Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Akram
  4. Aik Naye Deen Ki Ejad (1)

Aik Naye Deen Ki Ejad (1)

ایک نئے دین کی ایجاد (1)

بادشاہی اور مذہبی طبقے کی اجارہ داری پہ میں اپنے پچھلے کالم "جب عیسائیت کو اقتدار ملا" میں لکھ چکا ہوں۔ تیرہویں صدی میں کچھ لوگوں نے اس بےانصاف نظام کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی لیکن کیونکہ کیتھولک چرچ کی گرفت سے ایسی آوازوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی اس گھٹن زدہ ماحول میں کچھ لوگ نکلے۔ جن میں اٹلی کے مشہور Petrarch اور Boccaccio ہیں۔ انہوں نے اپنے تئیں عوام میں آزادی کی روح پھونکنے کی بڑی کوشش کی مگر ان کے افکار زیادہ تر اشرافیہ تک ہی محدود رہے۔

Petrarch ہی وہ شخص تھا جس نے مغربی یورپ کے پانچویں صدی سے چودہویں صدی کے درمیانی دور کو Dark Age کا نام دیا تھا۔ اس طرح مغربی یورپ میں پرانے Greek اور Roman کلچر کو دوبارہ رائج کرنے اور عوام پہ استحصال کے خاتمے کا کام چل رہا تھا۔ مگر 1453ء میں عثمانیوں کے Constantinople کو فتح کرنے کے بعد یہ تحریک اور تیز ہوگئی۔ بحیرہ روم میں یورپ کی دوسری طرف مملوک اورعثمانی سلطنت تھی۔ اس لیے سمندری راستے سے تجارتی سامان انڈیا اور چائینا سے عرب تاجروں کے ذریعے اٹلی کے تاجروں کے ہاتھوں پھر باقی مغربی یورپ میں پہنچتا تھا۔

تجارتی سامان اتنے ہاتھوں سے گزرنے کے بعد بہت مہنگا ہوجاتا تھا اس لیے دوسرا حل انڈیا اور چائینا کا Silk روڈ تھا اس لیے وہاں سے قدرے سستا مال مل جاتا تھا۔ مگر Fall of Constantinople کے بعد زمینی اور سمندری دونوں راستوں پہ مسلمان حکومتیں آکر بیٹھ گئیں تھی۔ 1517 آنے تک تو عثمانی سلطنت پورے بحیرہ روم کو اپنی جکڑ میں لے چکی تھی۔ اس لیے مغربی یورپ میں مہنگائی اور زیادہ بڑھ گئی جس کا خمیازہ بھی عام عوام کو ہی برداشت کرنا پڑا۔ دوسری طرف مشرقی یورپ عثمانیوں کے ہاتھ آجانے کے بعد پڑے لکھے عیسائیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے مغربی یورپ میں ہجرت کی۔ کیونکہ مشرقی یورپ چرچ کی پکڑ سے آزاد تھا۔ اس لیے وہاں کے لوگ اپنے پرانے Romanاور Greek کلچر سے جڑے ہوئے تھے۔ جب یہ سکالرز مغربی یورپ آئے تو انہوں نے چرچ کے مذہبی اور سائنسی عقائید کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔

یورپ کے بادشاہ اور شہزادے جو چرچ کی سلطنت میں مداخلت سے تنگ آچکے تھے۔ انہوں نے ایسے نئے خیالات کو بہت زیادہ حمایت دی۔ خاص کر اٹلی جو کیتھولک چرچ کا گڑھ تھا۔ اس کے شہر Florance اور Venice ان افکار کے گڑھ بن گئے جس کو Renaissance کی تحریک کہا جاتا ہے۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے اسکی اشاعت کو بہت تیز کردیا۔ جس کے ذریعے علم کی رسائی چھپی ہوئی انتہائی کم قیمت کتابوں کی صورت میں عام عوام تک ہونا شروع ہوگئی۔ اب عام لوگ بھی ان نئے افکار کو پڑھ رہے تھے۔ اب وہ مذہبی اور بادشاہی طبقات سے اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکتے تھے۔ یہ تحریک دنیا میں ایک نئے مذہب، نئے دین کی پیدائش تھی۔

انسانی تاریخ میں جب بھی زمین پہ فساد پھیلتا تھا تو اللہ انبیاء کرام بھیجتا جو قوموں کو آزادی کی راہ دکھاتے اور فی الدنیا حسنہ و فی الاخرہ حسنہ کی تربیت کرتے مگر یہ تحریک کیونکہ علم وحی سے مکمل طور پہ عاری تھی بلکہ اسکی ضد میں کھڑی ہوئی تھی اس لیے اسکا ہدف فی الدنیا حسنہ ہی تھا صرف دنیا کی زندگی میں کامیابی۔ اس طرح کائنات کا مرکز خدا کی ذات نہیں بلکہ انسان بن گیا۔ اور انسان کسی کا غلام نہیں بلکہ آزاد ہے۔ اس کو سکون جہاں سے بھی ملے اس کو لینا چاہیئے۔ اسی کو Humanism کہا گیا۔ اب اگر آپ کو دنیا میں اپنی مرضی کی زندگی گزارنی ہے تو مذہبی اور بادشاہی طبقے سے آزادی حاصل کرنے کے بعد دولت چاہیئے جو آپکی اپنی ہو جس کو جہاں چاہیں اپنی مرضی سے خرچ کرسکیں۔ خیر جب لوگ ذہنی طور پہ آزاد ہوئے تو انہوں نے سائنس کے میدان میں بھی غوروفکر شروع کردیا اور عیسائیت کے سائنسی عقائید کو چیلینج کیا۔ سائنس کے ساتھ مذہب کے میدان میں بھی انقلاب برپاہوگیا۔

مارٹن لوتھر ایک جرمن پادری جو Renaissance کے افکار سے بہت متاثر تھا، اس نے کھلم کھلا چرچ کے مذہبی عقائید کو چیلنج کردیا۔ جس کی وجہ سے مذہبی طور پہ یورپ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ایک پروٹسٹنٹ اور دوسرا کیتھولک۔ حقیقت یہ تھی اس مذہبی نشاة ثانیہ کو مکمل طور پہ بادشاہوں نے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ 1519 سے Habsburg Empire کا قبضہ سپین، پرتگال، ہولی رومن ایمپائر اور آسٹریا پہ تھا۔ یہ ایمپائر مکمل طور پہ کیتھولک تھی۔ مگر اس میں پروٹسٹنٹ افکار پھیل چکے تھے جو اس کے لیے درد سر تھے۔ فرانس، انگلینڈ، سویڈن اور ناروے اس کی طاقت ختم کرنے کے درپے تھے۔ جس کا نتیجہ تیس سالہ خونی جنگ کی صورت میں نکلا۔

1648 میں ویسٹ فیلیا کے معاہدے کے مطابق ہولی رومن ایمپائر سے دو ملک آزاد ہوگئے ایک Natherland اور دوسرا Switzerland اور اب پروٹسٹنٹ اور کیتھولک دونوں کو اپنی افکار کی تبلیغ کی آزادی بھی مل گئی۔ اس طرح پوپ کی طاقت کا مرکز بھی ختم ہوگیا۔ انگلینڈ نے تو 1534 سے ہی اپنا علیحدہ چرچ بنا لیا تھا۔ اب بادشاہوں کو پوپ کی اجارہ داری سے آزادی مل گئی اور ہر ملک اپنے دولت کے ذخائر بڑھانے میں لگ گیا۔ اس طرح نشاہ ثانیہ نے مذہب، سائنس اور انسان کی انفرادی زندگی کے افکار کو بدل کررکھ دیا۔ اسی فکری انقلاب سے سائنسی ایجادت کے ساتھ جیوگرافیکل دریافتیں ہونا شروع ہوگئیں۔

یورپ کے لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت انڈیا اور چائینا سے سستا مال حاصل کرنا تھا جو وہ بحیرہ روم سے عثمانیوں کے ہاتھوں افورڈ نہیں کرسکتے تھے اس لیے انہوں نئے سمندری راستے تلاش کرنا شروع کردیے۔ 1492 میں سپین بادشاہ نے کولمبس کو انڈیا کا راستہ ڈھونڈنے کے لیے سپانسر کیا۔ کولمبس نے انڈیا کیا ڈھونڈنا تھا غلطی سے ایک نئی دنیا جاپہنچا جسے وہ اپنے تئیں انڈیا ہی سمجھا۔ اس نئی دنیا کا نام "امریکہ" ایک یورپی Explorer جس کا نام Amerigo تھا کے نام پہ رکھا گیا اسی نے بتایا تھا کہ یہ انڈیا نہیں بلکہ کوئی نئی دنیا ہے۔ اس دوران 1497 میں ایک پرتگالی Explorer واسکوڈے گاما نے افریقہ گھوم کر انڈیا کا راستہ بھی دریافت کرلیا تھا۔ مگر یورپین کا زیادہ رخ امریکہ کی کھوج میں ہی رہا پہلے سپین اور پرتگال نے امریکہ میں اپنی کالونیاں بنائیں اور 1600 کے بعد فرانس اور برطانیہ نے بھی امریکہ میں اپنی کالونیاں بنا لیں اور یہاں کی 95 فیصد مقامی آبادی ان یورپین کے ہاتھوں ماری گئی۔ دو بڑی ایمپائر Inca اور Aztec ان کی ہاتھوں ختم ہوگئیں۔

امریکہ سے سونے چاندی کے ذخائر لوٹ لوٹ کر یورپ لائے گئے اور پورے امریکہ پہ یورپین کو آباد کیا گیا۔ کاشت کاری کے لیے افریقہ سے سیاہ فام غلام خرید کر امریکہ بیچے گئے۔ اس طرح مغربی یورپین جو پہلے بھوکوں مر رہے تھے اب دو ہاتھوں سے کما رہے تھے، غلاموں کی خرید و فروخت اور امریکی پیداوار سے۔ افریقی غلاموں کو پنجروں میں بند کرکے امریکہ بھیجا جاتا اور انتہائی غیر انسانی سلوک کیا جاتا جس سے بہت سارے غلام تو سمندروں میں ہی مر جاتے جو قسمت کے مارے وہاں پہنچ جاتے تو وہاں غلامی کا ایک نیا دوزخ انکا منتظر ہوتا۔ یہ تھی اس نئے انقلاب کی، اس نشاة ثانیہ کی اخلاقیات کہ بس لوٹو جس طرح لوٹ سکتے ہو۔

وہی Humanism کہ ہم نے اپنا لائف سٹائل کو بہتر بنانا ہے، جو طاقتور دولت مندوں کا ہی ہوسکتا ہے۔ پھر جب ان یورپینز کے پاس امریکہ کی لوٹ مار سے بہت زیادہ پیسہ اکٹھا ہوگیا تو انہوں نے ایشیا کا رخ کیا۔ گوکہ پندرہویں صدی سے پرتگالی افریقہ کے راستے انڈیا سے تجارت کر رہے تھے مگر سترہویں صدی میں باقاعدہ طور پہ انگلینڈ، فرانس اور نیدرلینڈ بھی میدان میں کود پڑے۔ اس وقت ہندوستان پہ مضبوط مغل سلطنت تھی اس لیے انگلش اور فرنچ پہلے تو ساحلی ہندوستان تک محدود رہے اور مغل سلطنت ٹوٹنے کے بعد پورے ہندوستان پہ قابض ہوگئے اور Dutch یعنی نیدرلینڈ انڈوونیشیا پہ قابض ہوگیا۔

اس دولت کی ریل پیل سے یورپ کے اندر طبقاتی جنگیں شروع ہوگئیں۔ ہوا یوں جب یورپینز کے لیے امریکہ، افریقہ اور ایشیاکے تجارتی راستے کھلے تو وہ پرانے جاگیردار Dukes جن کے پاس پیسہ تھا یہی بڑے بڑے تاجر بن گئے اور بادشاہوں کے ساتھ ملکر حکومت کا بھی حصہ بن گئے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پرانے تاجروں کے علاوہ عوام کے اندر سے بھی بڑے بڑے تاجر نکل آئے یعنی نو دولتیا طبقہ پیدا ہوگیا۔ اب اس نودولتیے طبقے کو بھی حکومت میں حصہ چاہیئے تھا تاکہ حکومت کی پالیسیوں پہ اثرانداز ہوسکیں۔ لیکن پرانے روایتی تاجر انکو حکومت میں حصہ دینے کو تیار نہیں تھے جس سےاب نئے طبقے نے نشاة ثانیہ کے افکار کا سہارا لیا کہ حکومت بادشاہوں کی نہیں بلکہ عوام کی ہونی چاہیئے۔

عوام کے منتخب نمائندوں کو پارلیمنٹ میں جگہ دی جانی چاہیے۔ جس سے ہونا کیا تھا دونوں طبقات میں جنگیں شروع ہوگئیں۔ اس کا آغاز انگلینڈ سے ہوا جہاں نودولتیے طبقے کی جیت ہوئی اور باقاعدہ عوامی پارلیمنٹ قائم ہوگئی۔ عوام کی حکومت کیا خاک ہونی تھی بس بادشاہ، روایتی تاجروں کے ساتھ یہ نودولتیا طبقہ بھی حکومت میں حصہ دار ہوگیا عوام تو بیچاری اب بھی پس رہی تھی مگر ان کو خواب دکھائے گئے کہ دیکھو اب تمہاری طاقت سے نمائندے پارلیمنٹ میں جارہے ہیں۔

انگلینڈ کے بعد امریکہ کے تاجروں نے بھی انگلینڈ سے بغاوت کرکے اپنی حکومت بنا لی نعرہ وہی تھا آزادی اور مساوات کا تھا۔ اصل میں اس نو دولتیے طبقہ کے ہاتھ جمہوریت کا نعرہ آگیا تھا۔ پھر یہی بغاوت فرانس کے انقلاب کا پیش خیمہ بنی اور نو دولتیا طبقہ حکومت میں حصہ دار ہوگیا۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں ان یورپینز نے جہاں جہاں کالونیاں بنائیں وہاں کی مقامی، ہاتھ کی انڈسٹری تباہ کردی اور وہاں کی دولت اور پیداوار لوٹ لوٹ کر یورپ آنے لگی۔ جس سے ہوا کیا کہ پوری دنیا میں استعمال کی چیزوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ جیسے پہلے ہندوستان اپنی ضروریات کی چیزیں خود بناتا تھا مگر جب زمینی ساری پیداوار اور دولت یورپ چلی جائے گی تو لوگ تو دوسروں کے محتاج ہوں گے ہی۔ جبکہ یورپ کی ہاتھ کی انڈسٹری اس ڈیمانڈ کو پورا نہیں کرسکتی تھی جس سے انگلینڈ میں صنعتی انقلاب آگیا۔ جس میں ہاتھ کی انڈسٹری سے دنیا مشین کی انڈسٹری میں منتقل ہوگئی اور پیداوار میں انتہائی تیزی آگئی۔ اسکے بعد یہ صنعتی انقلاب پھر پورے مغربی پورپ میں پھیل گیا۔ یہ سرمایہ دار دنیا کا آغاز تھا۔

سرمایہ دار کو صنعت کار بننے کے لیے Capital چاہئے یعنی Labor، Land اور Money تو لیبر انہوں نے ایسے بنائی کہ یورپ کے عام کسانوں کو بےروزگار کردیا۔ عام لوگ جو جانور چرا کر یا چھوٹی چھوٹی زمینوں پہ کاشت کاری کرکے گزار کرتے تھے۔ دولت مند طبقات نے بڑی جاگیروں کو خرید لیا Corporate Farmingکے لیے۔ جیسے جاگیردار کا کپاس کی فصل آگانا کئی کئی ہزار ایکڑ پر، جس سے چھوٹا کسان بےروزگار ہوگیا۔ اس کپاس کو جب فیکٹریوں میں لے جایا گیا دھاگہ اور کپڑا بنانے کے لیے تو وہی بے روزگار کسان مزدور کی شکل میں انکو مل گیا۔

پیسہ ان کے پاس بہت تھا کالونیوں کی لوٹ مار سے، Raw Material بھی انہوں نے اپنی کالونیوں سے مفت میں اٹھایا۔ پھر اس مشین کے بنے ہوئے مال کو واپس یورپ کی عوام کو اور اپنی اپنی کالونیوں کو بیچنا شروع کردیا۔ اس طرح سرمایہ دار دنیا کا آغاز ہوا۔ 1850 تک انگلینڈ، امریکہ، جاپان اور مغربی یورپ کےسارے ممالک میں بھی صنعتی انقلاب آچکا تھا۔ اب ان ملکوں کو خود تو کسی سے مال خریدنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اپنی انڈسٹری کا بنایا مال ہی بہت تھا۔ لیکن جب صنعتی پیداوار جب بہت بڑھ گئی تو ڈیمانڈ کم ہوگئی۔ ظاہر ہے جب سارے لوگ اپنے استعمال کا کپڑا خود بنائیں گے تو دوسرے کا خریدے گا کون۔ کپڑے کی قیمتیں تو گریں گی۔ اس لیے نئی مارکیٹس کے لیے یہ یورپینز افریقہ اور ایشیا پہ نئے سرے سے ٹوٹ پڑے۔

یہ Colonialism کا دوسرا دور تھا۔ پہلے دور میں تو دولت کی لوٹ مار کی تھی اور سونے کے ذخائر اور پیداوار کو یورپ منتقل کیا تھا لیکن دوسرے دور میں Raw Material کو لوٹنے کے ساتھ اپنی فیکڑیوں میں بنی اشیاء کو بیچنا بھی تھا۔ ہر یورپی ملک چاہتا تھا کہ اس کی مارکیٹ زیادہ بڑی ہو جہاں وہ اپنا زیادہ مال بیچ سکے۔ اس کے لیے انہوں پورے افریقہ کو آپس میں بانٹ لیا۔ اٹلی، جرمنی اور بیلجئیم بھی نئے کھلاڑی کے طور پہ میدان میں اتر آئے۔ افریقہ کے بعد چائنہ کو اپنے اپنے ٹکڑوں میں بانٹ لیا۔ ہندوستان، آسٹریلیا تو پہلے ہی انکے قبضہ میں تھا۔

بیسویں صدی میں یورپی ممالک دولت سے اتنے مالامال ہوگئے تھے کہ اب ہر ملک خود کو دنیا کی سپر پاور بنانے کے چکر میں تھا۔ اسی چکر میں ہی انہوں نے دو عظیم جنگیں لڑیں اور کروڑوں انسانوں کا خون بہایا۔ جس کے نتیجے میں ہم کو امریکہ ملا پوری دنیا کا ٹھیکیدار۔ یورپین جب تجارت کے لیے نکلے تھے تو امریکہ اور افریقہ پہ تو باآسانی قابض ہوگئے۔ لیکن ایشیا میں ایک تو کوئی مضبوط حکومت نہیں تھی۔ دوسرا یورپین سمندروں پہ اجارہ داری قائم کرچکے تھے یہ سب سے پہلے سمندری تجارت کی ناکہ بندی کرتے ساحلوں پہ قبضہ کرتے پھر آہستہ اہستہ زمین اپنے قبضے میں لیتے جاتے اس طرح ایشیا بھی کالونی بن گیا۔ دنیا یورپین سے آزاد ہوجاتی۔ مگر صنعتی انقلاب کی ٹیکنالوجی نے جہاں اور شعبوں کو ترقی دی وہیں اسلحے کی صنعت اتنی جدت اختیار کرگئی کہ باقی دنیا اب خوابوں میں بھی انکو نہیں ہرا سکتی تھی۔

ایک خلافت عثمانیہ تھی مگر وہ مرد بیمار کی طرح اپنا بوجھ اٹھانے سے بھی عاری تھی خود کو جدید کیا خاک بنانا تھا یورپین کے ساتھ پہلی ہی بڑی جنگ میں اسکا بھرکس نکل گیا۔ مگر یورپین کے اس انقلاب سے عوام کو سوائے جنگ و جدل کے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ دولت ابھی بھی ایک طبقے کے پاس اکٹھی ہورہی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام ایشیا، افریقہ کی طرح یورپی عوام کا بھی استحصال کر رہا تھا۔ ان سے فیکٹریوں میں جانوروں کی طرح کام لیتے اور تخواہ اتنی ہوتی کہ روٹی بھی پوری نہ ہوتی جس کے خلاف پھر کارل مارکس کا کمیونزم کھڑا ہوا۔

کیمونزم کی ٹکر اتنی زبردست تھی ایک بار تو سرمایہ دارانہ نظام کانپ گیا مگر جلد ہی اسنے مذہب کا سہارا لیتے ہوئے اس سے جان چھڑائی لیکن اس کے بعد یورپی سرمایہ دار نے اپنے ملک کے باشندوں کو تو بہت سارے حقوق دیے تاکہ دوبارہ ایسے کسی نظریے کا ساتھ نہ دیں جس سے عوام کالائف اسٹائل تو بہت بہتر ہوگیا مگر افریقہ اور ایشیا کی عوام آج تک انکے ہاتھوں لٹ رہی ہے۔ یہ تھی Renaissance کے بعد یورپ کی تاریخ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام نے Humanism کے افکار سے ہی جنم لیا ہے۔ ان دونوں کے گٹھ جوڑ پہ ہم آئیندہ کالم میں بات کریں گے۔

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar