Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (3)

Falasteen Israel Tanaza (3)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (3)

قبلہ اول بیت المقدس حضرت عمرؓ کے دور میں 15 ہجری بممطابق 635 کوبغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ بیت المقدس وہ عظیم دھرتی ہے جو ہزاروں انبیاء و صلحا کامسکن اور ان کے معجزات کا مرکز رہی اور اسی سرزمین پر متعدد انبیاء کو نبوت کے منصب عطا کیے گئے۔ اسی پاک سرزمین پر عظیم و برزگ نبی حضرت زکریاؑ کو بیٹے کی بشارت دی گئی۔ اس پاک دھرتی پر بیشتر انبیاء علیھم السلام کے مزارات ہیں جن کو اللہ تعالی نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئے بھیجا۔

انہی میں سے ایک مزار پر انوار حضرت سلیمان کا ہے۔ اس خطہِ زمین پر ایک ایسی بابرکت مسجد ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ذکر فرما کر اس کی عظمت دنیا پر واضح کر دی۔ اس مسجد کو مسجدالاقصیٰ کے نام سے جانا جاتا ہے جو خانہِ کعبہ سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ، اول بھی رہی ہے، اسی برکت و عظمت والی مسجد سے آقا نے اپنے سفر معراج کا آغاز کیا اور آپ کی پہلی منزل بنی، اس مقام پر آقا نے تمام انبیاء کی امامت کروائی۔

مسجد اقصیٰ کی تعمیر بھی تاریخی حثیت کی حامل ہے، پہلی تعمیر فرشتوں کے ذریعے ہوئی جبکہ دوسری تعمیر حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ نے کی۔ حضرت داؤدؑ نے وفات سے پہلے اپنے فرزند حضرت سلیمانؑ کو مسجد کی تکمیل کی وصیت کی۔ سلیمانؑ نے جنوں کی ایک جماعت کو اس کام پہ لگایا، ابھی ایک سال کا کام باقی تھا کہ آپ کا انتقال ہوگیا جس وقت آپ اپنی عصا پر تکیہ لگا کر کھڑے تھے اور ملک الموت نے آپ کی روح قبض کر لی مگر جنات مسلسل کام پر لگے رہے۔ جنات یہی سمجھتے رہے کہ آپ یہاں کھڑے ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہی وہ اہم وجوہات ہیں جن کی بنا پر مسلمانوں کا تعلق اس سرزمین سے بہت ہی گہرا اور عقیدت مندانہ ہے۔

آج کا مسلمان کمزور نظر آتا ہے اور جس میدان میں بھی دیکھا جائے وہ پیچھے ہے۔ یہود و نصاری اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ظلم و جبر کرکے مسلمانوں کو زیرِ تسلط کر رہے ہیں۔ جب یہود و نصاریٰ نے دیکھا کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں تو انھوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کے فلسطین میں یہودی بستیوں کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ جو اس سرزمین کے مالک تھے ان سے زمینیں چھین کر دربدر کیا اور مقدس سرزمین پر قابض ہو گئے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی طاقتوں کی ایما پر اسرائیل نے اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرا دیے اور نہتے مسلمانوں کا خون بہانا شروع کیا ہوا ہے۔ مسجد اقصی مسلمانوں کی حقیقی میراث ہے مگر اسرائیل اس کو ماننے کو تیار ہی نہیں۔ یہودیوں کے مطابق جس جگہ مسجد اقصی تعمیر ہے وہاں پہلے ہیکلِ سلیمانی تھا اور مسلمانوں نے یروشیلم پر قبضہ کرکے وہاں مسجد بنا دی تھی۔ مگر ہمیں اسلامی واقعات اور قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسجد آقا کی دنیا میں آمد سے پہلے بھی موجود تھی۔

تاریخی اعتبار سے فلسطین ابتدائی ادوار میں کنعانیوں کو مرکز رہا اور کنعانیوں کے مختلف قبیلوں نے شہروں کو بھی آباد کیا جس میں مشہور قبیلے ببوسی قوم نے القدس شہر کو آباد کیا۔ کنعانیوں کے بعد عبرانیوں نے فلسطین کو رخ کیا مختلف انبیاء نے کنعان کی طرف ہجرت کی جن میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت یوش بن نون، حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ قابلِ ذکر ہیں۔

بلست نامی قبیلے جنگ کی وجہ سے مغرب کو چھوڑ کر فلسطین عبرانی علاقے کی طرف ہجرت کی اور یافا سے غزہ تک کے علاقے پر قابض ہوگیا جس کا نام انھوں نے فلسطین رکھ دیا۔ اس کے بعد فلسطینیوں اور عبرانیوں کے درمیان کافی جنگیں ہوئیں جس میں حضرت داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا۔ اس مقدس سر زمین پر قبلہ اول ہونے کی وجہ سے آقا کی زندگی میں ہی رومیوں سے جنگی معرکے شروع ہو گئے۔ خلفیہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اس جانب توجہ دی اور پھر خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے دور میں القدس مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔

مقامی مسلمان اس مسجد کو المسجد الاقصیٰ یا حرمِ قدسی کہتے ہیں جو کہ یروشیلم کے مشرق میں واقع ہے جس میں پانچ ہزار سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد اقصی کی اہمیت احادیث سے بھی ثابت ہے جس کے مطابق کرہِ ارض پر صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کی طرف سفر کرنا باعثِ ثواب و برکت ہے جن میں مسجدالحرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ شامل ہیں۔ مفہومِ حدیث ہے کہ سب سے پہلی مسجد بیت اللہ (مسجد حرام) بنی، اسکے بعد مسجد اقصیٰ اور دونوں کے درمیان چالیس سال کا عرصہ ہے۔

خلیفتہ المسلمین حضرت عمرؓ نے مسجدِ اقصیٰ کی چابی وصول کی جس کے بعد تاریخی فرمان جاری کیا کہ جو لوگ اس سرزمین پر ہیں ان کو جانی و مالی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، ان کے اہل و عیال، عبادت گاہیں، رسم و رواج اور تجارت اسی طرح رہیں گے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے وہاں خود نماز پڑھائی جس کے بعد باقاعدہ مسجد 705 میں مکمل ہوئی۔

پہلی صلیبی جنگ سلطان قزل اسلان سلجوقی اور اہلِ صلیب کے درمیان 1092 لڑی گئی جس کا اعلان مسیحوں کے روحانی پیشوا پوپ اربن ثانی نے 1095ء میں کیا تھا۔ مسلمانوں کا بے دریغ قتل کرنے کے بعد 15جولائی 1099 میں القدس پر قبضہ کر لیا اور 70 ہزار مسلمانوں کو بابِ داود کے سامنے شہید کر دیا۔ یہ قبضہ ایک صدی تک قائم رہا جس میں مغرب سے مشرق کی طرف یہود و نصاریٰ کو لا کر آباد کیا گیا۔

چھٹی صدی ہجری میں صلیبیوں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ اس جبر و تسلط کو ختم کرنے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187 میں صلیبیوں سے جنگ کی جسے جنگِ حطین کہا جاتا ہے۔ سلطان ایوبی نے اپنی حکمتِ عملی کے تحت بیت القدس کا 12 دن کا محاصرہ کرنے کے بعد شہر کو فتح کرکے فاتح القدس بنے۔ فتح حاصل کرنے کے بعد سلطان نے مسلمانوں کے قتلِ عام کا بدلہ لینے کی بجائے رحمدلی کا مظاہرہ کیا اور پھر مسجد اقصیٰ کو عرقِ گلاب سے دھلوایا۔ اس کے بعد یہودی مملکت بنانے کی سازشیں دوبارہ تیز ہوگئیں جب یہودیوں نے خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کو مختلف طریقوں سے پھنسانے کی کوششیں کیں مگر وہ کسی طرح بھی ان کے دام میں نہ آئے۔

یہودیوں کا ایک وفد سلطان سے ملا کہ اگر ان کہ فلسطین میں کچھ زمین مل جائے تو ہم خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت رہیں گے اور اس کے سارے قرضے بھی ختم کر دیں گے۔ اس موقع پر خلیفہ عبدالحمید نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر تاریخی جواب دیا کہ "اگر فلسطین کا اتنا حصہ بھی تم لینا چاہو گے تو تمہیں نہیں ملے گا"۔ 1909 میں سلطان کی وفات کے بعد اسرائیل نے اپنے پنجے مضبوط کرنا شروع کر دیے اور یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنا شروع کر دیا۔

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا مقدس مقام ہے۔ حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت موسیٰؑ تک بیت اللہ شریف ہی قبلہ رہا، پھر حضرت موسیٰؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک بیت المقدس قبلہ رہا۔ ہجرتِ مدنیہ کے بعد آقا نے تقریباََ سترہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمائی۔ ہجرت سے ایک سال ساڑھے پانچ مہینے بعد پندرھویں رجب کو مسجد بنی سلمہ میں نمازِ ظہر کے درمیان قبلہ کی تبدیلی ہوئی۔ اسی وجہ سے اس پاک سرزمین اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کا ایمانی و جذباتی تعلق ہے۔ ان تمام تاریخ حوالوں سے یہ بات واضح ہے کہ مسجد الاقصیٰ مسلمانوں کی میراث ہے اور اس حقیقت سے کوئی روگردانی نہیں کر سکتا مگر مسئلہ صرف مسلمانوں کے متحد ہونے کا ہے۔

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem