا ہے۔
Deposit Multiple = 1 / Reserve Ratio
اگر تناسب دس فیصد ہے۔
Deposit Multiple = 1 /.1
تو اس کا جواب 10 آتا ہے اب دس کو ضرب دیں ٹوٹل ڈیپازٹ سے جو اگر ایک کروڑ ہے تو دس سے ضرب دینے سے وہ دس کروڑ ہو جائے گا مطلب ایک بینک کے پاس اگر ایک کروڑ کیش جمع ہو وہ تو دس کروڑ کا قرضہ دے سکتا ہے اور اس پہ سود کم از کم اگر دس فیصد بھی ہو تو ایک بینک ایک کروڑ سے ایک کروڑ ہی سود کما لیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ایک ملک کے لوگ سارا لین دین اور اپنا پیسہ بینکوں ہی میں رکھیں۔
پاکستان میں چونکہ لوگ کچھ پیسہ اپنے پاس رکھتے ہیں کہیں ویسے ہی گھروں میں رکھنے کا رواج ہے تو پاکستان میں اس حساب سے ایک کروڑ نہ سہی پچاس ساٹھ لاکھ تو کماے ہی جاتے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں آج کل یہ جو ڈیجیٹل بینکنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ کیش سارا بینک کے پاس رہے اور لوگ آن لائن ہی لین دین کرتے رہیں۔ عام عوام اس کو آسانی اور فیشن سمجھتے ہیں جبکہ بینک کے لیے سود میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
یہ ہے وہ کالا دھندہ جو بینک کرتے ہیں۔ کیا ایک کروڑ پہ اتنا منافع کوئی چھوٹی بات ہے اور پیسہ بھی جب اپنا نہ ہو۔ کیا حلال کاروبار سے ایسے اتنا پیسہ کمایا جا سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ اب اگلی بات، بینکوں سے اتنا قرضہ کون لیتا ہے، پھر اتنا سود کون ادا کرتا ہے؟ کیونکہ عام عوام کو تو بینک ویسے ہی قرضہ بڑی ضمانتوں کے بعد دیتے ہیں اور اس دجالی نظام سے جان چھڑانے کا حل کیا ہے؟ اس پہ اگلی قسط میں بات کریں گے۔