Saturday, 28 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Akram
  4. Establishment Main Pehla Bigar Kese Aya

Establishment Main Pehla Bigar Kese Aya

اسٹیبلشمنٹ میں پہلا بگاڑ کیسے آیا

ہم نے پچھلی پانچ اقساط میں سمجھا ہے کہ یورپ کی تہذیب اور افکار کیسے کمزور بنیادوں پہ کھڑے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آنکھیں بند کرکے پیچھے بھاگنے کی بجائے اسے انصاف کے تقاضوں پہ پرکھیں۔ زمین پہ انسان کی سب سے اہم ضرورت اپنے اجتماعی سیاسی نظام کو سمجھنا ہے اور کسی کو اپنے اجتماعی حقوق غصب کرنے سے باز رکھنا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے اس حق کی طرف سے انتہائی کوتاہی برت رہے ہیں جس کی وجہ سے انکا اجتماعی نظام اتنا بگڑ چکا ہے کہ اب انفرادی زندگی گزارنا بھی اجیرن ہوچکا ہے۔ زمین پہ ہر وقت طاقتور گروہ اپنے اپنے اقتدار کے حصول کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور عام عوام کیونکہ اجتماعی نظام کے اصولوں سے ناواقف ہوتی ہے اسلیے کسی نہ کسی طبقے کی پراکسی کا شکار ہوجاتی ہے۔ تو آئیے ہم اس اجتماعی نظام کی دنیا میں کیا کیا اشکال رہی ہیں، مطالعہ کرتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ایک فرد واحد یا مخصوص طبقہ ہوتا ہے۔ جو زمین کے کسی محدود حصے پر طاقت کے ذریعے قبضہ کرتا ہے اور طاقت ہی کے ذریعے اپنا قبضہ برقرار رکھتا ہے۔ زمین کی جتنی حدود میں اسکا اقتدار ہوتا ہے وہاں کیا نظریہ چلے گا۔ کن لوگوں کو غلام بنایا جائے گا، کن کو آزاد رکھنا ہے اور کتنا آزاد رکھنا ہے یہ سب اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے۔ ابھی ہم دنیا کے سیاسی نظام کی بات کرتے ہیں پھر ہم اسی نظام کا اطلاق پاکستان کے نظام پہ بھی کریں گے موضوع کی طرف آتے ہیں۔

تاریخ انسانی میں یہ اسٹیبلشمنٹ چاہے جیسے بھی وجود میں آتی ہے مگر اسکا انجام یہی ہوتا ہے کہ زمین پہ اقتدار انکی ذاتی ملکیت بن جاتا ہے اور عام عوام انکی غلام، لوگوں کی جان مال اور عزت بادشاہی طبقے کے رحم و کرم پہ ہوتی ہے، سارے قوانین کا اطلاق صرف عام عوام پہ ہوتا ہے، ریاست میں قحط یا غربت کے حالات بھی عام عوام برداشت کرتی۔ لیکن اشرافیہ کا کام صرف عیش کرنا ہوتا ہے۔ ایسے افراد یا طبقے کو تاریخ میں بادشاہت، ملوکیت یا اسی طرح کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

کسی بھی ریاست میں ایک مضبوط اسٹیبلشمنٹ تو ہونی چاہیئے اسلام اس اصول کو تو مانتا ہے کیونکہ اجتماعی نظام کوچلانے کے لیے ہر ریاست کا ایک مرکز تو ضرور ہوتا ہے مگر ریاست میں کوئی کسی کو معاشی، ذہنی یا سیاسی غرض کسی بھی شکل میں غلامی کی بیڑیوں میں نہیں جکڑ سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ اقتدار کو اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے دی گئی امانت سمجھ کہ نبھائے گی عام عوام اور خود کو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلائے گی دوسری طرف اسلام عام عوام کو مکمل سیاسی شعور دیتا ہے کہ اگر تمہاری اسٹیبلشمنٹ اسلامی اصولوں سے پھرے تو اسے راہ راست پہ لانے کی مکمل جدوجہد کریں چاہے اس کے لیے جان ہی دینی پڑے۔

اب ہم تاریخ سے دیکھتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کیسے وجود میں آتی رہی اس میں بگاڑ کیسے آتا رہا اور اسلام کی اسکے ساتھ جنگ کیوں جاری رہی۔ حضرت آدمؑ کی اولاد جیسے جیسے زمین پہ بڑھتی گئی ویسے ویسے ہی برادری اور رشتہ داری کی بنیاد پہ قبیلے وجود میں آنے لگے یہ قبائل وسائل کے لیے زمین پہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے تھے جہاں کھانے پینے کے اور رہنے کے لیے زمین موزوں ملی وہیں قیام کرلیتے تھے۔ اب ہوا یوں کہ کوئی قبیلہ زمین کے ایک حصے پہ آباد ہوا تو دوسرا کسی اور جگہ پہ۔ مثال کے طور پہ ایک قبیلہ ایک ایسی جگہ آباد ہوا۔ جہاں دریا نزدیک تھا ایک وقت میں شاید وہاں رہنا مشکل ہوتا مگر وہاں ہریالی ہونے لگی بارشیں بھی ہونے لگیں تو نتیجہ یہ ہوا وہاں فصیلیں زیادہ ہونے لگیں اور اس جگہ پہ رزق کی فراوانی ہونے لگی تو دوسرے قبیلے والوں نے سوچا کہ کس طرح جگہ کو ہتھیا لیا جائے تاکہ یہ وسائل ہمارے پاس آجائیں۔ اس طرح جنگ شروع ہوئی وسائل کے حصول کی جو تادم تحریر جاری ہے۔

اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے کہیں مل جل کے ہی وسائل کو بانٹ لیا گیا، تو کہیں طاقت کے ناجائز استعمال سے کوئی قبیلہ طاقت پکڑتا تو وہ باقی قبیلوں کے وسائل پہ قبضہ جما لیتا اور کوئی شخص طاقتور اور چالاک ہوتا تو وہ پورے قبیلے کا بڑا بن بیٹھتا اس طرح لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اگر زمین پہ زیادہ اختیار چاہیےتو طاقت حاصل کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل پہ قبضہ جمایا جاسکے۔ اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ زمین پہ دو طبقات واضح ہوتے گئے ایک طرف اشرافیہ جو لوگوں کے اجتماعی معاملات چلاتی تھی اور دوسری طرف عام عوام۔ اشرافیہ جو طاقت کے بل بوتے پہ قائم ہوئی تھی اس میں اور عام عوام میں ایک واضح فرق بڑھتا چلاگیا۔

اشرافیہ کے پاس وسائل کی فراوانی ہوئی تو انکی عیاشیاں بڑھنے لگیں، انکا کلچر، انکے طور طریقے، رہن سہن عام عوام سے یکسر مختلف ہوتے گئے۔ جب نفس پرستی بڑھی تو دین کی حدوں پہ عمل کرنا مشکل ہوگیا۔ اس مشکل کا حل نکالنے کے لیے دین کے مفاد پرست علماء کا طبقہ وجود میں آگیا جن کی مدد سےوہ دین کی حدود کو اپنے اپنے حساب سے نرم کرتے گئے اور ایک وقت آیا کہ دین عمل سے نکل کر چند عقیدوں کی شکل اختیار کرگیا کیونکہ طاقت اور اختیار انکے ہاتھ تھا تو وہ سمجھے کہ دیکھو یہ طاقت اور اختیار اللہ نے ہی ہمیں دیا ہے اس کا مطلب اللہ چاہتا ہے کہ ہم زمین پہ اپنا اقتدار جاری کریں اب ہم ہی زمین پہ مالک ہیں ہم جو بھی قانون بنائیں گے معاشرہ انہی خطوط پہ چلے گا دوسری طرف شیطان بھی پورے زور سے انسانوں کو گمراہ کرنے کے مشن پہ گامزن تھا تو نتیجہ یہ ہوا کہ اشرافیہ زمین پہ مالک بن بیٹھی اور کمزور عوام محکوم بن گئی۔

یہاں ایک اور بات سمجھ لیں کہ انسان کو ہمیشہ دو طرح کی ضرورتوں سے واسطہ پڑتا ہے ایک ضرورت کا تعلق اسباب سے ہے یعنی اپنی جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آپکو مال چاہیے، وسائل چائییں جو زمین پہ اللہ نے بکھیر دیے ہیں یہ ایسے نہیں کہ ہر انسان کو برابر دے دیے ہیں بلکہ اس میں ایک فرق رکھا گیا لیکن یہ فرق زبردستی نہیں رکھا بلکہ اللہ کا منشا تو یہ ہے کہ ہر انسان کو برابر مواقع ملیں کوئی بھی شخص اخلاقی حدود توڑے بغیر امیر بن سکے لیکن پھر بھی ہر انسان برابر تو نہیں ہوسکتا ہرمعاملے میں۔ جیسے ارشاد باری تعالی ہے "دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں"۔ (الزخرف۔ 32)

یہ تقسیم اس لیے اللہ نے رکھی ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے نہ کہ دار الجزا اس لیے کسی کو بہت زیادہ دے کر آزمایا جا رہا ہے اور کسی کو بہت کم کسی کو بہت خوشی اور کسی کو غمی دے کر آزمایا جا رہا ہے۔ اگر سارے وسائل برابر تقسیم کردیے جاتے تو آپ خود سوچیں کیا دنیا کا نظام چل سکتا تھا بالکل بھی نہیں۔ جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے"اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے"(البقرہ، 155)

لیکن ایسا بھی نہیں جن کو اللہ نے بہت مال دے دیا تو وہ اسکے مالک بن گئے اصل میں انکو اس مال میں تصرف کے حقوق دیے ہیں۔ اللہ پاک نے پابند کردیا ہے تم اس کو اپنی مرضی سے جہاں چاہو خرچ نہیں کرسکتے بلکہ یہ امانت ہے تمہارے پاس اور اللہ کو مقرر حدوں کے اندر ہی خرچ کرنا ہے اگر من مرضی کروگے تو حساب کے وقت پکڑے جاو گے کیونکہ مالک تو اصل میں، میں خود ہوں جیسے کہ قرآن میں ہے "آخرکار ہم ہی زمین اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے" (مریم، 40)

تو یہ پہلا بگاڑ پیدا ہوا قوموں میں کہ اس امانت کو ملکیت سمجھ لیا اور نفس کی خوشنودی کے لیے اپنی مرضی کرنے لگے اور جن حقدار لوگوں کے حقوق تھے وہ پورے نہ کیے نہ صرف اپنے مال کے ساتھ ایسا کیا بلکہ طاقت کے زور پہ دوسروں کے مال پہ بھی ناجائز قبضہ جمانے لگے اور زمینی وسائل کے خود ہی خدا بن بیٹھے۔

یہ تو انسان کی پہلی ضرورت میں ناانصافی تھی، جبکہ دوسری ضرورت کا تعلق اسباب سے نہیں بلکہ مسب الاسباب سے ہے یعنی براہ راست اس ذات پاک سے جو اسباب کا پیدا کرنے والا ہے۔ جس سے انسان دعا کرتا ہے کہ وہ انسانی ضرورت کے اسباب پیدا کرے اب جس انسان کو جن جن اسباب کی ضروت ہے وہ انہی کی دعا اللہ سے کرے گا۔

جیسے ہم لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں ہم کوئی کام کرتے ہے تو ہمیں خدشہ ہوتا ہے کہ اس میں کہیں کوئی نقصان نہ ہوجائے اس طرح کئی طرح کے غم اور تکلیفیں ہیں جن کے لیے انسان کو اللہ کی ذات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے کہ اے رب میں بیمار ہوں تو میری تندرستی کے اسباب پیدا کر، یا میری یہ یہ تکلیفیں ہیں انکو غیب سے ہی کوئی اسباب پیدا کرکے دور کردے یا میرا مال راستے میں ہے تو مجھے خدشہ ہے کوئی لوٹ نہ لے تو اسباب پیدا کر کہ بحفاظت میرا مال میرے تک پہنچ جائے یا میں نے کوئی کاروبار شروع کیا ہے اتنا پیسہ لگایا یہ نہ ہو کہ یہ چلے ہی نہ۔ تو غیب سے ایسے اسباب پیدا کر کہ لوگ میرا ہی مال خریدیں۔

اسلام ان ساری التجاوں کو اللہ سے دعا مانگنے کا نام دیتا ہے۔ یہ وہ ضرورت ہے جس کے محتاج اشرافیہ اور عام عوام دونوں ہی ہیں۔ حتی کے بادشاہ بھی جب جنگ کے لیے نکلتے ہیں تو باوجود تمام تیاریوں کے اپنے اپنے خداوں کو چڑھاوے چڑھاتے ہیں اپنے خداوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جنگ انکو ہی فتح دلوائیں۔ انسان کی اس ضرورت یا اس دعا میں کیسے ناانصافی کی گئی، کیسے ایک طبقہ وجود میں آیا اور لوگوں کو اس ضرورت میں اپنا غلام بنا لیا۔ یہ ہم اگلے کالم میں انشاء اللہ سمجھیں گے۔

Check Also

Apne Shauq Ko Mat Marne Dein

By Asad Ali