Saturday, 02 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Ghair Mayari, Kam Wazan Ashya e Khurd O Nosh

Ghair Mayari, Kam Wazan Ashya e Khurd O Nosh

غیر معیاری، کم وزن اشیاء خورد و نوش

ہر انسان کی زندگی کے گزرتے لمحات کے ساتھ اچھے اور برے واقعات و تجربات ضرور منسلک ہوتے ہیں۔ ان حالات و واقعات میں وقت کے ساتھ تغیر و تبدل نظر آتا ہے جو ہماری زندگیوں پر مثبت و منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر ہم ملکِ پاکستان میں رہنے والوں کی بات کریں تو جہاں ہماری زندگیوں میں کئی دوسرے اہم واقعات رونما ہوئے انہی میں سے سب سے زیادہ تبدیلی ہمیں اخلاقی قدروں اور اشیائے خورد و نوش میں نظر آتی ہے۔

ہماری روزمرہ زندگی میں استعال ہونے والی چیزیں خاص کر کھانے پینے کی اشیاء کے نہ صرف معیار بلکہ ان کی مقدار بھی ماضی کے مقابلے میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اخلاقی قدروں اور اشیائے خورد و نوش کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جس اخلاقی پستی کی طرف آج ہماری عوام و خواص چلے جا رہے ہیں اُس کے بہت دورس نتائج عنقریب رونما ہوتے نظر آتے ہیں۔ انہی اخلاقی قدروں میں کمی کی وجہ سے ہم زیادہ نفع کمانے کے لئے انسانی زندگیں سے بھی کھیلتے نظر آ رہے ہیں۔

آج ہمارا نظریہ بس پیسہ کمانا بن گیا ہے چاہے وہ جس بھی ذریعے سے کمایا جا رہا ہوں۔ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے اسلام کا قلعہ کہہ کر معرضِ وجود میں لایا گیا، اس ملک خداد میں 90 فیصد سے زائد مسلم آبادی میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پیر نصیر الدین نصیرؒ کے کلام کا ایک شعر ہمیں حلال و حرام میں تمیز کا درس دیتا ہے، فرماتے ہیں:

ترا اُمتی بس اتنی ہی تمیز کاش کر لے
وہ حلال کھا رہا ہے کہ حرام چل رہا ہے

ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہمارے کھانے پینے کے معاملات بھی بدل رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ لوگ گھروں میں کھانے پینے کو ترجیح دیتے تھے مگر اب ایسا نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے ہوٹل، ریستوران اور چائے خانوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ ہم بحثیت قوم تساہل پسند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہمار اطوار و انداز بدلتےجا رہے ہیں۔ اسی سستی و لاپرواہی کی وجہ سے ہم ڈبہ بند و فروزن اشیاء اور پیکٹ بند چیزوں کے استعمال کے عادی ہو چکے ہیں۔

ہمارے ملک نے ان اشیاء خورد و نوش کے معیار و مقدار کی جانچ کے لئے فوڈ اتھارٹی کے ادارے بنائے ہیں۔ مگر میرے لئے تشویشناک بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قائم کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کو جانچنے والے ادرے پیکنگ پر "حلال" لکھنے پر کیوں مجبور ہو چکے ہیں؟ اگر کسی کو اس کا جواب ملے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ میں جب اپنے بچپن و لڑکپن کو دیکھتا ہوں تو ایسا کچھ نظر نہیں آتا بلکہ کھانے پینے کی چیزیں کم تھیں مگر معیاری تھیں جن میں سے زیادہ تر گھروں پر بنا کر فروخت کی جاتی تھیں کیونکہ اُس وقت ہمارے اسلاف میں خوفِ خدا پایا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ ہم نہ صرف لالچی ہو گئے بلکہ نڈر ہوتے گئے۔

آج یہ کالم لکھنے کا محرک جو چیز بنی وہ Hofit Drops نامی ٹافی ہے، اسی ذائقہ اور پیکنگ کے ٹافہ بنام Hoest Drops تھی جو بچپن سے کسی دور دراز تعلیمی دورے، تفریحی مقام یا پھر گلہ خراب ہونے کی صورت میں استعمال ہوتی تھی۔ ایک کام کے سلسلے میں گھر سے باہر تھا، پینے کے پانی کی ضرورت پڑی تو تلاش میں ایک دکان پر گیا، دوکاندار بھائی سے پانی کا پوچھا جو کہ کرسی پر بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔

میں نے دوکان میں لگے چلر کو کھولا اور بوتل نکال لی، اسی دوران دوکاندار بھائی کو سگریٹ نوشی چھوڑنے بارے مشورہ دیا اور تجربات بیان کئے جس پر اس نے میرا شکریہ ادا کیا۔ میں نے 50 روپے کا نوٹ نکال کر دیا تو اُس کے پاس 10 روپے کھلے نہ تھے جو مجھے واپس کرتا۔ اس لئے مجھے اُس نے مشورہ دیا کہ چیونگم (بَبل) لے لوں جو کہ میں بچپن میں بھی پسند نہی کرتا تھا۔ میں نے چیونگم کی بجائے Hofit کا پوچھا اور وہ سامنے پڑے ڈبے سے نکالیں اور واپس آ گیا۔ جب ٹافی کا ریپر کھلولا تو دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ قیمت تو وہی ہے مگر مقدار آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے۔

اگر ہم اس جیسی دوسری چیزوں پر غور کریں تو ہم بچوں اور بڑوں کی کھانے والی چیزوں میں یہ تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ میرے ایک دفتر کے دوست نے بھی کئی بار میری توجہ اس طرف دلوائی اور کالم لکھنے کی ترغیب دلوائی مگر مصروفیت کی وجہ سے اس کام میں تاخیر ہوتی گئی۔ انھوں نے مجھے Cocomo بسکٹ، Lays اور اس جیسی دوسری روزمرہ استعمال والی چیزوں کا بتایا۔ جب دیکھا تو ویسا ہی ملا کہ ان تمام چیزوں کی ماضی کے مقابلے میں مقدار کم ہوتی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ ہر جگہ ملاوٹی اشیاء بچوں کی پہنچ میں ہیں اور گلی محلے کی تقریباً ہر دکان غیر معیاری چیزوں سے بھری پڑی ہیں۔ خاص کر پاپڑ، ٹافیاں، چورن، چاکلیٹ، سلانٹی اور ان جیسی دوسری اشیاء بچوں کی مرغوب غذا ہیں۔ ہم جو کہ مسلمان ہیں مگر زیادہ منافع کی لالچ میں ننھی معصوم انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کھیل رہے ہیں۔ ان ناقص اشیاء کا بچوں کی صحت و نشونما پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آج کل بخوبی دیکھا جا رہا ہے کہ بچوں کے قد ان کی عمر کے مطابق نہیں ہیں۔ اسی طرح اُن کا وزن بھی اُن کی عم کے حساب سے یا تو کم ہوتا ہے یا پھر بہت زیادہ۔ خاص کر ہارمونز کی وجہ سے نشونما بہت متاثر ہوتی ہے اور یہ سب ان غیر معیاری کھانے کی چیزوں کی بدولت ہے۔ فوڈ اتھارٹی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی اشیاء کی ترسیل کو روکے اور ایسے کارخانوں کو بند کرے جو مارکیٹ میں غیر معیاری اشیاء کی فروخت کرتی ہیں۔

اللہ تعالی ہمیں سمجھنے، سوچنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Bachay, Taleem Aur Karobar

By Mubashir Aziz