Insan Ka Maqsad e Hayat
انسان کا مقصد حیات
جس قوم میں ہر ماں کا خواب ہو کہ اسکا بچہ بڑا ہوکہ ڈاکٹر بنے، انجینیٔر بنے، کوئی جج بن جائے، کسی بڑے سرکاری عہدے پہ چلا جائے یا اپنا کوئی بڑا کاروبار کر لے تاکہ پیسے کی ریل پیل ہوجائے اس قوم میں صحت کی حالت، انفراسٹرکچر کی حالت، انصاف کی حالت، کرپشن اور غربت دیکھ کہ یقین نہیں آتا کہ اتنی محنت کا ایسا برا نتیجہ کیوں کم از کم دین نہ سہی ہمیں دنیاوی لحاظ سے تو خوشحال ضرور ہونا چاہیٔے تھا۔
ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں کیا ہم واقعی انسانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ہر وقت پیسے کی دوڑ میں بھاگم بھاگ ہے کہ ہمارا کوئی مستقبل بن جائے ہمارے بچوں کی زندگی آنے والی زندگی سنور جائے حالانکہ واضح نظر آتا ہے کہ اگر آج ہمیں ایک چھوٹا سا گھر بنانے کے لیے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے اور کئی سالوں کی محنت مزدوری کرکے تھوڑی جمع پونجی حاصل ہوتی ہے تو ہماری نسلیں شاید یہ بھی نہ کرپائیں۔
ہم سب سے زیادہ یورپ امریکہ کی خوشحالی سے مرعوب ہیں اچھے خاصے معقول لوگ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ یورپ کے لوگوں نے بس کلمہ توحید نہیں پڑھا ورنہ اسلام کے اصول تو سارے انہوں نے اپنائے ہوئے ہیں مطلب ہماری ذہنی پسماندگی کی بھی کوئی حد دیکھے۔ میں کہتا ہوں کبھی ہمارے جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان میں وڈیرہ سسٹم کا کسی کو تجربہ ہوا ہو تو ان وڈیروں نے کئی کئی گاوں اب بھی غلام بنا کہ رکھے ہوئے ہیں لیکن اگر ان کا گھر دیکھو تو ان کے بچے بڑے خوبصورت نظر آئیں گے، صحت کا معیار بھی کمال ہوگا، انکے محلوں اور ان کی طرف جانے والے راستوں کی خوبصورتی کی بات ہی مت پوچھو اور ان کلاس کے لوگوں کا اٹھن بیٹھن بھی بڑا شائستہ ہوگا تعلیم بھی اچھے اداروں سے لیں گےیہ زندگی کا لائف سٹائل کیا ہے!
یہ سب کچھ غریبوں کے خون پہ کھڑے ہوکہ ملتا ہے بیچارے غریب کی حسرت ہی رہتی کہ کاش ہمیں بھی یہ زندگی کا رنگ مل جائے۔ یہ وہ مثال دے رہا ہوں جس کی وضاحت ہمارے پاکستان میں تو دینے کی ضرورت ہی نہیں اتنی واضح ہے یہ لوگوں کی سطح پہ تھا قوموں کی سطح پہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ پچھلی تقریبا دو صدیوں میں امریکہ اور یورپ نے ایشیا اور افریقہ کے انسانوں کا جتنا خون بہایا ہے اسکا اندازہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے جو بدترین غلامی غریب ملک کے لوگوں نے ان سے جھیلی ہے اسکی کوئی حد نہیں اور ابھی تک جاری ہے۔
افریقہ اور ایشیا کے مسلمانوں کے خون پہ ان کی معیشت کھڑی ہے کیسے ہوسکتا ہے ایک قوم اتنی مہذب ہو اور پھر وہ لوگوں پہ ظلم بھی کررہی ہو اگر یورپ اتنا مہذب ہے تو یہ نیٹو جو ملکوں کو تاراج کرتی ہے اسے فنڈز کون دیتا ہے نیٹو کی فوجی کہاں سے آتے ہیں کیا آسمان سے اترتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اگر ہمیں کوئی قوم بننا ہے اگر واقعی ہمیں ترقی چاہیٔے اگر واقعی ہم اپنی نسلوں کو آباد دیکھنا چاہتے ہیں اگر ہم دنیا اور آخرت بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دیکھنا ہوگا ک کیا ہم انسانوں کے ہی راستے پہ چل رہے ہیں اور ہمارا زندگی کا مقصد ٹھیک ہے یا پھر گمان پہ اور دوسروں کی دیکھا دیکھی زندگی گزار رہے ہیں۔
انسان کو اسکی زندگی کا مقصد اگر سب سے بہترین طریقے سے کوئی بتا سکتا ہے تو وہ اسکا خالق ہی ہے یعنی اللہ اگر انسان اسکو واقعی اپنا رب مانے تو! سب سے شکر والی بات یہ ہے کہ وہ پیارا اللہ فرماتا ہے کہ ہدایت کا راستہ دکھانا میری ذمہ داری ہے "بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے"(الیل، 12)۔
"اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا"(النحل، 9)
اب جبکہ اللہ پاک نے ہدایت دینا اپنی ذمہ داری قرار دیا ہے تو پھر ہم مسلمان کہلوا کہ بھی، اللہ اللہ کرنے کے باوجود بھی کیوں دنیا کی ذلالت اٹھا رہے ہیں ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں اور دوسرا ہم مسلمانوں کی سب بڑی غلط فہمی ہے کہ ہم مسلمان ہیں تو ہمیں اسلام کا بھی پتا ہے جب کہ اللہ کا فرمان ہے کہ "اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے" (العنکبوت، 69)
مطلب اگر انسان نیک نیتی کے ساتھ حق راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے گا تو چاہے مسلمان ہو یا مشرک اللہ کبھی اسے ناکام نہیں کرے گا اللہ اس کو توحید کی راہ ضرور دکھا دے گا، لیکن ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ ہمارے علماء ہمیں منبر ومحراب سے صرف کہانیاں سنا رہے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنے نبیﷺ کی محبوب امت ہیں تو ہماری جنت کے لیے سفارش بھی ہوجائے گی ہم دنیا میں جو مرضی من مانیاں کرتے پھریں لیکن ہمارا نام مسلمانوں والا ہے اس لیے اسلام پہ حق بھی ہمارا ہے اگر اس طرح کا اسلام ہمارے پیارے نبیﷺ کفار مکہ کو پیش کرتے تو وہ بھی فورا اسلام قبول کر لیتے۔
کہ کیا ہے حضور کو نبی ہی ماننا ہے اور زندگی تو ویسے ہی اپنی مرضی کی گزارنی ہے۔ ایسا نہیں وہ بھی جانتے تھے کہ کلمہ توحید پڑھنے کا مطلب ہے زندگی کا ہر کام میں اللہ کی مرضی اور حکم ماننا۔ اور ایک اور بات یہ زمین بھی تو اللہ ہی کی ہے اللہ کا تو وعدہ ہے جو اس کی راہ پہ چلے گا اس کی دنیا آخرت دونوں سنور جائیں گے۔ اگر دنیا میں ہمارا یہ حال ہے تو آخرت کی کیا گارنٹی ہے اصل میں ہم نے اللہ کو اپنا حاکم، اپنا مالک مان لیا ہے اب مسلمان صرف ترقی تب کرے گا جب اپنے مالک کے حکم پہ چلے گا، اگر دیگر قومیں آج ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں تو انہوں نے اللہ کو اپنا مالک بھی تو نہیں مانا وہ منافقت نہیں کررہے وہ تو کہتے ہیں یہ زندگی ہماری ہے اور ہم اسے اپنے اصول کے مطابق گزاریں گے۔
اب دنیا ہی ان کی زندگی ہے چاہے اللہ ان کو سب کچھ دے دے چاہے کچھ بھی نہ دے لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے جبکہ ہم کہتے ہیں ہم غلام اللہ کے ہیں جبکہ مرضی ہماری۔ یہی منافقت ہمیں ذلیل کروا رہی ہے ہمیں یہ روش ترک کرنی ہوگی اور ہمارا مالک ہم سے کیا چاہتا ہے وہ قرآن سے پتہ چلے گاتو آو مسلمانوں اُٹھاؤ قرآن اور دیکھو اللہ نے انسان کو اسکی زندگی کا مقصد کیا بتایا ہے۔