Tele Mowasalat, Israeli Dehshat Gardi Aur Ghafil Musalman
ٹیلی مواصلات، اسرائیلی دہشت گردی اور غافل مسلمان
گزشتہ کچھ دنوں سے شدید نزلہ، بخار میں مبتلا رہنے کی وجہ سے لکھنے پڑھنے سے قاصر رہا۔ اسی دوران اسرائیل کا لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکی دھماکوں بارے سنا تو اس پر لکھنے کا ارداہ بنا مگر صحت نے اجازت نہ دی۔ آج کچھ بہتری محسوس کی تو اس موضوع پر لکھنے کی ہمت کر رہا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی امتِ مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کی دولت عطا کرے۔
ٹیلی مواصلاتی نظام آج کے ترقیاتی دور کی اہم ترین ضرورت ہے جو ہر عمر کے افراد مرد و زن کے زیرِ استعمال ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظام میں نقائص کی نشاندہی ہوتی رہی جسے انفارمیشن سیکورٹی کے تحت محفوظ بنایا جاتا رہا۔ آج کے دور میں ڈیٹا اور انفارمیشن کو محفوظ رکھنا ہی سب سے مشکل کام ہے۔ پرانا مواصلاتی نظام جو کہ فقط یک طرفہ صوتی آواز اور سادہ انگریزی عبارت تک محدود تھا۔ وقت گزرنے اور جدیدیت آنے کے ساتھ ٹیلی مواصلاتی نظام تصاویر، ویڈیوز اور آن لائن گروپ چیٹ تک پھیل گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ٹیلی مواصلات کو مثبت کی بجائے منفی طریقے ہر اپنایا جانے لگا ہے۔ مگر گزشتہ ہفتے اسرائیل نے جس طرح ٹیلی مواصلاتی آلات کو دہشت گردی کے لئے استعمال کیا ہے اس کی نوعیت انوکھی ہے۔
اسی مواصلاتی نظام میں ایک نام "پیجرز (Pagers)" کا بھی ہے جو 1950 سے 1960 کے دوران ایجاد ہوا۔ پہلا مواصلاتی پیجر 1949 میں ایلفرڈ جے گروس (Alfred J. Gross) نے طبی مقاصد کے لئے بنایا۔ ریوساؤنڈ کمپنی نے پیجرز بنانے کا باقاعدہ آغاز 1950 میں نیویارک کے طبیبوں کے لئے کیا جسے ٹیلانسورفون کمپنی چلاتی تھی۔ اس پیجر نظام کے استعمال کے لئے ماہانہ 12 ڈالر ادائیگی کی جاتی تھی۔
پہلے پیجر کا وزن لگ بھگ 200 گرام تھا جو کہ 40 کلومیٹر کے فاصلے تک کام کرتا تھا۔ اس کے بعد جون فرانسسز مچل نے 1960 میں پہلا ٹرانسیسٹرائیزڈ (Transistorised) پیجر بنایاجو موٹورولا واکی ٹاکی اور ریڈیو ٹیکنالوجی کا مرکب تھا۔ امریکہ کی کمپنی بَیل سسٹم (Bell Systems) نے عام صارفین کے استعمال کے لئے پہلی بار بیل بوائے (Bellboy) نامی پیجر متعارف کروایا جو کہ ٹرانزسٹر پر کام کرنی والی پہلی ایپلیکشن تھی۔
ٹرانزسٹرز 1947 میں ایجاد ہوا اور اس کے موجد تین سائنسدانوں کو 1956 میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ پیجرز کا نظام ٹرانسمٹرز پر مبنی ہوتا تھا جس میں یک طرفہ رابطہ، دو طرفہ رابطہ اور صوتی پیغام رسانی جیسے عوامل کی انجام دہی ممکن تھی۔ پیجرز مواصلاتی نظام کا زیادہ استعمال 1980 کے بعد شروع ہوا جو کہ سن 2000 تک جاری رہا۔ استعمال کے لحاظ سے پیجر کی مختلف اقسام ہیں جن میں بیپر (Beeper)، وائس ریکاڈنگ، ہندسوں، انگریزی حروفِ تہجی، دو طرفہ مسیجز، میسج کی بنیاد پر عمل درآمد کرنے والے شامل ہیں۔
پیجرزکو انہی اقسام اور خصوصیات کی بنا پر سستے اور مہنگے کا تعین کیا جاتا تھا۔ مگر جب ٹیلی مواصلاتی نظام میں جدت آئی تو پھر 21ویں صدی شروع ہوتے ہی موبائل فون نے پیجرز کے نظام کو بدل کر دنیا میں ہلچل مچا دی۔ موبائل فونز کی وجہ سے عوام میں پیجرز کا استعمال کم ہوگیا مگر اس کا استعمال کچھ مخصوص ادروں میں جاری رہا جس کی سب سے بڑی وجہ اس کا محفوظ پیغام رسانی نظام ہے۔ پیجرز کا استعمال زیادہ تر ہوٹلوں، سیکیورٹی اور قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں میں ہوتا ہے۔ دنیا کے کچھ ممالک میں آج بھی پیجرز کا استعمال جاری ہے جو تقریباً 10 فیصد تک ہے۔
اکتوبر 2023 سے جاری فلسطین اسرائیل جنگ میں منگل کی شام (17 ستمبر 2024) کو لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ اور عام شہریوں پر پیجرز اور واکی ٹاکی کے ذریعے حملے کئے گئے۔ ایک گھنٹہ سے زائد جاری حملوں میں اب تک 35 سے 40 افراد کی شہادت ہوئی جبکہ 3000 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے چہروں اور آنکھوں پر زخم آئے جبکہ کچھ کے ہاتھ اور انگلیاں بھی کٹ گئیں۔ صدیوں سے محفوظ سمجھے جانے والے اس آلے کا دہشتگردی میں یوں استعمال کرکے اسرائیل نے پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکڑی جنرل انتونیوگوتریس نے ان حملوں کو تشویشناک قرار دیا ہے مگر افسوس کہ اس پر اقوام متحدہ کا ادارہ کوئی کاروائی نہیں کر سکتا جس کی وجہ اسرائیل امریکہ گٹھ جوڑ ہے۔ حزب اللہ کا حفاظتی نظام بہت اعلی اور مؤثر ہے مگر اس طرح کا حملہ حیرت انگیز ہے۔ ماہرین کےمطابق ایسے آلات کو ہیک کرکے ان کی بیٹریوں کا درجہ حرارت زیادہ کرنے سے اس طرح کے دھماکے کئے جاتے ہیں تاہم بعض ماہرین نے اس کی نفی کی ہے۔ حملوں میں دیکھے جانے والے پیجرز پر آئی کام (ICom) اور Rugged Pager AR-924 کا لیبل لگا ہوا تھا جسے یورپ کی بی اے سی (BAC) کمپنی نے تیار کیا جس کے پاس گولڈ اپولو کا برانڈ ہے۔ لبنان نے 5000 پیجرز تقریباً پانچ ماہ قبل خریدے تھےجنھیں بنانےوالی کمپنی ہنگری کے شہر بوداپسٹ میں واقع ہے۔ ان حملوں کے بعد سائبر امور کے تجزیہ نگاروں نے بھی جانچ کا کام جاری رکھا اور امکان ظاہر کیا کہ پیجرز کی تیاری یا سپلائی کے دوران تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
اس اسرائیلی مجرمانہ جارحیت نے پوری دنیا میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ یہ قدم اٹھا کر اسرائیل نے تمام انسانی ضوابط توڑ دئیے ہیں۔ امریکہ سمیت کئی ممالک نے اس دہشتگردی کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے اسرائیل کو اس طرح کے انسانیت سوز حملوں سے باز رہنے کا کہا ہو۔ اس پر امریکہ اسرائیل حلیفی ممالک کا دوغلاپن واضح ہوتا ہے۔ امریکہ کی مسلسل ہلہ شیری نے اسرائیل کو شُترِ بے مہار بنا دیا ہے جس نے نہ طرف فلسطین و غزہ بلکہ دنیا کا امن برباد کرنے کی ٹھان لی ہے۔ وزن اور لمبائی میں کم ہونے کی وجہ سے آج کل کے تمام موبائل فونز اور دیگر الیکڑک آلات میں لیتھم کی بیٹیریاں استعمال ہو رہی ہیں۔ اگر اسی طرح کی کاروائی ہوئی تو دنیا میں موجود 7.2 بلین موبائل فونز کی لیتھیم بیٹری ایٹم بم سے بھی زیادہ تباہی مچا سکتی ہیں۔ اگر آئی فونز کی ہی بات کریں تو دینا میں اس وقت 1.5 بلین آئی فونز موجود ہیں اور اگر ان میں چھیڑ چھاڑ کر دی گئی اور بیٹریوں کو سافٹ ویئر کے ذریعے ہیک کرکے پیجرز اور واکی ٹاکی کی طرح تباہ کیا گیا تو پوری دنیا ختم ہو سکتی ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جو ٹیکنالوجی میں خودمختیار ہو۔ آج ہم یہود و ہنود کے چُنگل میں پھنس چکے ہیں اور آج کا مسلمان طاغوتی طاقتوں کے لئے تر نوالہ ثابت ہو رہا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے اس بارے کچھ نہ کیا تو پھر ہم سب غزہ بننے کی تیاری شروع کر دیں۔ آج مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہے، بھائی چارہ ختم ہو چکا ہے، ہم بے حس ہو چکے ہیں اور حالاتِ حاضرہ پر کبوتر کی طرح آنکھیں میچے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنی تاریخ کا مطالعہ چھوڑ دیا ہے اور ہر شے پسِ پشت ڈال دی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو اپنے اشعار کے ذریعے یوں خوابِ غفلت سے جگایا۔
سُن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
وطن کی فکر کر نادان، مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھَرا کیا ہے بھلا عہدِ کُہن کی داستانوں میں
ی ہ خاموشی کہاں تک؟ لذّتِ فریاد پیدا کر
زمیں پر تُو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں