Aiye, Fateh Khawani Karen (2)
آئیے، فاتحہ خوانی کریں (2)
یہ کوئی کہانی نہیں سنا رہا بلکہ اللہ کا فرمان بھی یہی ہے ذرا ان آیات کو غور سے پڑھیں اور خود فیصلہ کریں "اللہ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا" (سورہ فاطر، 13، 14)۔
"اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بے خبر ہوں " (الحقاف، 5)۔
آج ہم رزق کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے جھکے ہوئے ہیں سود پہ سود دے رہے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ اگر ان کی بات نہ مانی تو ہم دنیا میں بھوکے مر جائیں گے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کو اللہ سے زیادہ طاقتور سمجھ لیا ہے یہ ایک قوم کا اجتماعی شرک ہے۔ میں کوئی شرک کے سرٹیفکیٹ نہیں بانٹ رہا نہ میرے پاس کوئی اسکا اختیار ہے، میں تو اپنے مسلمان بھائیوں کے ایسے اعمال کو شرکیہ کہہ رہا ہوں۔ اب نبی تو کوئی آئے گا نہیں اب تو قیامت کے دن ہی اصل فیصلہ ہو گا۔
اب ہم دوبارہ اپنی بات کی طرف آتے ہیں۔ سورہ فاتحہ میں مانگنے والے نے پہلے اپنے عقیدہ توحید کی وضاحت کی ہے۔ اس کا مطلب وہ کوئی گمراہ انسان نہیں بلکہ بڑا مضبوط عقیدے کا مالک ہے لیکن انسان کو زندگی کے ہر معاملہ میں وہ رہنمائی چاہیئے جو اسے اللہ کے نزدیک کر دے اور اسکی کامیابی ضمانت بن جائے اور اس کے دنیا اور آخرت کے مسائل بھی حل ہو جائیں، اس راستے کی راہنمائی جس پہ چل کے لوگ اللہ کے انعام کے حقدار ہو جاتے ہیں اور پھر انسان کو اس ہدایت پہ عمل کی توفیق بھی مل جائے۔
اب ذرا ایک مثال دیکھیں ایک بیمار شخص کو ڈاکٹر کی ضرورت ہے اور مارکیٹ میں ہر ڈاکٹر کا دعوہ ہے کہ وہ نمبر ون ہے۔ اب اگر انسان اللہ سے دعا کرے کہ مولا شفا تو، تو نے دینی ہے بس میری اس معاملے میں راہنمائی فرما، اب ہو گا کیا بندہ اپنی طرف سے سوچ بچار کر کے کسی ڈاکٹر کے پاس جائے گا اور ڈاکٹر بھی ایسی دوائی تجویز کر دے گا جو اسکے ذہن میں بھی اسی وقت آئی ہو گی اور پھر پہلی خوراک سے ہی اسے شفا بھی مل گئی۔
یہ کیا تھا؟ یہ پردہ غیب سے سب کچھ ہوا تھا اور انسان کی سب بڑی ضرورت اس کا آخرت کے امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ یہود، نصاری کے پاس بھی اسلام کی ہدایت اپنی اصلی شکل میں آئی تھی لیکن وہ اپنے نفس کے پیچھے چل پڑے اور ہدایت پا کر بڑائی کے تکبر میں مبتلا ہو گئے۔ اور وہ وہ زمین پہ گھٹیا کارنامے انجام دیئے کہ اللہ ان پہ غضبناک ہو گیا، کچھ ویسے ہی گمراہی میں بھٹک گئے اور کچھ پہ اللہ نے پھٹکار ڈال دی۔
نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ سورہ فاتحہ ایک مقبول دعا ہے مطلب یہ ایسی دعا ہے جسے اللہ نے دنیا میں گارنٹی دے دی ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے۔ وہ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں سب سے پہلے تو ہدایت کا راستہ دکھانے کو اللہ نے اپنی ذمہ داری قرار دیا کہ میں صرف سیدھے رستے کی طرف راہنمائی کروں گا، زور زبردستی کسی پہ نہیں ہو گی اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا (النحل، 10)۔
سورہ فاتحہ میں انسان نے سیدھے راستے پہ چلنے کے لیے راہنمائی کی دعا کی اور سورہ دہر میں اللہ نے دعویٰ کر دیا کہ میں نے سیدھے راستے کی راہنمائی کر دی ہے "ہم نے اسے (حق و باطل میں فرق کرنے والا) راستہ دکھا دیا، اب خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا" (الدھر، 3)۔
وہ راستہ کیا ہے؟ جب انسان سورہ فاتحہ مکمل کرتا ہے تو اللہ پاک انسان کے آگے پورا قرآن کھول کے رکھ دیتا ہے کہ اے انسان اس قرآن کو پڑھ اس میں تیرے ہر مسئلے کا حل ہے اس میں میں نے تفصیل سے بتا دیا ہے کہ میں کون ہوں، میری پہچان کیا ہے؟ میں کن کاموں سے خوش ہوتا ہوں اور میں کن کاموں سے ناراض ہو جاتا ہوں۔ اگلی قومیں کیوں تباہ ہو گئیں تھیں؟ ان کی تفصیل اس میں موجود ہے تاکہ تم ان اعمال سے بچ جاؤ۔
انسان کیوں دنیا میں آیا ہے؟ یہ دنیا کیا ہے، تم کیوں دوبارہ آٹھائے جاؤ گے، قیامت کیوں آئے گی، یہ مبارک رسول کون ہے، یہ کیوں تمہارے پاس آیا؟ قومیں ترقی اور خوشحالی کے راستے پہ کیسے چلتی ہیں دنیا اور آخرت میں انسان کو کامیاب ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیئے؟ آج بھی اور قیامت تک اللہ کا یہ پیغام اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور رہے گا۔ اللہ نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی اور اس ہدایت پہ عمل کیسے کرنا ہے؟ انبیاء کے ذریعے عمل بھی کروا کے نمونہ دکھا دیا۔
اگلی ذمہ داری انسان کی تھی اس ہدایت پہ عمل کر کے شکر کی راہ اختیار کرنا یا ناشکری کی راہ۔ آج مسلمانوں کے پاس ہدایت تو ہے لیکن اس پہ عمل نہیں جس کی وجہ سے ہم اللہ کی ناراضگی کا شکار ہیں اور ذلیل ہو رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے قرآن اب قل خوانیوں اور فاتحہ خوانیوں کے لیے ہی رہ گیا ہے؟ ہمارے مولانا حضرات تو ان فاتحہ خوانیوں اور قل شریفوں پہ اچھے اچھے پکوان ڈکار جاتے ہیں لیکن وہ جو شریف لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں ان کو ککھ نہیں بتاتے، ہو سکتا ہے خود بھی پتا نہ ہو۔
اللہ کے واسطے خود بھی کوشش کریں قرآن کو سمجھنے کی، اپنے دامت برکاتم عالیہ پیروں، گدی نشینوں اور اپنے علماء کو بھی کہیں کہ ہمیں قرآن کو قرآن کی روح سے سمجھائیں جو قرآن کا سیدھا سا آسان مطلب ہے وہی سمجھائیں نہ کہ اپنے فرقے اور غلط عقائد ثابت کروائیں۔
ایک آخری بات سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں دعا کرنے والا اللہ کو اپنا ربّ مانتا ہے اور سورہ حم سجدہ میں اللہ نے ایک ایسے انسان کا انجام دکھایا ہے جو اللہ کو نہ صرف ربّ مانتا ہے بلکہ اپنی ساری زندگی کے اعمال سے اللہ کو اپنا ربّ ثابت بھی کر کے دکھاتا ہے۔ کیا سوز گداز والا بیان ہے گزارش ہے اسے ضرور پڑھیں اور اپنے ایمان کو تازہ کریں۔ (حم سجدہ، 30 سے 32)۔