Zam Zam Therapi, Javed Chaudhry Aur Zubair Hafeez Ka Tanqeedi Column
زم زم تھراپی، جاوید چوہدری اور زبیر حفیظ کا تنقیدی کالم
8 اگست 2023 بروز جمعرات ناشتہ کرنے کے بعد حسبِ عادت کالم نگاروں کے کالم پڑھنے لگا تو سب سے پہلے جس تحریر پر نظر پڑھی اس کا موضوع تھا "زم زم تھراپی" جس کو زبیر حفیظ نے تحریر کیا تھا۔ کالم کا نام ہی ایسا تھا کہ میری ساری توجہ کالم کے عنوان پر مرکوز ہوگئی۔ کچھ دیر موضوع کے بارے میں سوچا کہ تحریر میں کیا ہو سکتا ہے تو ذہن اسلامی اور طبی حوالوں سی آبِ زم زم، حضرت اسماعیلؑ اور مکۃ المکرمہ زادھما اللہ شرفاً و تعظیماً کی طرف چلا گیا۔
جب تحریر پڑھنا شروع کی تو عقدہ کھلا کہ اصل تحریر جناب جاوید چوہدری صاحب کی ہے جس میں انھوں نے ایک ڈاکٹر صاحب جو کہ آذربائجان کے سیاحتی سفر پر تھے ان کے بارے میں لکھی تھی جو کہ انہی ڈاکٹر صاحب کی آپ بیتی و تجربات پر مبنی تھی۔ جناب جاوید چوہدری صاحب اپنے اس کالم میں ڈاکٹر صاحب کی بیماری کا تذکرہ کرتے ہیں (جو لازماً ڈاکٹر صاحب نے ہی ان کو بتائی ہوگی) کہ کچھ عرصہ پہلے اُن کو سارے جسم پر خارش شروع ہوگئی جو کہ نہ ختم ہونے والی تھی۔ جب کسی طور بھی آرام نہ آیا تو مزید تشخیص کے لئے آخر کار ڈاکٹر صاحب نے اپنے ٹسیٹ کروائے۔ میڈیکل رپورٹ جب آئیں تو انکشاف ہوا کہ اُن کو کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو چکاہے۔
انھوں نے تجربہ کار و مستند ڈاکٹروں سے اپنا علاج کروانا شروع کر دیا مگر مرض تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا اور ختم نہ کو رہا تھا۔ شاد لکھنوی نے شاید اسی لئے کہا کہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی"۔ جب موصوف کو کہیں سے شفا نہ ملی تو آخر کار وہ زم زم تھراپی کروانے مکۃ المکرمہ زادھمااللہ شرفاً و تعظیماً گئے اور اللہ تعالی کے کرم سے ان کو شفا مل گئی۔ یہ فطرتِ انسانی ہے کہ جب وہ سب طرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو آخر کار وہ اللہ تعالی عزوجل کی طرف ضرور رجوع کرتا ہے اور جب انسان اپنے ربِ کریم کے گھر جا کر اس کے سامنے عجز بن کر گڑگڑاتا ہے، فریادکرتا ہے تو پھر کیونکر نہ اُس پر کرم ہو۔
ڈاکٹر صاحب پر جب کرم ہوا اور اُن کو شفا ملی اور اُن کی ملاقات چوہدری صاحب سے ہوئی تو اُنھوں نے دل کی کفیات اور شفایابی بارے تفصیلات بتائیں۔ اب موصوف زبیر حفیظ نے اپنے اس کالم میں جناب جاوید چوہدری کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ موصوف نے جاوید چوہدی صاحب کی تحریر کو تنقیدی نظر سے تو دیکھا مگر اس کے ساتھ اپنی تحریر میں زم زم کے پانی بارے عجیب و غریب رائے دینے لگے اور پھر تنقید کی بجائے وہ ٹھٹھہ و مذاق و تمسخر کی حد تک پہنچ گئے جیسے اُن کو زم زم کے پانی سے چڑ ہونے لگی ہو۔
ایک جگہ زبیر حفیظ آبِ آبِ زم زم بارے کچھ اس طرح تحریر فرماتے ہیں"ڈاکٹر صاحب کو چائیے کہ اپنی ڈگریاں جلا کر صرف زم زم کی سپلائی کا ٹھیکہ لے لیں کیونکہ ان کی فلیڈ (میڈکل سائنس) تو ان کا ساتھ بیماری میں چھوڑ گئی تھی۔ پاکستان کے تمام ڈاکٹروں کو چائیے کہ ہسپتال میں آپریشن تھیٹرز بندکرکے وہاں زم زم کی سبیلیں لگا لیں اور مریضوں کو زم زم تھراپی کروائیں۔ میڈیکل سٹوروں پر ادوایات کی جگہ صرف زم زم کی بوتلیں ہی رکھیں تاکہ پورا ملک زم زم تھراپی سے شفایاب ہو سکے"۔
یہ تحریر پڑھ کر میرا زبیر حفیظ کو زم زم بارے معلومات دینا لازم بنتا ہے تاکہ عوام الناس اس بارے تذبذب کا شکار نہ ہو جائیں کیونکہ "نیم حکیم خطرہ جان" کی طرح نیم معلومات بھی خطرہِ عقیدہ و ایمان ہوتا ہے خاص ایسے موضوعات پر۔ آب زم زم کوئی عام پانی نہیں بلکہ یہ شعائر اللہ میں سے ہے۔ اس کے علاوہ موصوف نے جناب جاوید چوہدری صاحب پر تنقیدی نشتر کی بوچھاڑ کر دی جو کہ مجھے اچھی نہیں لگی (میرے بھی بعض چیزوں پر چوہدری صاحب سے اختلافات ہیں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بنا سمجھے، جانے اور بنا چوہدری صاحب کا مؤقف لئے تنقید شروع کر دی جائے)۔
سوشل میڈیا آج کے دور میں جہاں فراہمیِ معلومات و اشاعت کا بہترین ذریعہ وہیں اس کو استعمال کرنے کے اصول بھی ہیں۔ اگر ان اصولوں کا خیال نہ رکھا جائے اور بلاتحقیق اس پر تحریریں لکھ کر پھیلائی جائیں تو وہ بیک وقت کئی لوگوں کی نظر سے گزر کر ان کے نظریوں پراثر انداز ہوتی ہیں۔ لازم ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا پر کچھ شائع کرنے سے پہلے اُس کو پرکھنا چاہیے کہ قاری کا کیا ردِعمل ہوگا۔
جب میں نے مکمل تحریر پڑھ لی تو دل کی کفیت عجب سی ہوگئی اور ارادہ کیا کہ اس پر معلومات اکھٹی کرکے موصوف کے تنقیدی جائزہ پر لکھا جائے۔ پس میں نے کچھ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے موصوف کی بیان کردہ چیزوں کو ٹھیک اور اصل حقائق کے ساتھ اصلاح کی کوشش کی۔ سب سے پہلے آبِ زم زم بارے حدیث کا مفہوم بیان کیا کہ "میرے بھائی یہ تو مصدقہ بات ہے کہ زمزم جس مقصد کے لئے پیا جائے اسی کے لئے ہے"۔ اس لئے نیت، اخلاص اور مقصد کے ساتھ اِس میں برکت آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آبِ زمزم روئے زمین پر سب سے افضل پانی ہے، یہ وہی پانی ہے جس سے ہمارے آقا ﷺ کاپاکیزہ دل مبارک دھویا گیا۔ اسی برکت والے پانی کو مریضوں کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہت۔
رسول اللہ ﷺ زمزم کو مختلف برتنوں اور مشکیزوں میں بھر کر لے جاتے اور مریضوں پر ڈالتے اور اُنہیں پلاتے۔ اس لئے میرے بھائی اپنے کالم پر اور لکھی تحریر پر نظرِ ثانی کریں کیونکہ زمزم بارے جو برکتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں اُن میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس سے یہ ہرگز مطلب نہیں کہ طب اور دیگر شعبوں کو چھوڑ دیا جائے۔ آب زم زم بارے ایک حدیث پیشِ خدمت ہے، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ: "زم زم کا پانی ہر اس مقصد کے لیے کافی ہے جس کے لیے پیا جائے، جو شخص کسی مرض سے شفا کے لیے پیے اللہ تعالیٰ اس کو شفا دیتے ہیں، اور جو بھوک کی وجہ سے پیے اللہ تعالیٰ اس کا پیٹ بھر دیتے ہیں، اور جو کسی اور ضرورت کے لیے پیے اللہ تعالیٰ اس کی وہ ضرورت پوری فرماتے ہیں"۔
دورِ حاضر میں زم زم پر تحقیق جاری ہے اور ماہرین اس بابرکت پانی کی بہت زیادہ خصوصیات بیان کرتے ہیں اور ورطہِ حیرت ہیں کہ اس پانی میں انسانوں کے لئے برکت ہی برکت ہے۔
ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آب زم زم کوئی عام پانی نہیں بلکہ روئے ارض و سماوی پر سب پانیوں سے افضل ہے۔ زم زم غذا، دوا اور شفا ہے، اسے جس مقصد کے لئے پیا جائے اسی میں کفایت ہے۔ تاریخ میں ہمیں کئی واقعات ملتے ہیں کہ اللہ کے مقرب بندوں نے زم زم کو پیا اور جس جس مقصد کے لئے پیا ان کا وہ مقصد پورا ہوا۔ اب اگر کسی کا مقصد پورا نہیں ہو رہا یا اسے کسی بیماری سے شفا نہیں مل رہی تو پھر ایسے شخص کو اپنے بارے سوچنا چاہیے اور راسخ العقیدہ ہونا چاہیے تاکہ اُسے مطلوبہ نتائج مل سکیں۔
اخلاص و اعتقاد ہونا بہت ضروری ہے اور اجر و ثواب بھی ملتا ہے۔ تنقید ضرور کریں مگر حقائق کو مدنظر رکھیں کیونکہ آپ کے الفاظ جب لوگوں تک پہنچتے ہیں تو ان کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہوتے ہیں۔ اس لئے تنقید کے لئے الفاظ کا چناؤ بہت ضروری ہے جس سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ اللہ تعالی ہمیں سمجھ، بوجھ، عقل اور علم نافع عطا کرے۔ ہمیں لوگوں کے لئے آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔