Atheist Ki Apny Khuda Se Mohabbat
ایتھیسٹ کی اپنے خدا سے محبت
بادشاہت، جمہوریت اور اسلام دنیا کی تین اسٹیبلشمنٹ ہیں باقی فاشزم ہو یا ڈکٹیٹرشپ یہ ساری بادشاہی نظام کی ہی شکلیں ہیں۔ جمہوریت کی بھی بہت ساری شکلیں ہیں تو یہ پھر بھی کسی نہ کسی حالت میں دنیا میں نافذ ہیں۔ مگر اسلامی نظام اب کتابوں میں ہی بند ہے۔ ہم دنیا اور بالخصوص پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام پہ بات ضرور کریں گے مگر مسلئہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل تو آنکھیں بند کرکے یورپی تہذیب پہ ایمان لا چکی ہے۔ پہلے تو اس نسل کو یہ باور کروانا ہے کہ یہ سائنس کا دور ہے یہ لاجک کا دور(Age of Reason) ہے۔ اگر یورپین ہر چیز کو عقل کے پیمانے پہ سمجھنے کا دعوی کرتے ہیں۔
تو تم کیوں اندھادھند انکی تقلید کررہے ہو۔ تم کیوں نہیں Critical Reasoning کرتے۔ اپنے ان جدت پسند مسلمان بھائیوں کو بتانا ہے۔ کہ جناب اپنے اذہان اس بات پہ تیار تو کریں کہ ہاں یورپ کی ہر بات ٹھیک نہیں۔ ہم اسے انصاف کے ساتھ عقل کی کسوٹی پہ پرکھیں گے اگر ہماری نوجوان نسلیں تبدیلی کے لیے تیار ہوں گی۔ تو بات آگے بڑھے گی ورنہ میں کہتا رہوں گا فلاں فلاں نظام بہت اچھا ہے یا جمہوریت بہت اچھی ہے۔ تو فرق کیا پڑنا بس یہ کہ ان میں سے کسی نظام کے حامیوں کو ایک اور حمایت میسر ہوجائے گی۔
زمین پہ زندگی کا آغاز حضرت آدم سے ہوتا ہے لیکن ایک ملحد (Atheist) جو خدا کو مانتا ہی نہیں وہ کسی مسلمان کے اس دعوی پہ کیسے اعتبار کرے گا۔ تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کا عقیدہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ اگر دنیا کی تاریخ پہ اور موجودہ حالات پہ نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا مجموعی طور پہ ہر قوم میں خدا کا تصور تو رہا ہے۔ مسلمان ہوں، ہندو ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، بدھ مت ہو یا سکھ یہاں تک کہ آج کے ملحدوں (Atheists) کے آباواجداد بھی کسی نہ کسی شکل خدا کا تصور رکھتے تھے۔
اگر ماضی کی بات کریں تو دنیا کی قدیم تہذیبوں میں میسوپوٹیمیا کی تہذیب ہو یا مصر کی، ایرانیوں کی تہذیب ہو یا یونانیوں کے چھوٹے چھوٹے دیوتا۔ ان چھوٹے چھوٹے دیوتاوں کے ساتھ ایک بڑے دیوتا کا تصور موجود رہا ہے۔ نہیں یقین تو تھوڑی زحمت کرکے انسانی تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں۔ اب خدا کے بارے میں عقیدہ ٹھیک تھا یا غلط یہ تو بعد کی بات ہے، عقیدہ تو آخر تھا نہ اب اگر کوئی شخص کہتا ہے یہ کائنات کسی خدا نے نہیں بنائی بلکہ یہ مادہ کی حقیقت (Material Reality) ہے۔ یہ کائینات خود بخود وجود میں آئی ہے اور اس میں عمل ارتقاء جاری ہے اور انسان بھی اسی عمل ارتقاء کی شکل میں وجود میں آیا ہے۔
تو میں کہوں گا بھائی کوئی ثبوت لاؤ اگر تمہارا دعوی سائنسی ہے تو سائینس کی تو بنیاد ہی مشاہدے کے اوپر ہے۔ لاؤ کوئی ثبوت کہ کائینات خود بخود وجود میں آئی ہے اور انسان نے بندر سے عمل ارتقاء کے ذریعے موجودہ شکل اختیار کی ہے۔ عمل ارتقاء کو تو ہم مانتے ہیں لیکن کسی جاندار کی جنس ہی بدل جائے یہ بہت بڑا دعوی ہے جس کے ثبوت میں ڈارون کے پاس صرف قیاس ہے کہ ایسا ہوا ہوگا۔ اگر قیاس ہی ثبوت ہے تو میرا قیاس ایک ملحد(Atheist) کے قیاس سے زیادہ جاندار ہے۔ دنیا کی نوے فیصد آبادی کسی نہ کسی خدا کو بھی مانتی ہے اور جبکہ میرے پاس تو پوری انسانی تاریخ بھی گواہ ہے
اگر ان مذاہب کے پیشواوں کی بات کریں تو ہندووں کے رام(ان کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ رام یا نبی تھے یا پھر اللہ کے نیک بندے) ہوں یا یہودیوں کے موسیؑ، عیسائیوں کے عیسیؑ ہوں یا مسلمانوں کے حضرت محمدﷺ، ہر قوم اپنے انبیاء یا پیشواؤں کے اخلاقی اقدار کی معترف ہے۔ جو اخلاقی اصول انہوں نے قوموں کو دیے کوئی ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔ سب سے بڑی بات انہوں نے اپنی زندگیوں میں تکلیفیں برداشت کرکے قوموں کی رہنمائی کی جبکہ دنیا میں انکی بادشاہتوں یا انکی نسلوں کی کسی ایمپائر کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں۔ تو آخر اگر مر کے مٹی ہی ہونا تھا پھر اتنے بےغرض ہو کر کسی کا بھلا کرنے کی کیا ضرورت تھی وہ بھی تکلیفیں اٹھا کہ۔ یہ تو خدا کی موجودگی کا تاریخ سے جواب ہے۔ اب اگر اس کائینات کی بناوٹ پہ غور کریں تو زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ کسی نہ کسی طور پہ خالق کا تصور دیتا ہے۔
بات کرتے ہیں ہم جنس پرستی کی۔ ملحد(Atheist) کہتے ہیں کیا مسلئہ ہے کہ اگر مرد کسی مرد سے اور عورت کسی عورت سے لطف اندوز ہو۔ جبکہ خداوں کو ماننے والی قوموں کے مطابق انکے مذہب میں یہ فعل انتہائی ملامت زدہ ہے خدا سخت خلاف ہے اس فعل کے۔
اب اگر ملحدوں ((Atheists) کی بات مان لی جائے اور لوگوں کو اس فعل کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تو ہوگا کیا زیادہ سے زیادہ ایک سو سال بعد زمین پہ انسانی زندگی ہی ختم ہوجائے گی۔ یہ ایسا فضول نظریہ ہے جس کو جتنا کھولتے جائیں اس کے اتنے ہی مفاسد ظاہر ہوتے جائیں گے۔
یعنی وہ کائنات جو ملحدوں کے بقول خود بخود وجود میں آئی تھی اس میں ایک انتہائی متحرک نسل جو کائنات کے رازوں کو ٹٹول رہی تھی۔ اس نے خود اپنے ہاتھوں ہی سے خود کشی کر لی اور زمین سے ہی ناپید ہوگئی۔
اگر ان کا یہی مقصد ہے تو کمیونزم کی تحریک کارل مارکس کو اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک ایتھیسٹ مارکس جس کی تاریخی مادیت (Historical Materialism) کی تھیوری کے مطابق انسانی تہذیب ترقی اور بہتری کی طرف گامزن ہے ظلم سے انصاف کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ ترقی ہو رہی ہے کہ وہ اپنا وجود ہی ختم کردے۔
ہر مذہب کے ماننے والوں کے کچھ اخلاقی قوانین ہیں کیا خدا کے وجود سے منکر یہ ملحد بتا سکتے ہیں ان کے پاس انسانوں کے لیے کون سے اخلاقی اصول ہیں۔
یہ سائنس کا دور ہے یہ لاجک کی دنیا ہے (Age of Reason) ہے تو آپ جبکہ باتیں سائنس کی کرتے ہیں لیکن عمل میں اندھی تقلید اور نفس پرستی کی عینک پہن رکھی ہے۔ جو مسلئہ درپیش آئے مذہب کے کھاتے ڈال کر خدا کو تختہ مشق بناڈالو۔ اگر کھلے دل کے ساتھ سارے مذاہب کو سمجھا جاتا تو کوئی وجہ نہیں کہ آپکو پتہ نہ چلتا کہ مذہبی طبقے نے کتنی باتیں خدا سے منسوب کرکے جاری کر رکھی ہیں۔ لوگ کیسے مذہب کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ انسان کو خدا نے دنیا میں بھیجا کیوں ہے آخر خدا خود کیوں غیب کے پردے میں ہے کیا یہ باتیں ہم نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
میں یہ باتیں کسی اور کالم میں تفصیل سے بیان بھی کروں گا۔ لیکن میں نے تعصب کی عینک نہیں پہنی جہاں کارل مارکس کی بات ٹھیک ہوگی اسکی تعریف بھی ہوگی اسے بیان بھی کروں گا۔ یا جان لاک ہو، والٹئیر ہو یا ہیگل جس نے انسانیت کی بھلائی کے لیے کچھ کیا ہے ضرور تعریف ہوگی لیکن ہر بات اندھی تقلید سے نہیں مانی جائے گی بلکہ عقل کی کسوٹی پہ پرکھی جائے گی۔
زمین و آسمان میں اتنی شہادتیں ہیں کہ کوئی شخص اگر دل کی میل اتار کر دیکھے تو وہ انکار کرہی نہیں سکتا کہ اتنا مستحکم نظام خود بخود وجود میں آسکتا ہے اور لاکھوں سال چل بھی سکتا ہے اور چل رہا ہے۔
ملحد لوگ بائیبل کے اصولوں کو ٹھکرا سکتے ہیں، ہندووں کی وید پہ اعتراض کرسکتے ہیں اسی طرح باقی مذاہب سے انکو خوارک مل سکتی ہے۔ مگر انکو چیلنج ہے یہ قرآن کا ایک اخلاقی اصول جھٹلا کر دکھا دیں، انصاف کے ساتھ کبھی نہیں جھٹلا سکتے بلکہ صرف کیڑے نکال سکتے ہیں اپنی غلاظت ثابت کرنے کے لیے۔ اس لیے میں یہی کہوں گا کہ یہ لوگ انتہائی خود غرض ہیں انکی بلا سے آنے والی نسلیں جس طرح مرضی برباد ہوں اور اُنکو ورثے میں جذبات سے خالی ایک جانوروں سے بدتر تہذیب ملے۔ یہ تو بس اپنے جذبات کی تسکین چاہتے ہیں۔ مقصد بس اپنی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔ یہ لوگ ہر پابندی سے آزادی چاہتے ہیں۔
یہ وہی لاجک قبول کرتے ہیں جو انکے نفس کو قبول ہو تو کیا یہ انتہا پسندی نہیں پھر کیوں مذہبی طبقات پہ شدت پسندی الزام لگاتے ہیں جبکہ خود بھی اس طرز پہ اپنے مطالبات پہ جمے ہوئے ہیں۔ مذہبی طبقہ جس طرح اپنے مفادات کے لیے دین میں شدت پسندی پھیلاتا ہے اسی طرح یہ اسکی ضد میں شدت پسندی پھیلا رہے ہیں ایک طبقہ ہربات خدا سے منسوب کرتا ہے دوسر طبقہ ہر بات میں خدا کے مخالف آکر کھڑا ہوجاتا ہے۔
ایسے ہی ملحد لوگوں کےلیے اللہ پاک فرماتا ہے کہ "کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ ۞ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے" (الفرقان، 43.44)
یعنی ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں انہوں بس اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنالیا ہوا ہے۔ اس لیے ہر اس پابندی سے بھاگتے ہیں جو انکی خواہشات سے ٹکراتی ہے۔ اسکا مطلب ہے ملحد بھی خدا کو مانتے ہیں بلکہ یہ اپنے خدا کو ہم سے زیادہ یقین سے مانتےاور عمل کرتے ہیں۔ یہ خدا انکا اپنا نفس ہے جو حکم وہ دیتا ہے بلا چوں چراں تسلیم کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن کی مندرجہ ذیل آیات کا مطالعہ کریں تاکہ آپ خود قرآن سے پڑھ کر دلائل جان سکیں کہ نفس کے بندے کیسے ہوتے ہیں۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر۔ 3، سورہ طہ آیت نمبر۔ 16، سورہ المومنون آیت نمبر۔ 71، سورہ القصص آیت نمبر۔ 50، سورہ الجاثیہ آیت نمبر 23
تو مسلمانوں یورپ کی تقریبا آدھی آبادی اپنے قول اور فعل سے کلی طور پہ خدا کا انکار کرچکی ہے۔ جبکہ اگر عمل میں دیکھیں تو یورپین کا کیا کہوں، مسلمانوں کی آدھی سے زیادہ آبادی الحاد کا شکار ہوچکی ہے۔ یہ ہیں اس جدید تہذیب اور تعلیم کے مفاسد جہاں ہر نیا دن ہمیں Dark Age کی طرف بڑھا رہا ہے۔
"بادشاہت، جمہوریت اور اسلام" کے عنوان سے سلسلہ وار کالموں میں تیسرے کالم کا اختتام ہوا۔